پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے عملدر آمد
بنچ کی طرف سے تشکیل کردہ جے آئی ٹی یعنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے مقررہ
وقت پر بنچ کو اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔سپریم کورٹ اب اس معاملے کی سماعت
17 جولائی کو کرے گی اور عدالت نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ اس سماعت پر نئے
دلائل پیش کریں اور پہلے سے کہی گئی باتیں نہ دہرائی جائیں۔ اگلے مرحلے میں
جس فریق کے بھی اس پر اعتراضات ہوں گے وہ انھیں تحریری شکل میں سپریم کورٹ
میں داخل کرا دے گا۔ مختلف حلقے رپورٹ کے سلسلے میں اپنے اپنے تحفظات جبکہ
قانونی ماہرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی
رپورٹ صرف ججوں کے اطمینان کے لئے ہے۔ عملدر آمد بنچ اس بات کا جائزہ لے
کرطے کرے گا کہ اس کے سارے حصے قابل قبول ہیں یا ان میں سے کچھ قابل قبول
اور کچھ ناقابل قبول ہیں، پھر کسی نتیجے پر پہنچے گا اور ممکنہ طور پر
فریقین کو نوٹس جاری کرنے اور ان کا موقف سننے کے بعد اپنا فیصلہ سنا دے گا
لیکن بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عملدر آمد بنچ خود فیصلہ کرنے کی بجائے رپورٹ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیج سکتا ہے جو اسے ابتدائی 5رکنی بنچ کو ریفر
کر سکتے ہیں یا اس پر غور اور فیصلے کیلئے نیا بنچ تشکیل دے سکتے ہیں۔ تاہم
یہ بات طے سمجھی جا رہی ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں شریف خاندان سے
تحقیقات اورتفتیش کے نتائج پیش کئے ہیں۔ فیصلہ نہیں دیا۔ یہ کام سپریم کورٹ
کا ہے کہ وہ کمیٹی کی رپورٹ دیکھے اور حتمی فیصلہ سنائے۔ جے آئی ٹی کے بارے
میں مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے تحفظات بھی موجود ہیں۔ خود وزیر اعظم
میاں نوازشریف کا بیان کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، جے آئی ٹی کو ان کے خلاف
الزام کی حد تک بھی کچھ نہیں ملا۔ ان کے مطابق احتساب کے نام پر تماشا ہو
رہا ہے اور ان کے ذاتی کاروبار کو کھنگالا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ
بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ملک میں وزیراعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات میں اس
طرح کی تحقیقات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔میرے ذاتی خیال کے مطابق
بھی پاناما کیس میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد ڈھونڈنے والی
جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے تحقیقات کے دوران شریف خاندان کے ہر
فرد بشمول نواز شریف کی سیاسی وارث سمجھی جانیوالی ان کی صاحبزادی مریم
نواز، دو بیٹیوں حسین نواز اور حسن نواز سے سوال جواب کئے لیکن جے آئی ٹی
کی 254 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں وہ شریف فیملی کی طرف سے قومی
خزانے یا عوام کے فنڈز میں کرپشن کی کوئی ایک دلیل یا ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
60دن میں ذاتی کاروبار کی چھان بین کی گئی، عوامی منصوبوں میں لوٹ مار کے
کوئی شواہد نہیں ملے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جن تحقیقاتی پہلوؤں کا جائزہ
لیا گیا ان میں بیشتر معاملات شریف فیملی کے اثاثہ جات، کاروباری وصولیوں
اوربینکوں سے رقومات کی ترسیل سے متعلق تھے۔ اس رپورٹ میں کہیں بھی نہیں
لکھا کہ شریف فیملی قومی یا عوامی منصوبوں میں کرپشن یا کک بیکس میں ملوث
پائی گئی ہے یا یہ الزام کہ حکمران خاندان کے افراد نے کسی بھی منصوبے میں
رشوت کے پیسے لئے ہوں، یا یہ الزام کہ عوام کا پیسہ ذاتی جیب میں ڈالنے کے
لئے من پسند افراد کو ٹھیکے دیئے گئے ہوں۔بہرحال ملکی تاریخ میں اس مقدمے
کے فیصلے کے بہت دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ پر مقدمے کے
فریقین مکمل اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے ہر فیصلے
کو قبول کرنے کا بار بار اعلان کیا ہے، یقیناً توقع بھی یہی ہے کہ عدالت کا
فیصلہ آئین قانون اور انصاف کے تمام تقاضوں کے مطابق ہو گا۔جبکہ انتہائی
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جن کو وفاقی
کابینہ میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر
اعظم نواز شریف کی قائد ایوان کی نشست کے ساتھ بیٹھتے ہیں ، وہ پاناما لیکس
پر جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد سے آخری اطلاعات تک
وزیراعظم ہاؤس نہیں گئے اور منگل کو بھی وہ پورا دن پنجاب ہاؤس میں موجود
رہے جہاں وہ اکثر سرکاری ملاقاتیں اور اجلاس منعقد کرتے ہیں لیکن انہوں نے
کسی سرکردہ لیگی رہنما سے نہ تو کوئی ملاقات کی اور نہ ہی وہ وزیراعظم ہاؤس
گئے۔
چوہدری نثار وزیراعظم نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے حاضری کے وقت ان کی
گاڑی چلاکر وفاقی جوڈیشل اکیڈمی گئے تھے اور اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب کی
گاڑی چلاکر بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے انہیں فیڈرل جوڈیشل
اکیڈمی چھوڑ کر آئے تھے لیکن اب انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے
اور اس سارے معاملہ پر نہ تو اب تک کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی رپورٹ کے
مندرجات کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی رائے زنی کی ہے۔ چوہدری نثار کی طرف
سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر خاموشی توڑنے کا بہت سے ن لیگی انتظار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر
جنرل ہونے کے ناطے وزیرداخلہ چوہدری نثار کے ماتحت ہیں۔ |