بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر: حبیب اﷲ قمر
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے پیش کئے گئے مطالبات تسلیم نہ
کئے جانے پر قطر پر پابندیاں برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔کویت کے
امیر شیخ صباح الاحمد الصباح کی اپیل پر قطر کو مطالبات کی منظوری کیلئے دی
گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد دو دن کا اضافہ کیا گیا تھا تاہم یہ مدت بھی
کئی دنوں سے ختم ہو چکی ہے لیکن قطر کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا
گیا۔ سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے قطر کے تنازعہ پر اگرچہ میڈیا میں بہت
کچھ شائع ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلہ میں صحیح حقائق لوگوں کو معلوم
نہیں ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں پاکستان میں سعودی عرب کے قائمقام سفیر مروان
بن رضوان کی جانب سے اسلام آباد اور لاہور میں دو تین نشستوں کا اہتمام کیا
گیا جس میں زیادہ تر گفتگو قطر تنازعہ سے متعلق ہی رہی جس سے بہت کچھ سننے
کو ملا اور بعض ایسی باتیں علم میں آئیں جن سے متعلق پہلے قطعی طور پر
معلوم نہیں تھا۔ قائمقام سعودی سفیرنا صرف یہ کہ انتہائی متحرک، اچھے اخلاق
کے حامل اور خوش گفتار ہیں بلکہ وہ عرب ملکوں اور جنوب ایشیا سمیت بین
الاقوامی حالات پر گہری نظر اور مطالعہ رکھتے ہیں۔وہ لوگوں میں گھل مل جانے
والی شخصیت ہیں۔سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس
شخصیت کے طور پر ابھری ہے۔ جن لوگوں کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا
ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مروان بن رضوان میں وہ تمام خوبیاں موجود
ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی
چاہئیں۔اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے اعزاز میں لنچ کی ایک تقریب میں
سینئر صحافیوں کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔ اسی طرح لاہور کے مقامی ہوٹل میں
سعودی سفارت خانہ نے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے ایک نشست کا اہتمام
کیا جس میں محترم مجیب الرحمن شامی، سعید آسی، نوید چوہدری ،عرفان اطہر
قاضی، رؤف طاہر، فضل حسین اعوان، مزمل سہروردی، یاسین وٹو اور عمار غالب
سمیت بعض دیگر احباب شریک ہوئے۔ اس دوران سعودی سفیر نے بڑے احسن انداز میں
تمام سوالات کے جواب دیے جس پر مجیب الرحمن شامی سمیت تمام صحافی دلی طور
پر مطمئن نظر آئے اور سب کا یہی کہنا تھا کہ پاک سعودی تعلقات کے تناظر میں
ایسی شخصیت کو ہی ذمہ دار ہونا چاہیے اور یہ کہ مروان بن رضوان پاکستان میں
مستقل سعودی سفیر کے حوالہ سے واقعتا آئیڈیل شخصیت ہیں جن کی موجودگی سے
یقینا دونوں ملکوں کے تعلقات مزید پروان چڑھ سکتے ہیں۔
قائمقام سعودی سفیر کی ذمہ داری انہیں ایسے موقع پر تفویض کی گئی ہے جب
اسلامی عسکری اتحاد کیخلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے اور حالیہ دنوں میں قطر
تنازعہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔یقینا یہ ایک مشکل صورتحال ہے تاہم جس طرح
وہ سیاسی ومذہبی لیڈروں اور سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اس کے
دور رس اثرات مرتب ہوں گے اوربرادر اسلامی ملک کیخلاف پروپیگنڈا کا توڑ
کرنے میں مدد ملے گی۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی
جانب سے اچانک قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیوں کیا گیا ہے تو حقیقت ہے کہ ایسا
نہیں ہے۔ قطر کا بائیکاٹ کئے جانے کا ایک طویل پس منظر ہے جسے سامنے رکھنے
کی ضرورت ہے۔ معروف غیر ملکی صحافی رابرٹ فسک نے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ میں شائع
ہونے والے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ جب ایک مرتبہ میں نے قطری
امیر کے والد شیخ حماد سے پوچھا کہ وہ امریکیوں کو قطر سے نکال باہر کیوں
نہیں کرتے تو ان کا جواب تھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو عرب مجھ پر چڑھ
دوڑیں گے۔ رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ اب بیٹے کا معاملہ بھی باپ والا ہے اور
قطری امیر شیخ تمیم کو اس بات کی امید ہے کہ قطر میں موجود امریکہ کی بہت
بڑی ایئر بیس سعودی افواج کے قطر میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہو گی۔
رابرٹ فسک کی ان باتوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قطر نے معدنی وسائل سے
بھرپور اس خطہ کو امریکیوں کی گود میں ڈال رکھا ہے۔وہ ایک طرف سعودی عرب کی
سرپرستی میں اکتالیس ملکی اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کرتا ہے اور دوسری
جانب اس پر مذکورہ ملکوں کے مفادات کیخلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بھی
الزام ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ الریاض، تیونس، قاہرہ اور دیگر
اسلامی ملکوں کے دارالحکومتوں کی جانب سے خونریزی کا شکار ہونے کے باوجود
مصلحت پسندی کے تحت قطری حکام سے بہت زیادہ سخت رویہ اختیار نہیں کیا لیکن
اب جبکہ مسلمان ملکوں کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلوں کی
کوششیں کی جارہی ہیں تو ایسے حالات میں قطریوں کی ڈبل گیم کو زیادہ دیر تک
برداشت نہیں کیا جاسکتا۔سعودی عرب کا کہنا ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں قطر
کو بار بار سمجھایا گیا تاہم وہ اپنی روش سے باز نہیں آیا۔قطر نے 2014ء میں
باقاعدہ معاہدہ کیا تھا کہ اس کی سرزمین دہشت گردوں کو فنڈنگ اور سپورٹ
کیلئے استعمال نہیں ہو گی لیکن اس نے اپنے اس معاہدہ کی بھی پاسداری نہیں
کی ۔ سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی جانب سے دوحہ کو دی گئی فہرست میں مطالبہ
کیا گیا ہے کہ وہ عرب ممالک کے خلاف ابلاغی پروپیگنڈہ، بند کرے، عرب ملکوں
میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو پناہ دینے کے بجائے انہیں ان کی حکومتوں
کے حوالے کرے،دہشت گرد قرار دی گئی تمام تنظیموں سے اپنا تعلق ختم اور ان
کی فنڈنگ بند کرے۔فہرست میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قطری حکومت سعودی عرب
اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والی حزبِ اختلاف کی ان شخصیات کے متعلق بھی
مکمل معلومات فراہم کرے جن کی ماضی میں قطری حکومت مدد کرتی رہی ہے۔صحافیوں
سے ملاقات کے دوران سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ مختلف ملکوں کے طیارے سعودی
عرب کی حدود سے گزر کرقطر جارہے ہیں ہم نے انہیں روکا نہیں ہے۔ اسی طرح جن
کی جوائنٹ فیملیاں ہیں اور ایک دوسرے کے ملکوں میں شادیاں ہوئی ہیں انہیں
بھی آنے جانے کی کھلی اجازت ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے سعودی عرب
کیخلا ف قطری شہریوں کے عمرہ پر پابندی کی بات درست نہیں ہے۔ قطری شہری ان
دنوں بھی حرمین شریفین کی زیارت اور عبادات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ہم
نے حرمین کو اس مقصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ یہاں آنا اور حج و عمرہ
وغیرہ کرنا ہر مسلمان کا حق ہے۔ کوئی انہیں کیسے روک سکتا ہے؟۔ رمضان
المبارک میں بڑی تعداد میں قطری شہریوں نے عمرہ کی ادائیگی کی ہے۔ ہم کسی
سنی اور شیعہ کیخلاف نہیں ہیں بلکہ ہر اس شخص کیخلاف ہیں جو انتشار پیدا
کرتا اور خطہ عرب میں تباہی وبربادی پھیلانا چاہتا ہے۔سعودی سفیر مروان بن
رضوان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کیخلاف دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے کے
الزام لگائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نائن الیون میں بھی سعودی شہری
ملوث تھے؟ تو میں سمجھتاہوں کہ یہ انتہائی گھٹیا پروپیگنڈا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ
سنٹر سارا تباہ ہو گیا اور اس کے بڑے بڑے ستونوں سمیت ہر چیز پگھل گئی لیکن
سعودی شہریوں کے پاسپورٹ مبینہ طور پرمحفوظ رہے۔ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو
سکتا ہے۔سعودی عرب تو خود دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ مسجدنبویﷺ
اور بیت اﷲ تک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ داعش جیسے تکفیری گروہوں
کو منظم منصوبہ بندی کے تحت یہاں پروان چڑھانے کی کوششیں کی گئی ہیں اور ہم
نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں اس لئے ہم پر ایسے
الزامات لگانا بہت افسوسناک ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قطر کے سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کے حوالہ سے بعض
میڈیا کے اداروں کی جانب سے بے پر کی اڑائی جارہی ہیں۔ قطرسے متعلق بھی
کہاجارہا ہے کہ وہ خطہ میں آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن تھا اور امریکہ کو
چونکہ یہ بات پسند نہیں تھی اس لئے اس کا بائیکاٹ کروادیا گیا ہے‘ یہ بات
انتہائی مضحکہ خیز ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قطر کے
نام سے یہ خلیجی ریاست امریکہ کے سب سے بڑے جنگی اڈے کی حیثیت رکھتی
ہے؟۔کیا یہاں سینکڑوں لڑاکا طیارے، بیس ہزار سے زائد امریکی فوجی اور جدید
ترین اسلحہ کے ڈھیرموجود نہیں ہیں؟ ۔سعودی عرب، مصر ، بحرین اور متحدہ عرب
امارات کی طرف سے کیا جانے والا بائیکاٹ وہاں نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ
دوحہ کودہشت گرد گروہوں کو امداد فراہم کرنے والی پالیسیاں تبدیل کرنے
کیلئے دباؤ بڑھانا ہے۔سنگین علاقائی ضروریات کے پیش نظر‘ یہ ناخوشگوار مگر
ناگزیر اقدامات کرنا سعودی عرب اور دیگر ملکوں نے ضروری سمجھااور پھر ان پر
عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔حال ہی میں کئے گئے ان فیصلوں کے واضح اثرات
آنے والے دنوں میں دکھائی دیں گے۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کو مل کر
اسلامی اتحاد کو مضبوط بنانا چاہیے اور قطر پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ
اسلامی ملکوں کے اتحاد کا حصہ بنے۔ قطری حکام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی
چاہیے کہ موجودہ حالات میں امریکیوں کی خوشنودی کیلئے مسلمان ملکوں کو باہم
تقسیم کرنے کی سازشوں کا آلہ کار بننا دانشمندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ |