قوم کی ہی نہیں اس امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے گذشتہ دنوں وطن عزیز کے قلم کاروں کو موجودہ حالات
میں تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں حکمرانوں کے کردار سمیت
متعلق بیانات اور اس کے بعد رونما ہونے والی صورتحال میں ان کی ذمہ کو مزید
احسن انداز میں ادا کرنے کیلئے اک خط لکھا۔ جسے متعدد قلم کاروں نے اپنی
تحریروں کا محور بنایا اور کچھ اخبارات نے اس خط کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے
اداریئے بھی اس موضوع پر لکھے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اک ماہر نیورولوجسٹ ہونے
کے ساتھ مرگی (ایپی لیپسی) کے بھی ماہر معالجہ ہیں۔ اپنی بہن کی اس قوم کی
بلکہ اس امت کی بیٹی کی رہائی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی کو اپنے روشن
مستقبل کو دا?پر لگاتے ہوئے ایک تحریک شروع کر رکھی ہے اور اس تحریک میں ان
کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کام کرنے والے ہزاروں رضاکار
موجود ہیں۔ مقاصد کے حصول کیلئے اک جہد مسلسل برسوں سے اس امید کے ساتھ
جاری ہے کہ انہیں وہ وقت وہ خبر جلد دیکھنے اور سننے کو ملی گی کہ امریکہ
نے امت کی بیٹی کو باعزت رہا کردیا ہے۔
یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے متعدد بار ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کی والدہ سے ان کے بچوں مریم و احمد تک سے وعدے کئے کہ وہ جلد
ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی دلواکر وطن واپس لائیں گے لیکن آج تک
ان کا کوئی بھی وعدہ اس حوالے سے پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کیوں وعدہ پورا
نہیں کیا ،اس کا جواب مسلم لیگ کا کوئی کارکن نہیں ، حکمران جماعت کا کوئی
عہدیدار نہیں اور شریف خاندان کا کوئی بھی فرد نہیں دے سکتا بلکہ اس سوال
کا جواب نواز شریف کو خود دینا ہوگا۔اس سوال کا جواب اگر وہ آج نہیں دیں گے
تو مستقبل میں دینا ہوگا اور اگر وہ مستقبل میں بھی وعدہ خلافی کی طرح اس
بات کو بھلا دینگے تو یوم آخرت پر تو انہیں جواب دینا ہی ہوگا۔ انہیں یہ
سوچنا چاہئے کہ آج اگر جے آئی ٹی کی کاوشوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی
صورتحال پر ان کے ان سمیت پورے خاندان کی یہ کیفیت ہے تو اس روز ان کی کیا
کیفیت اور کیا جوابات ہونگے۔ ان کو اپنی مریم کی بہت فکر ہے لیکن انہیں
ڈاکٹر عافیہ کی مریم کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی ان سے کیا گیا وعدہ یا د
ہے۔ یاد رہہ بھی کیسے سکتا ہے ، ان کی مریم اک وزیر اعظم کی مریم ہے اور
ڈاکٹر عافیہ کی مریم اک مظلوم قیدی کی مریم ہے۔۔۔۔۔
بہرحال ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے قلم کو کہا ہے کہ جس طرح انہوں نے ماضی میں
قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے آواز اٹھائی ہے اسی طرح اب بھی حالات و واقعات
کی روش کو سمجھ کراپنا کردار ادا کریں اور حکمرانوں کو عوام کے جذبات سے
آگاہ کرتے ہوئے مجبور کریں کہ وہ اپنا عودہ پورا کریں اور ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کو باعزت رہائی دلوائیں۔
قلم کاروں کیلئے ہی نہیں ہر فرد کیلئے ان کی تحریر زیر خدمت ہے۔ اس شہر میں
، کسی بھی شہر میں ہوں اس ملک میں کسی بھی ملک میں موجود ہیں اس وقت یہ
ضروری ہے کہ اک بوڑھی اور بیما ر ماں کیلئے ، مظلوم بچوں کیلئے ان کے ساتھ
کھڑا ہوا جائے اور ہر فرد اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرئے۔
مورخہ 10 جولائی کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے خبر
شائع ہوئی ہے کہ ” میں جھوٹ نہیں بول رہا، پاکستانی لیڈر بیان بدل رہے
ہیں“۔16 مارچ 2011 میں پاکستانی قیادت نے ریمنڈ ڈیوس کو عدالتی کور دے
کراچانک ملک سے اس طرح فرار کرایا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود سے باہر
نکلنے پر قوم کو اس کے ملک سے چلے جانے کی خبرملی تھی۔6 سال کے طویل عرصہ
کے بعداس سال2017 میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب 'The Contractor'' منظر عام پر
آئی ہے۔ جس میں ریمنڈ نے اپنی رہائی میں کردار ادا کرنے والی سول اور عسکری
قیادت کے کردار کو جس طرح بے نقاب کیا ہے اس کی تفصیلات پڑھ کرہر صاحب ضمیر
شخص کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔اگر ریمنڈڈیوس کی رہائی کے بدلے قوم کی بے
گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ کوباعزت طور پر وطن واپس لایا جاتا تو ریمنڈڈیوس کے
پاس کتاب لکھنے کیلئے کوئی مواد نہ ہوتا اور دنیا بھرمیں پاکستانی قوم کی
اس طرح جگ ہنسائی نہ ہوتی۔
2016ءمیں امریکی انتظامیہ اور صدر باراک اوبامہ عافیہ کو باعزت طور پر
پاکستان کو دینے پر آمادہ تھے بس ذرا سی اخلاقی جرات اور سیاسی بصیرت کی
ضرورت تھی۔ عافیہ کے امریکی وکلا اسٹیون ڈانز اور کیتھی مینلے سے امریکی
انتظامیہ نے خود رابطہ کرکے صدارتی معافی کے سلسلے میں صدرمملکت یا
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے ایک خط کا مطالبہ کیا تھاکیونکہ پاکستانی شہری
ہونے کی وجہ سے باراک اوبامہ حکومت پاکستان کی باضابطہ درخواست کے بغیر
عافیہ کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔اس وقت حکومتی حکام نے ہمیںیہ
کہہ کر دلاسا دیا کہ جہاںآپ کے خاندان نے14 سال کی طویل مدت تک صبرو تحمل
سے کام لیاہے ملک اور قوم کی خاطر شکیل آفریدی کے تبادلے میں عافیہ کی
واپسی کے کچھ انتظار کی اور قربانی دے دیں۔
شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے معاملات طے کرنے کیلئے حکومت پاکستان کی
نمائندگی کرتے ہوئے طارق فاطمی اوروزیرخزانہ اسحاق ڈارامریکہ کا دورہ کرچکے
ہیں۔ جس کی تفصیلات عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں۔
امریکی حکام 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنے
کیلئے تیار تھے۔ 2016 میں امریکی صدارتی معافی کے ذریعے عافیہ کی رہائی کا
ایک انتہائی آسان، نادر اور سنہرا موقع مسلم لیگ ن کی حکومت گنواچکی ہے۔اس
سال 2017ئ میں امریکی مطالبہ پر شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملات بیک ڈور
چینل پرطے کئے جارہے ہیں۔ جس کا اظہار امریکی حکام تو بلاجھجک کرتے ہیںجبکہ
پاکستانی حکام عافیہ کی وطن واپسی کے معاملے میں شرمناک رویہ اپنائے ہوئے
ہیں۔عافیہ کی باعزت وطن واپسی کے بغیر ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کی
رہائی اقوام عالم میں ملک اور قوم کیلئے انتہائی ذلت و رسوائی کا سبب بنے
گی اور یہبھی یاد رہے کہ قدرت بھی بار بار مواقع عطا نہیں کرتی بلکہ گرفت
کرتی ہے۔القرآن : اِنَّ بَطشَ رَبِکَ لَشَدِید٭ بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی
شدید ہے۔ (البروج)
ماضی کے تجربات کی وجہ سے عافیہ کے اہلخانہ اور قوم کا تشویش میں مبتلا
ہونا ایک فطری امر ہے۔
کیا ایک مرتبہ پھرڈالروں کے بدلے قومی وقار کا سودا ہونے جارہا ہے؟
آپ سے استدعا ہے کہ اس اہم اور نازک موقع پر قوم اور امت مسلمہ کی مظلوم
بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے حکمرانوں، اپوزیشن ، سیاسی و عسکری
قیادت اور ریاستی اداروں کو ان کی دینی، ملی اور آئینی ذمہ داریوں کا احساس
دلائیں تاکہ ریمنڈڈیوس کی رہائی جیسی شرمناک ذلت سے ملک اورقوم کو ایک
مرتبہ پھر دوچار نہ ہونا پڑے۔ آپ کی یہ کاوش دنیا میں عزت و افتخار اور
آخرت میں نجات اور اجرعظیم کا باعث بنے گی۔ انشائ اللہ۔آپ کے تعاون اور
جواب کی منتظر۔
آپ کی بہن
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
(نیورولوجسٹ، ماہر ایپی لیپسی)
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والے رضاکار جب بھی کسی موقع
پر دل برداشتہ ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے روئیے سمیت سیاستدانوں کے روئیے پر
دل برجستہ ہوتا ہے تو ایسے موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت
صدیقی اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ان رضاکاروں کی ہمت و حوصلے کو کم ہونے
نہیں دیتیں بلکہ انہیں یہ کہتی ہیں کہ کاوش کرنا ان کا کام ہے اور اس کاوش
کو کامیاب کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔ اس لئے اپنی کاوشیں جاری اس امید
پر رکھیں کہ اللہ جلد انہیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ انشاﺀ اللہ
نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ انہیں اس
معاملے کو حل کرنا ہے۔ اس غرض کیلئے انہیں عملی اقدامات سرانجام دینے ہیں۔
اپنے لئے ، اپنے سیاسی جماعت کیلئے ، اپنے ملک و وطن کیلئے ،انسانیت کیلئے
اور سب سے بڑھ کر اللہ کیلئے انہیں یہ کام کرنا چاہئے اور اگر وہ اب بھی
ایسا قدم نہیں اٹھاتے تو پھر انہیں موجودہ رونما ہونے والے حالات سے ہی کچھ
درس لے لینا چاہئے۔۔۔۔ |