ہمارے ہاں وزیرِ اعظم کو شائد کسی ادارے کے سربرا ہ سے
بھی کمتر درجہ حاصل ہے تبھی تو اسے ہر چند سالوں کے بعد بے توقیر کر کے گھر
بھیج دیا جاتا ہے اور اسے خود علم نہیں ہوتا کہ اس کا قصور کیا ہے؟ کسی
ادارے کے سربراہ کو ہٹانے کیلئے اداراتی ضابطے اور قوانین ہوتے ہیں لیکن
وزیرِ اعظم کو ہٹانے کیلئے کسی قانون اور ضابطے کی ضرورت نہیں ہوتی۔جب کسی
کے من میں آ گیا کہ وزیرِ اعظم کی شکل و صورت پسند نہیں تو اس کا ہٹایا
جانا یقینی ہو جاتا ہے۔باقی توسارا کٹھ پتلی تماشہ ہوتا ہے ۔پاکستانی قوم
نے اس طرح کے کٹھ پتلی تماشے بہت دیکھے ہیں اوران کے نتائج بھی بھگتے ہیں
لیکن مقتدر حلقے پھر بھی تماشہ لگانے سے باز نہیں آتے۔وہ اپنی اتھارٹی
دکھانا چاہتے ہیں حالانکہ سارا پاکستان پہلے ہی ان کی اتھارٹی کا معترف بھی
ہے اور یر غمال بھی ہے ۔ انھیں کوئی ہاتھ روک نہیں سکتا کیونکہ ان کے
ہاتھوں میں بڑی طاقت ہے اور چند زر خرید مہرے ان کی اس طاقت کو مزید بڑھاوا
دیتے رہتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ جس کسی نے بھی ایسا کرنے کا سوچا اس کاجینا حرام ہو گیا۔پاکستان کی
۷۰ سالہ تاریخ کے اوراق کو ذرا کھنگال کر تو دیکھئے اس میں سے کیا کیا بر
آمد ہوتا ہے ؟ جمہوریت کو ایک حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور جس نے
اس لکیر کو پاٹنے کی کوشش کی اسے عوام کی نگاہوں میں مجرم بنا دیا گی جاتا
ہے اور پھر اگر ضرورت محسوس ہو تو اس کا لاشہ اٹھوانے سے بھی دریغ نہیں کیا
جا تا۔کیا چند سال قبل عوام کی محبوب قائد کی لاش پی پی پی نے نہیں اٹھائی
تھی؟ہماری تاریخ تو ایسے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ انسان دیکھتا جائے
اور شرماتا جائے کہ احتساب اور حب الوطنی کے نام پر کیسے کیسے گل کھلائے گے
تھے؟قائدین اپنی بے گناہی کی دہائی دیتے رہتے تھے لیکن کوئی ان کی بات سننے
اور ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ایک فیصلہ صادر ہو جاتا تھا جس پر
عدالتِ عظمی کی مہر لگوا لی جاتی تھی تا کہ معتبر ہوجائے لیکن سوال یہ ہے
کہ کیا عدالتِ عظمی کی مہر لگوانے سے معاملہ واقعی معتبر ہو جاتا ہے؟تاریخ
اس کا جواب نفی میں دیتی ہے ۔سیاسی فیصلے جب عدالتوں میں ہونے لگیں تو
عدالتیں اپنی توقیر کھو دیتی ہیں ۔سیاسی فیصلے سیاسی میدان میں ہی ہونے
چاہیں یہی جمہوریت کا حسن اور تقاضہ ہے۔وزیرِ اعظم کو منتخب تو پاکستانی
عوام کریں لیکن اس کی قسمت کا فیصلہ عدالتِ عظمی میں بیٹھنے والے کچھ جج
کریں یہ کہاں کا انصاف ہے؟پاناما کیس کا فیصلہ عدالتِ عظمی کے سامنے ہے اور
اس نے اس مقدمہ میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔وہ ملک خاک چلے گا جہاں ہر
پارلیمنٹیرین کو یہ دھڑکا لگا رہے کہ عدالتِ عظمی کا کوئی بھی جج ا س پر
آئین کی شق ۶۲ اور ۶۳ کا اطلاق کر کے اسے گھر بھیج سکتا ہے۔عدالتِ عظمی کو
آئین کی ایسی تشریح کرنے سے اجتناب کرنا چائیے جو ان کے دائرہِ اختیار سے
باہر ہو۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین کی شق ۶۲ اور ۶۳ کو سننے کا عدالتِ عظمی
کو کوئی حق حاصل نہیں ۔ اس طرح کے مقدمات کی شنوائی ان اداروں میں ہوتی ہے
جھنیں آئین میں قائم کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ اپیلیٹ فورم ہے لہذا لوئر
عدالتوں سے جاری فیصلوں کے بعد وہ ملزماں کی اپیل سن کر حتمی فیصلہ صادر
کرتی ہے لیکن کسی بھی مقدمے کی تفتیش اور شہادتیں قلم بند کرنا اس کے دائرہِ
اختیار میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف
کے خلاف آئین کی شق ۶۲ اور ۶۳ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ کی شنوائی ہوئی جس
سے پوری دنیا میں پاکستان کا تشخص مجروح ہوا ۔سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے
گی اسے من و عن تسلیم کر لیا جائیگا لیکن کیا اس سے عدالت انصاف کی اس
میزان کو جسے برابر رکھنے کا اس نے حلف اٹھا یا ہوا ہے قائم رکھ پائے گی ؟
ہم مغربی دنیا کی جمہوری روایات کو اپنے لئے قابلِ تقلید سمجھتے ہیں۔اس وقت
میرے سامنے واٹر گیٹ سکینڈل ہے جس میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کو مستعفی ہونا
پڑا تھا۔ہوا یہ تھا کہ صدارتی انتخاب میں رچرڈ نکسن نے خفیہ طریقے سے اپنے
مخالفین کے انتخابی راز چرائے تھے جسے واٹر گیٹ سکینڈل کا نام دیا گیا تھا
۔ صدر رچرڈ نکسن کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذ کی تحریک پیش کی گئی تھی۔رچرڈ
نکس کو پارلیمنٹ میں چونکہ اکثریت حاصل نہیں تھی لہذا اس نے مواخذہ کی
تحریک کا سامنا کرنے کی بجائے مستعفی ہو نا بہتر سمجھا کیونکہ وہ ڈر گیا
تھا کہ شائد وہ ہار جائے ۔رچرڈ نکسن کے مستعفی ہونے کے بعد نائب صدرجیرالڈ
فورڈ امریکی صدر بنے تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان پرذولفقار علی
بھٹو کی حکمرانی کا سکہ چلتا تھا ۔ سیاستد انوں کیلئے سب سے بڑا فورم
پارلیمنٹ ہو تا ے جسے عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے لہذا ان کی قسمت کا فیصلہ
بھی وہی ہونا چائیے۔ہمارے ہاں ایسے نہیں ہوتا بلکہ ہم ہر معاملے میں عدالت
کو گھسیٹ لاتے ہیں اورپھر ایسی دھول اڑائی جاتی ہے کہ کچھ بھی پہچانا نہیں
جاتا۔ایک دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ مشہور ہوا تھا اور وہ واقعہ تھا
امریکی صدر بل کلنٹن کے اس جنسی تعلق کا جو اس نے اپنی ہی سیکرٹری مونیکا
لیونسکی سے قائم کر رکھا تھا ۔اس جنسی تعلق کی گو نج پوری دنیا میں سنائی
دی تھی ۔مغربی دنیا میں جنسی تعلقات قائم کرنا کوئی جرم نہیں ہے بشرطیکہ
مرد اور عورت کی باہمی رضا مندی ہو لیکن اگر کوئی جنسی تعلق کو زبردستی
آزماتا ہے تو پھر اس پر قانون حرکت میں آ جاتا ہے اور زبردستی کرنے والے کو
سزا سنا تا ہے۔مونیکا لیو نسکی نے ایک دن اس جنسی تعلق کو میڈیا میں اچھال
دیا جس کا امریکی صدر بل کلنٹن نے انکار کر دیا۔مونیکا لیو نسکی نے اپنے
الزام کے حق میں شہادتیں پیش کیں جس کے بعد بل کلنٹن کیلئے اس فعل سے انکار
کی کوئی وجہ باقی نہ رہی لہذا بل کلنٹن کو اس جنسی فعل کا اعتراف کرنا پڑا
۔ انھوں نے اپنے جھوٹ پر قوم سے معافی مانگی کیونکہ پارلیمنٹ کے اصل مالک
تو عوام ہی ہوتے ہیں کیونکہ انہی کے ووٹوں سے پارلیمنٹ وجود پذیر ہوتی
ہے۔اب چونکہ بل کلنٹن کا جھوٹ ایک جنسی واقعہ کی وجہ سے ثابت ہو چکا تھا
لہذا اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ بل کلنٹن اپنے عہدے سے مستعفی ہو ں ۔بل
کلنٹن نے ان کے مطالبے کو رد کر دیا جس پر اپوزیشن نے ان کے خلاف پارلیمنٹ
میں مواخذہ کی تحریک پیش کر دی بالکل ویسے ہی جیسے اس سے پہلے رچرڈ نکسن کے
خلاف پیش کی تھی۔گر بل کلنٹن بھی رچرڈ نکسن کی طرح مواخذے سے ڈر جاتے تو
پھر وہ بھی مستعفی ہو جانے میں کوئی تامل نہ کرتے لیکن انھوں نے جنسی فعل
کی بنیاد پر استعفی دینے کو امریکی صدر کے عہدے کی توہین سمجھا اس لئے
مواخذے کی تحریک کے سامنے ڈٹ گئے۔پارلیمنٹ میں اس معاملے پر کھل کھلا کر
بحت ہوئی ۔اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے اپنے اپنے دلائل دئے ۔کئی دنوں تک
یہ معرکہ گرم رہا اور آخرِ کار ایک دن موا خذہ کی اس تحریک پر ووٹنگ
ہوئی۔اغلب اندیشہ یہی تھا کہ بل کلنٹن ووٹنگ میں فارغ ہو جائیں گے لیکن
پارلیمنٹ نے بل کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام بنا دی اور یوں بل
کلنٹن باقی مدت کیلئے صدرِ امریکہ کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ان کی بیوی
ہیلری کلنٹن کے اس واقعہ سے جذبات مجروح ہوئے لیکن ان کی ازواجی زندگی پھر
بھی قائم رہی۔۲۰۱۶ کے انتخابی معرکہ میں بل کلنٹن نے اپنی بیوی کی انتخابی
مہم میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا جس سے ہیلری کی جیت بڑی واضح نظر آ رہی تھی
لیکن الیکشن سے ایک ہفتہ قبل روسی ایجنسیوں نے ایسی کارستانی دکھائی کہ
جیتی ہوئی ہیلری کو ہار کا مزہ چکھنا پڑا جبکہ ڈولنڈ ٹرمپ غیر متوقع طور پر
امریکی صدر منتخب ہو گئے۔ ہماری سپریم کورٹ کوبھی سیاسی مقدمات کو پارلیمنٹ
کے حوالے کر کے پارلیمنٹ کے وقار میں اضافہ کاباعث بننا چائیے ۔وزارتِ عظمی
عوام کی امانت ہے اور اسے اسی امانت کے منبہ کی جانب لوٹا نا عوامی شعور
اور دانش پر اعتماد کرنے کے مترادف ہوگا۔وزیرِ اعظم کو عدمِ اعتماد اور
مواخذہ سے ہٹایا جانا چائیے کہ یہی جمہوری راستہ ہے ۔اگر امریکہ میں ایسے
ہوسکتا ہے تو پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ہماری پہلی ترجیح
پارلیمنٹ کو مضبوط اور طاقتوربنانا ہونی چائیے ۔ہمیں ہر اس ادارے کو جو اس
تقدس کی راہ میں رکاوٹ بنے اس کی حو صلہ شکنی کرنی چائیے۔اگر ایک دفعہ ایسا
ہو گیا تو پھر سازشوں کے سارے گڑھ خود بخود ملیا میٹ ہو جائیں گے۔،۔ |