عمران کا تمام جِسم پسینے سے
شرابور تھا جسم پر کپکی طاری تھی ہاتھوں پر لرزہ کی سی کیفیت تھی تبھی کہیں
دور سے فجر کی آذان سُنائی دی یہ یقیناً اُس آواز کا فیضان تھا کہ یک لخت
عمران کو یوں محسوس ہُوا کہ جیسے کسی نے عمران کے جِسم سے کسی کثیف چادر کو
اُتار پھینکا ہو جسکے سبب عمران کا خُوف رفتہ رفتہ کم ہُونے لگا کیفیت
تبدیل ہونے لگی تبھی عمران نے ہمت کی اور اُٹھ کر سوئچ آن کردیا۔
کمرے میں روشنی ہوتے ہی بَچوں نے کسمسا کر چادر اپنے چہروں پہ تان لی روشنی
ہوتے ہی عمران نے اپنی حالت میں مزید اعتماد محسوس کیا اور کمرے کا دروازہ
کھول کر واش روم میں داخل ہو کر وضو بنانے لگا وُضو سے فارغ ہونے کے بعد
عمران مکمل طور پر پُرسکون ہُوچکا تھا لیکن ابھی بھی کوئی انجانا خُوف تھا
جو کہیں دِل میں چُھپا بیٹھا تھا اور عمران کو اِس بات کیلئے اُکسا رہا تھا
کہ نماز کمرے ہی میں پڑھ لی جائے لہذا عمران نے لاؤنج میں فجر کی نماز ادا
کرلی۔
نماز سے فارغ ہُونے کے بعد عمران نے سونے کی دوبارہ کوشش نہیں کی ویسے بھی
نیند عمران کی آنکھوں سے رَفو ہُوچُکی تھی عمران اپنے بیڈ پر کچھ لمحے
تسبیح کے دانوں پر اپنے مُرشد کے عطا کئے ہُوئے وظائف پڑھتا رہا تبھی کسی
نے چپکے سے اُسکے کانوں کے قریب آکر کہا، ہر بات اپنے مُرشد کو بتاتے ہُو
لیکن اِس پری کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے ؟ عمران نے فوراً گردن گُھما کر
دائیں بائیں دیکھا لیکن کمرے میں کوئی نظر نہیں آیا البتہ ایک عجیب سی
دلفریب خوشبو ضرور عمران کے مسام دِماغ کو معطر کرتے ہُوئے عمران کو سمجھا
رہی تھی کہ کوئی اور بھی ہے جو اگرچہ عمران سے بُہت قریب ہے لیکن اِک راز
کی طرح پُوشیدہ ہے عمران نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام لیا اور
بڑبڑانے لگا ۔ یا خُدا آخر یہ سب کچھ میرے ہی ساتھ کیوں ہُورہا ہے۔
تبھی عمران کو بیگم کی آواز سُنائی دِی کیوں رات میں لائٹ آن کئے بَڑبَڑا
رھے ہُو۔ بچے جاگ جائیں گے لائٹ آف کردو ۔ بیگم رات گُزر چُکی اور آپکی
اِطلاع کیلئے عرض ہے کہ صبح ہُوچُکی ہے اگر ہُوسکے تو مجھے بھی چائے بنا
دیجئے عمران نے بڑے تحمل سے جواب دیا لیکن کیا مجال ہے جو بیگم کے کان پر
جُوں بھی رینگی ہُو اُس اللہ کی بندی نے کروٹ بدلی اور دوبارہ سوگئی ۔
عمران سوائے خون کا گھونٹ پینے کے کچھ بھی نہیں کرسکا کبھی کبھی وہ اُس دِن
کو بُہت کوستا جب اماں کی نظر انتخاب اس عورت پر آکر ٹہر گئی تھی ۔
جُوں جُوں آفتاب اُونچا ہُوتا گیا ماحول پہ طاری جمود بھی ٹوٹنے لگا چڑیوں
کے چہچہانے کیساتھ ساتھ کہیں کہیں سے برتنوں کے کھڑکھڑانے کی آوازیں بھی
آنے لگی تھیں عمران کو اچانک بھوک کا اِحساس ہُونے لگا ۔ لہٰذا خاموشی سے
دروازہ کھول کر باہر نکل آیا کیوں نہ آج حلواہ پُوری کا ناشتہ کیا جائے اور
حلوائی کی دُکان پر بیٹھ کر گرما گرم ناشتے کے خیال نے عمران کی بُھوک مزید
بیدار کردی چناچہ مین گیٹ کو لاک کرنے کے بعد عمران واک کرتے ہُوئے حلوائی
کی دُکان پر پُہنچ گیا ناشتہ کا آرڈر دیتے ہُوئے عمران نے سوچا کیا ہی اچھا
ہُو اگر یہ ناشتہ بابا وقاص کیساتھ کیا جائے یہی سوچ کر عمران نے ناشتہ
پارسل کروالیا اور جلدی جلدی قدم اُٹھاتا ہُوا بابا وقاص کے گھر کی جانب
روانہ ہُوگیا صبح کی واک عمران کو بُہت مزاہ دے رہی تھی دور سے عمران کو
بابا وقاص کا گھر نظر آنے لگا تھا جس کے گیٹ کا ذیلی دروازہ کُھلا دیکھ کر
عمران کی اُمید کو مزید تقویت حاصل ہُوئی کہ بابا وقاص جاگ رہے ہیں دروازے
سے داخل ہُوتے ہی عمران کی نگاہ بابا وقاص پر پڑی جو غالباً چاشت اشراق کی
ادائیگی میں مصروف تھے ۔
خادم حُسین کچن میں چائے بنارہے تھے عمران کو دیکھ کر آگے بڑھے تو عمران نے
ناشتے کی تھیلی خادم حسین کو تھما دی خادم حُسین نے مُسکراتے ہُوئے تھیلی
وصول کی اور عمران کو حیرت زدہ کرتے ہُوئے کہنے لگے اب سمجھ آیا کہ بابا
صاحب نے کیوں تین افراد کی چائے بنانے کے لئے کہا تھا ورنہ روزانہ ناشتے
میں صرف دوہی کپ چائے بنتے ہیں اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ بابا نے کیوں آج
ڈبل روٹی لانے کو منع کیا تھا حالانکہ میں سمجھ رہا تھا کہ شائد بابا میرا
امتحان لے رہے ہیں خادم حُسین تُو یہ کہتے ہوئے واپس کچن میں چلے گئے جبکہ
عمران ہونقوں کی طرح کھڑا ہی رہ گیا ۔
تبھی بابا وقاص کی آواز نے عمران کو اِس سحر سے نکالا،، آگئے عمران میاں
ناشتہ لیکر ؟عمران بابا وقاص کی دست بُوسی سے فارغ ہُوکر دو زانو بیٹھا ہی
تھا کہ بابا وقاص کے اگلے سوال نے عمران کو چونکا دِیا ۔ رات بُہت پریشان
رہے ہو؟ لیکن اب ہم نے انتظام کردیا ہے کہ تُمہیں کوئی پریشان نہ کرے !
ویسے پریشان ہونے کی بات بھی تھی اب اگر کوئی اچانک کسی کی آنکھ بند کرکے
اُس سے چِمٹ جائے تو اچھا بھلا انسان بھی مخممصے کا شکار ہوجائے گا کہ یا
اِلہی کون ہے جو ایسی وارفتگی سے لِپٹ رھا ہے، اب چاہے وہ کیسا ہی مُحبت
کرنے والا ہُو جب تک آنکھ سےدیکھ نہ لے دِل پریشان رہتا ہی ہے۔
بابا کون تھا رات کو میرے پاس رات کو مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرے سینے پہ
سر رکھے رُو رہا ہُو؟ عمران سے رہا نہ گیا تُو پوچھ ہی بیٹھا کیونکہ عمران
جانتا تھا کہ اِس سوال کا جواب جسکا جاننا عمران کے لئے بے حد ضروری تھا
صرف ایک شخص دے سکتا تھا اور وہ بابا وقاص تھے جِنہیں نہ جانے کیسے ہر بات
کی پہلے ہی خبر ہوتی تھی جیسے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عمران رات پریشان رہا
ہے اور یہ بھی جانتے تھے عمران ناشتہ لیکر اپنے گھر نہیں بلکہ بابا وقاص کے
آستانے پر آرھا ہے۔
بیٹا ہر اِنسان میں ایک تجسس کا پودا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسے ہر
سوال کا جواب مِل جائے اور جب تک اُسے اپنے سوال کا جواب نہیں ملتا وہ بے
چین ہی رہتا ہے اور جونہی اپنے سوال کا جواب پالیتا ہے مطمئین ہوجاتا ہے
جیسے کھانے کے بعد بھوک نہیں رہتی جیسے پینے کے بعد تشنگی نہیں رہتی میرا
بھی جوانی میں یہی حال تھا ہر وقت ذہن میں سوالوں کا جوار بھاٹا اُمنڈتا
رہتا تھا بُزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرتے کرتے اِدراک بڑھنے لگا مَن میں
روشنی کے سُوتے پُھوٹنے لگے اور میں خود اُس سمندر کا حصہ بن گیا جو ہر وقت
مجھے اپنی جانب کھینچتا رہتا تھا پہلے تو پیاس اتنی بڑھی کہ تن من میں ایک
جُوالا مُکھی کی موجودگی کا احساس رہنے لگا جو آتش فشاں کی طرح مجھے اندر
ہی اندر دِہکاتا رھتا اور پھر نہ جانے کب یہ احساس آہستہ آہستہ خود ہی
تحلیل ہوگیا اور صرف سکون ہی سکون رہ گیا کبھی کبھی تو ایسے لگنے لگتا جیسے
میں اِنسانوں کے درمیاں نہیں کسی سُنسان جزیرے میں آگیا ہوں بابا وقاص نہ
جانے کس جہاں میں کھوئے ہوئے تھے عمران نہایت انہماک سے بابا وقاص کی باتوں
کو سُن رھا تھا یہ الگ بات تھی کہ ایک بھی بات عمران کی سمجھ میں نہ آسکی
اُسے تُو اپنے سوال کا سیدھا ساد ہ سا جواب چاہئے تھا جو شائد بابا وقاص
دینا نہیں چاہ رہے تھے۔
جونہی خادم حُسین ناشتے کی ٹرے لیکر آئے بابا وقاص بھی اُس جہان سے نِکل
آئے اور عمران کی جانب دیکھتے ہوئے مسکراتے ہُوئے کہنے لگے چلو بھئی آپ کا
ناشتہ آگیا بِسم اللہ کرو۔ میں بھی کیسی نا سمجھ آنے والی باتیں کرنے لگا
تھا تُم سے ۔بابا وقاص کے اِس جملے سے عمران کو یوں محسوس ہُوا جیسے کسی نے
اُسے چوری کرتے ہُوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا کہیں بابا وقاص میرے دِل کی
بات تو نہیں پڑھ لیتے مگر نہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کسی کے دِل کی بات
پڑھ لے یہ ضرور اِتفاق ہے کہ بابا بھی اکثر وہی بات کہہ دیتے ہیں جو میں
دِل میں سوچ رہا ہوتا ہوں۔
عمران خاموشی سے نگاہیں جھکائے بابا کیساتھ ناشتے میں مصروف تھا کہ بابا
کہنے لگے عمران میاں کیوں خاموش ہوگئے بھی مسلمان کھانا کھاتے ہوئے خاموش
نہیں رہتے یہ تو مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ چلو میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہُوں
اِسے ہمیشہ یاد رکھنا۔
جی بابا صاحب آپ فرمائیں میں ضرور یاد رکھوں گا عمران نے لقمہ منہ میں
رکھنے سے قبل جواب دیا۔
دیکھو جب بھی کسی عالم کے پاس حاضری کی سعادت حاصل ہو تو بڑے ادب سے بیٹھنا
اور جو بات کہنا چاہو پہلے سوچ لینا کہ کہنے کے قابل بھی ہے یا کہ نہیں کہ
زُبان سے نکلی بات پرائی ہوجاتی ہے اور عالم کسی بے ادب جملے کی گرفت ضرور
کرے گا تاکہ تُم دوبارہ غلطی نہ کرو لیکن ۔۔۔ اتنا کہہ کر بابا وقاص خاموش
ہوگئے ۔
چند لمحے کی خاموشی بھی عمران پر گِراں تھی اس لئے فوار بُول پڑا جی بابا
لیکن؟
بابا وقاص نے لیکن پر زور دیتے ہُوئے گفتگو کا سلسلہ جُوڑا ۔لیکن جب کسی
اللہ کے ولی کی بارگاہ میں حاضری دُو تُو اپنی زُبان کیساتھ ساتھ اپنے دِلی
خیالات پر بھی قابو رکھنا کہ اللہ کا ولی دِلی خیالات سے بھی بے خبر نہیں
رہتا تبھی تو اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی
فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے
عمران جان چُکا تھا کہ جس سوال کو لے کر وہ ابھی پریشان تھا وہ بھی بابا
وقاص سے مخفی نہیں تھا اسلئے اِشارۃ اُسے خبردار کر رہے تھے لیکن بابا آخر
اُس سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہے جس کا اظہار وہ اپنی زُبان سے بھی
کرچُکا تھا کہ آخر رات کو میرے کمرے میں کون تھا؟
زیادہ مت سُوچا کرو کیا پھر رات والی بات کو لیکر پریشان ہو ؟ بابا وقاص نے
سوال کیا تو عمران سے رھا نہ گیا اور بول پڑا ،جی بابا آپ لیکن اگر آپ نہیں
بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں ۔
نہیں بیٹا ایسی بات نہیں کہ میں تُم سے کچھ چُھپانے کی کوشش کررہا ہوں بس
میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ تُم پریشان ہُو لیکن مجھے معلوم ہے جب تک تُم
پوچھ نہیں لوگے یونہی پریشان رہو گے سُو تُمہیں بتا دیتا ہُوں کہ کسی کو
تُمہاری مُحبت پسند نہیں آئی تو کل تُم پر حملے کی ناکام کوشش کی گئی تھی
بے خبر ہم بھی نہیں تھے لہذا تُمہارے دُشمن ہماری قید میں ہیں اور کل وہی
تُمہارے سینے سے لپٹ کر رو رہی تھی جو اُس دِن تُم سے ناراض ہوکر چلی گئی
تھی اور جونہی اُسے خبر ہُوئی کہ اُس کی قُوم کے کچھ شرارتی لوگ تُمہارے
ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ارادہ رکھتے ہیں تو سیدھی میرے پاس دوڑی چلی آئی ہمیں
بھی تمام معاملے کی بھنک پَڑ چُکی تھی سُو ہَم پہلے ہی سے تیار بیٹھے تھے
کہ کب شکاری اپنے شکار کی جانب جھپٹے اور ہَمارے جَال میں آ پھنسے سُو وہی
ہُوا ۔ اور دام میں خُود آپ ہی صیاد آگیا ،، رات کوثر ہی کے ایما پر ہم نے
تُمہاری حِفاظت کیلئے مُحافظین کا بندوبست بھی کردیا ہے ۔
عمران کو ایسا محسوس ہُورھا تھا جیسے کوئی ماوارائی کہانی سن رھا ہُو، لیکن
بابا یہ کوثر کون ہے اور وہ مُحافظ کہاں ہیں جو میری حِفاظت کررہے ہیں؟
(جاری ہے) |