پاکستان اس وقت سیاسی بحران سے گذر رہا ہے ۔ آئینی بحران
پیدا ہونے جا رہا ہے ۔اداروں کے درمیان تصادم پیدا کرانے کی کوشش کی جا رہی
ہے ۔شمال مغربی اور مشرقی سرحدوں کی حفاظت نظریاتی اساس کے ساتھ نہایت
تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عوام
مسلسل انتہا پسندوں کی زد میں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان آئندہ انتخابات
کے لئے بیان بازیاں و الزام تراشیاں بام عروج پر پہنچ چکی ہیں ۔ عوام
مہنگائی کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ۔ اب" سب کچھ ٹھیک ہے "نہیں چلے گا ۔
پاکستان میں قائم لنگڑی لولی جمہوریت کو نا جانے کس سے خطرہ ہے جبکہ موجودہ
نظام ہی سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ جو عوام کو اس حقوق نہیں دلا سکتا ۔ عوام کو
امن مہیا نہیں کرسکتا ، عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولت فراہم نہیں کرسکتا
۔ پاکستانی عوام کے مزاج کے مطابق موجودہ پارلیمانی نظام سوائے ناکام طرز
حکومت کے کچھ نہیں ہے ۔ دو ایوان پر مشتمل مقننہ عوام کو جمہوریت کے نام سے
وہ ثمرات فراہم نہیں کرسکے ، جس کا دعوی پارلیمانی نظام میں کیا جاتا ہے۔
آمریت کے نظام کو پاکستانی عوام اس لحاظ سے پسند کرتی رہی ہے کیونکہ سیاسی
جماعتوں کی باہمی چپقلش اور اقتدار کی جنگ میں عوامی مفادات نظر انداز ہونے
پر اپوزیشن نے ہمیشہ چور راستے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش کی ۔ جس
میں انھیں کامیابی ملتی رہی ، لیکن اس بار تمام تر کوششوں کے باوجود مسلح
افواج نے اقتدار کے حصول کیلئے ، سیاسی جماعتوں کی تمام تر ترغیبات کو رد
کیا۔گو کہ پاکستانی عوام بخوبی جانتی ہے کہ اپوزیشن تین سال سے زیادہ کسی
کو بھی مسند اقتدار پر بیٹھنے کو برداشت نہیں کرتی اور فوری طور پر ایسے
حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو ایک کونے میں
دھکیل دیا جاتا ہے ۔ لیکن پاکستانی عوام کی عجلت پسندی اور جلد باز طبعیت
کی وجہ سے دوبارہ انارکی پیدا ہوجاتی ہے اور شیروانی پہنے ہوئے وہی پرانے
چہرے سامنے آجاتے ہیں جن کو ہر بار یہی پاکستانی قوم ووٹ دیکر منتخب کرتی
رہتی ہے اور پھر اپنی زبوں حالی کا ذمے دار بھی انھیں قرار دیتی ہے ۔
موجودہ ملکی حالات میں ایسی کسی سیاسی جماعت کو رول ماڈل قرار نہیں دیا جا
سکتا ، جس پر متفقہ طور پر عوام اپنے یقین محکم کرے ۔ ہر سیاسی جماعت کے
حامی بھی اتنے ہی ہیں جتنے مخالفین ہیں ۔ ان تمام حالات میں مختلف اداروں
کا کردار ایک الگ بحث ہے ، جس میں عوام کو کسی بھی ادارے پر بھروسہ نہیں
رہا ہے ۔ عوام کسی فرد واحد کا نہیں سب کا احتساب چاہتی ہے ، لیکن یہ بھی
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ "پہلا پتھر مارنے والا " بھی یہاں کوئی ادارہ یا
فردفرشتہ نہیں ہے ، کالی بھیڑوں نے پاکستان کے تمام اداروں کو یرغمال بنا
لیا ہے ۔ پاکستان کے تمام سیاست زدہ ادارے ، ریاست کیلئے نہیں بلکہ اس
سیاسی جماعت کے لئے کام کرتے ہیں ، جو اقتدار میں ہوتی ہے ۔ کسی ایک ادارے
کی فہرست رکھ کر ہم سب کو ایک کسوٹی میں بھی نہیں پرکھ سکتے ، لیکن عوام
میں کم ازکم اتنا شعور تو ضرور آگیا ہے کہ موجودہ نظام ان کے مسائل کا حل
نہیں ہے ۔پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اپنے مراعات میں اضافہ کرنے میں متحد تو
نظر آتے ہیں ، لیکن غریب کے گھر میں چولہا جلانے کیلئے ان میں شدید
اختلافات ہیں ۔ کسی شادی کی تقریب میں بغل گیر تو ہوتے ہیں لیکن جب کسی ٹاک
شو میں بیٹھتے ہیں اور الزامات کا ایک پہاڑ کھڑا کردیتے ہیں تو عوام اپنے
گریبانوں میں جھانکنے لگتی ہے ۔ بدترین جمہوریت ، آمریت سے بہتر ہے ، کا
الاپ سنا سنا کر کان پکا ددیئے ہیں۔ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اربوں
روپے سڑکیں بارش کے پہلے قطرے میں ہی ڈوب جاتے ہیں ۔ زمین میں مسلسل عوام
کا ٹیکس سے حاصل شدہ سرمایہ ڈبویا جارہا ہے ، لیکن اس سے ملک کی تقدیر اور
عوام کی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی ۔
ایوان زریں اور زیوان بالا کا یہ ہجوم اور بیورو کریٹس کو ملنے والے مراعات
اور تنخوائیں ، سفید ہاتھی ہیں ۔ہم برسا برس سے یہ سنتے چلے آئے ہیں کہ ایک
چپڑاسی کی نوکری کیلئے تحریری ٹیسٹ ، انٹرویو اور قابل ہونا ضروری ہے ،
لیکن کسی محکمے کا وزیر بننے کے لئے اس کا تجربہ نہیں ، بلکہ حکمران کا وفا
دار ہونا ضروری ہے۔اتنی چھوٹی سی بات ووٹ دینے والے کے دماغ میں کیوں نہیں
سماتی کہ کیا تعلیم کی وزرات کے لئے ، کسی معمولی اور واجبی تعلیم رکھنے
والا زیادہ بہتر کام کرسکتا ہے یا پھر موجودہ زمانے کے تقاضوں کے ہم آہنگ
ایک ایسا ماہر تعلیم جو ایک نظام تعلیم کے تحت غریب کے بچے کو بھی اتنا ہی
قابل بنا سکے ، جس کی اپنی اولاد سرکاری اسکول میں پڑھنے میں فخر محسوس کرے
۔ صحت کے شعبے میں کون بہتر کام کرسکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ کسی وزیر کا
علاج بھی اسی اسپتال میں ہوسکے ، جس میں غریب کا ہوتا ہے ۔
ہم خود ایسے افراد کو منتخب کرتے ہیں جو قیمتی و مہنگی گاڑیوں اور کثیر
تعداد میں مسلح گارڈز کے قافلے کے ساتھ ناک پر رومال رکھ آتا ہے ، اور پھر
ووٹ لینے کے بعد ، سیلمانی ٹوپی لیکر غائب ہوجاتا ہے ۔ کیا ہم پاکستانی
عوام اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو اپنے بچوں کو یہ یقین دلاسکتے ہیں کہ
وہ جس سیاسی لیڈر کی تصویر لگائے کر من و سلوی کا انتظار کررہا ہے ۔وہ
پاکستانی قوم میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ کیا کوئی ایک ایسا لیڈر ہے ، جس
کی قریر سننے کے بعد کوئی انگریزی سے ناواقف شخص یہ کہے کہ ’ مجھے سمجھ میں
کچھ آیا تو نہیں لیکن جو اس نے کہا ہوگا ، وہ سچ و درست ہے ’ ۔ہمیں نظام
بدلنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ پارلیمانی نظام ،کا تجربہ مکمل طور پر ناکام
ہوچکا ہے ۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والا کوئی ممبر اسمبلی وزیر نہیں
بنتا ، بلکہ غیر منتخب شدہ فرد کسی بھی اہم وزارت کا ان داتا ضرور بن جاتا
ہے ، جو عوام کو جواب دہ بھی نہیں ہوتا ۔
اسلامی نظام دنیا کا بہترین نظام حیات ہے ، لیکن ایسے ہم نے خود اتنا
متنازعہ بنا دیا ہے کہ جیسے اس میں سوائے فساد فی الارض کے سوا کچھ نہیں
نکلتا ۔ مطلق العنان حکمران قوت حاصل کرنے کے بعد وہ فیصلے بھی کرسکتا ہے
جو سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے کئی عشروں سے حل طلب ہیں ،
لیکن وہ جب اپنے اقتدار کے دوائم کے لئے پٹے ہوئے مہروں کو اپنے ساتھ ملا
لیتا ہے تو اس کا انجام اور اسے اچھے لفظوں میں یاد کی روایت پاکستان کی
تاریخ میں کم ازکم نہیں ہے۔تو اس صورت میں کیا رہ جاتا ہے کہ ہم اداروں سے
بھی مطمئن نہ ہوں ، ان میں موجود کالی بھیڑوں کی سازشوں سے بھی محفوظ نہ رہ
سکیں اور ایک ایسا نظام عوام کو مل سکے ، جس میں ادارے اپنی حدود میں رہتے
ہوئے سب کا احتساب بلا تخصیص و بلاخوف کرسکیں اور ایک فلاحی ریاست کا قیام
عمل میں آسکے ۔ صدارتی نظام کئی ممالک میں قائم ہے اور کامیابی سے اداروں
کو مضبوط کرنے کے ساتھ عوام کیلئے ایک ایسی کابینہ بھی قائم کرتا ہے جو
اپنے امور میں ماہر ہوتے ہیں ۔ پارلیمانی نظام کے ساتھ صدارتی نظام بھی ہے
۔ عوام سے اس سلسلے میں رائے لی جا سکتی ہے ۔ دونوں نظام کے انصرام اور
انتظام پر عوامی رائے معلوم کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف قومیں آباد
ہیں اور صوبائیت اپنے عروج پر ہے ۔ اس صورتحال میں فلاحی ریاست کیلئے ایک
قومی حکومت بنا کر پاکستان سے سیاسی بحران کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ قومی
حکومت کی تشکیل محدود وقت کیلئے ہو ۔جو عوام سے پارلیمانی ، صدارتی اور
قومی حکومتی ں نظام پر ریفرنڈم کراکر عوامی رائے معلوم کرسکتی ہے۔ لیکن
میری اپنی ذاتی رائے میں یقینا کوئی سیاسی جماعت اس پر راضی نہیں ہوگی ۔ تو
پھر کیا نظام اس وقت بدلے گا جب یا تو سفید جھنڈے والے آئیں گے یا کالے
جھنڈے والے ۔ انقلاب لانے کیلئے کسی مرد آہن کی ضرورت ہے لیکن کسی کی جھولی
ایسی نہیں کہ اس میں صبر کا پانی ٹہر سکے بلکہ سب کے دامن میں ہزاروں داغ
ہیں ۔ کسی کو اگر یقین نہ ہو تو بھیس بدل کر کسی بھی عوامی ہوٹل میں سموسے
کا آرڈر دیں اور ساتھ میں چٹنی بھی منگوائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ چائے پینے
کے بعد جب ارباب اختیار کا نمائندہ اس ڈھابے سے اٹھے گا تو اس کو اپنا قد ،
عوام کی رائے سے بہت چھوٹا محسوس ہوگا ۔تو پھر آرڈر کروں چٹنی ، سموسہ اور
چائے ۔۔۔
16 جولائی2017ء
|