(بزم نہیں رزم، حفیظ جالندھری، ‘‘وصیت’’ سے کچھ اقتباس)
1919میں جالندھر میں ایک عظیم جلسہ الشان جلسہ تھا جس میں کشمیری رہنما
ڈاکٹر سیف الدین کچلوکی صدارت میں میری زبان سے پہلی قومی نظم ہزارہا
ہندوؤں مسلمانوں کے اجتماع میں سُنی گئی۔ نظم انگریز کے خلاف واقعی
باغیانہ تھی۔ اس وقت ہندو اور مسلمان خلافت اور کانگریس کی دونوں تحریکوں
کویکجا کئے ہوئے تھے۔ اس نظم نے شہر جالندھر میں ایک غلغلہ پیدا کردیا۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ تیسرے ہی دن امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے اندر
ہزارہا انساںوں کے اجتماع پر فوج کے ایک بریگیڈئیر نے مشین گن چلوائی۔
جالندھر چھاؤنی گورے جیش لے کر بے تحاشا نہتوں پر پل پڑا۔ اور سینکڑوں کو
بھون ڈالا۔ ساتھ ہی امرتسر ہی نہیں، پورے ہندوستان میں ہندو مسلمان لیڈر
گرفتار کرلیے گئے۔ میں نے نظم تو جالندھر میں سنائی تھی لیکن مجھے بھی این
ہم بچہ شُتراست گردان کر تین دن جالندھر حوالات اور بعد میں بوسٹل جیل
لاہور میں ہتھکڑیاں لگا کر لے گئے۔ قید رکھا اور دوسرے بزرگوں کی رہائی کے
ساتھ ہی رہائی ملی۔
رہائی تو ملی لیکن جالندھر کی پولیس مجھ پر ہی نہیں، میرے گھرانے پر بھی
روزوشب سایہ ڈالتی رہی۔ میں 1921 میں نے ایک ادبی رسالہ ‘‘اعجاز’’ نامی
جالندھر سے نکالا اور اُس کے لیے مولانا گرامی کی چٹھی لے کر حضرت علامہ
ڈاکٹر اقبال سے ان کے فرمودات لینے کو خود لاہور پہنچا۔ وہ اُن دنوں
انارکلی بازار میں ایک بالائی منزل پر متمکن تھے۔
یہاں سے میرا تعلق کشمیر کے ساتھ آغاز کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ میں علامہ کے
حضور بیٹھا تھا۔ علی بخش ان کا ملازم ایک چٹ لایا جس پر دو نام لکھے ہوئے
تھے۔ خواجہ سعد الدین شال اور سید نور شاہ نقشبندی از سری نگر کشمیر۔ علامہ
نے اُن کو بلایا۔ بٹھایا۔ میں ایک طرف بیٹھا ہوا سنتا رہا۔ گفتگو ریاست
جموں اور کشمیر کے بارے میں تھی۔ اس گفتگو کا لُبِ لباب جو میرے قلب پر
پیوست ہوا یہ تھا کہ پنجاب اور ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط ہٹانے کے لیے
ہندو مسلمان بھائی بھائی تو بن رہے ہیں، مگر ساری دنیا کے اندر ایک واحد
سرزمین جس کو ارضی بہشت قرار دیا جاچکا ہے اُس میں بسنے والے ترانوے فی صد
مسلمان جن کی تعداد بتیس لاکھ ہے۔ 1846 سے ہندؤں، ڈوگروں، سکھوں، برہمنوں،
بودھوں کے پنجے میں جانوروں کی طرح انگریزوں کے زیر شمشمیر انتہائی ذلت کی
زندگے بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جب بھی انسانیت کی زندگی اختیار کرنا چاہتے
ہیں، اُن پر ظلم وستم کی تازہ سے تازہ بارش کردی جاتی ہے اور اب روس، گلگت
کے راستے سے کشمیر پر اپنا پنجہ دراز کررہاہے۔
علامہ نے ان کو اتحاد اور جہاد کا مشورہ دیا۔ وہ چلے گئے۔ میں نے دیکھا۔
علامہ کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔ مجھے میرے رسالے کے لیے جو چند
اشعار دیے اُن میں سے ایک فارسی کا شعر یہ ہے:
ازخاکِ سمرقندے تر سم کہ دِگر خیزد
آشوب ہلاکُوئے، ہنگامۂ چنگیزے
جب میں سلام کرکے رُخصت ہونے لگا تو فرمایا: ‘‘شاعر اگر مومن ہے تو وہ شعر
سے بھی جہاد میں امداد کرسکتاہے۔’’
دراصل ان اقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ کشمیر کی آزادی 1919 سے ہی ہمارے
اکابرکی نظر میں موجود تھی، اور وہ چاہتے تھے کہ کشمیر مسلمان ایک آزاد
قوم کے طور پر زندگی گزاریں۔ حفیظ جالندھری صاحب کا ‘‘بزم نہیں رزم’’ کے
نام سے ایک کتابچہ موجود ہے۔ جس کا انتساب کچھ یوں ہے ‘‘اس کتاب کا دائمی
انتساب اُس والدہ محترمہ کے نام ہے جس کے مقدس آغوش نے جہادِ آزادیٔ
کشمیر کے اولین مجاہد کو پروش فرمایا۔ ع: یہی مائیں ہیں جنکی گود میں اسلام
پلتا ہے۔ حفیظ’’
اس کے باب اول میں ‘‘قبل از پاکستان۔ جون 1922 تا اگست 1947 ’’، جموں کے
مسلمان، چشم شاعر کا پہلا آنسو، صبح و شام کوہسار، فردوس بر روئے زمیں،
تصویر کشمیر، خون کے چراغ، سودا پچھتر لاکھ کا، قائد ملت چودہری عباس۔
دوسرے باب میں دوران پاکستان۔ 1947 تا 1974 ، ترانۂ آزاد کشمیر، پرچم
آزاد کشمیر، تشیہر آزاد کشمیر، جہاد کے اولین عوامل کامل، جنگ بندی میں
بھی، مریاں۔ میری بہن، ہم قسم کھاتے ہیں، تم اپنے گھر میں آئے ہو، تم ایک
بھی سو پر بھاری ہو، معجزہ موئے مبارک، پایانِ کار، خواجہ غلام کاذب، انکل
قیدی، اے نوجوانان وطن، غیرت مندماں، میں گہوارا تمھارا، جہاد فی سبیل
اللہ، ہم بیدار ہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان، گفتنی ناگفتنی، آگے بڑھے چلو،
مجاہد کیوں فتح پاتے ہیں، بوڑھے شیر، آہ چودہری عباس، حسن دستور العمل۔
|