سی پیک اور سیاسی عدم برداشت!

 کوئی شک نہیں رہا کہ اپنی قوم کی اکثریت تشدد پسند ہے، ’’مولاجٹ‘‘ اس کا آئیڈیل ہے، لڑائی مار کٹائی اور ایکشن سے بھر پور زندگی کو ہی یہ لوگ پسند کرتے ہیں۔ اصول پرستی اور دھیما انداز انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ جس کی مثال یہ لوگ عام انتخابات سے لے کر قومی (بلکہ بین الاقوامی ) معاملات میں بھی دیتے ہیں۔ مقامی سطح پر کوئی سادہ، باکردار یا اچھا آدمی کھڑا ہو جائے تو عام لوگ ہی اسے تنقید کا نشانہ بنابنا کر اور الیکشن والے دن ووٹ نہ دے کر برے طریقے سے ناکام بنا دیتے ہیں۔ اپنے عوام کے آئیڈیل وہ لوگ ہیں، جو دراصل خود اُن میں سے نہیں، ان کا رہن سہن، سوچ، بودوباش سب عام لوگوں سے مختلف اور بلند ہوتاہے۔ اپنے سے بہت ہی مختلف لوگوں کو اپنا نمائندہ بنانے کا ظلم کرنے کے بعد دوسرا ظلم عوام اپنے اوپر یہ کرتے ہیں کہ اپنے ’’قائدین‘‘ سے محبت کی حدیں پوجا اور پرستش سے جا ملاتے ہیں۔ صرف اُنہی کے لیڈر کا کہا حق ہوتا ہے، باقی سب باطل ہیں۔ اس ضمن میں میڈیا کا کردار بھی بہت خطرناک حدود کو چھو رہاہے، کہ وہ لیڈروں اور لوگوں کے جذبات کو مرچ مصالحہ لگا کر لوگوں تک پہنچانے میں دوسروں سے سبقت لے جانے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ چینلز پر سیاستدانوں کو مرغوں کی طرح لڑا کر جہاں چینلز والے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہاں انہی سیاستدانوں کے پیرو کار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔

اگرچہ میڈیا میں بات بہت بڑھ چکی ہے، مگر پھر بھی کچھ حدودوقیود ہیں، جن کی پابندی کرنا پڑتی ہے، سزا اور جرمانہ کا سامنا ہو جاتا ہے، کچھ دن کے لئے چینل کو بند بھی کردیا جاتا ہے، مگرسوشل میڈیا ؟ اﷲ کی پناہ !یہ تمام پابندیوں سے آزاد ہے، جس کے ذہن میں جو خیال آئے لکھ دے، جس کے منہ میں جو بات آئے بیان کردے، مغلظات کی جہاں تک گردان یاد ہو، ضبطِ تحریر میں لا کر اپنا باطن لوگوں کے سامنے ظاہر کردے۔ اگر یہاں سوشل میڈیا میں جذبات کا اظہار کرنے والوں کی زبان بولی جائے تو معاملہ برابر ہو جائے گا، ناچیز بھی انہی میں شامل تصور ہوگا، مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے بحث ومباحثہ کو پڑھنا، سننا اور دیکھنا بھی نہایت مشکل کام ہے۔ بظاہر تعلیم یافتہ لوگ غلاظت بھری ایسی ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہیں، کہ انسان سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ لیڈروں کی حمایت او رمخالفت میں کچھ گنجائش بھی رکھیں، یہ ہمارے سیاسی لیڈر انسان ہی ہیں، ان سے غلطی ہو سکتی ہے، انہیں فرشتہ اور دوسرے کو ابلیس قرار نہ دیں۔ خود پارٹیوں کو دیکھیں، چند سیاستدان ہی ملیں گے، جو عشروں سے کسی ایک ہی پارٹی میں قیام پذیر ہیں، ورنہ تو بہت سے نئے پرانے سیاستدان کئی کئی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ چاہنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ سیاستدانوں کو اپنے ایمان کا حصہ نہ بنائیں، انتہا پسندی کو فروغ نہ دیں، رویے میں لچک رکھیں، یہ نہ ہو کہ ٹوٹ کر ناکارہ ہی ہو جائیں۔

موجودہ حکمران چونکہ پانامہ لیکس کی وجہ سے اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنا پر مشکل میں ہیں۔ مخالفین نے تو اپنا کام کرنا ہی ہوتا ہے، حکمرانوں کو بھی اپنی پوزیشن قائم رکھنے کے لئے بہت سے جواز دینے ہوتے ہیں، اب باقی دلائل کے علاوہ قوم کو یہی بتایا جارہا ہے، کہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، مخالفین چونکہ ملک کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، اس لئے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ترقی کا سب سے بڑا منصوبہ ’سی پیک‘ ہی ہے۔ سی پیک پر انٹر نیشنل فورم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ’’․․․ سکیورٹی ادارے مستعد ہیں، راہداری منصوبہ کے حوالے سے کسی کو ہماری صلاحیتوں پر شک نہیں ہونا چاہیے ․․ کوئی بھی رکاوٹ آئے، سی پیک کو کامیاب بنائیں گے ․․․‘‘۔جمہوریت کا سلسلہ چلتے رہنا چاہیے، کہ یہ سیاستدانوں کا ہی کام ہے، اور ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ کے مصداق کوئی دوسری تیسری طاقت ادھر نہ آئے تو بہتر ہے، کتنا ہی بہتر ہو کہ سیاسی حکومت تمام اداروں کو مستحکم کرے، اُن سے اُن کی تفویض شدہ ذمہ داریوں کے مطابق کام لیا جائے ۔ اگر سیاسی لیڈروں سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں کو بھی صبر اور برداشت کا درس دیں تو یہ خوش فہمی مذاق ہی لگتی ہے، کہ اکثر لیڈر تو خود مولا جٹ بنے ہوئے ہیں، کارکنوں کو کیا روکیں گے؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472380 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.