جماعت اسلامی کی کوششیں رنگ لے آئیں، عدالتی
کارروائی سے بچنے کیلئے بلدیہ عظمی ٰکراچی کی انتظامیہ نے سنیما کو ختم
کرکے المرکز اسلامی کو اصل حالت میں بحال کردیا ،سپریم کورٹ آف پاکستان نے
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے دائر درخواست پر 7
جولائی کو المرکز اسلامی کو 15 روز کے اندر اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا
حکم دیا تھااور اس کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے ساتھ ریفرنس نیب کو
بھیجنے کا بھی حکم جاری کیا تھا ، عدالتی حکم کو 15 روز گزرنے کے باوجود
بلدیہ عظمی ٰکراچی نے سنیما ہال ختم کر کے المرکز اسلامی کو بحال نہیں کیا
تھا ،جماعت اسلامی کی جانب سے اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا جارہا تھا
،بحالی میں تعطل کے سبب جماعت اسلامی نے23اور24 جولائی کو اس کی عمارت کے
سامنے دھرنا بھی دیا تھا ،تاہم بلدیہ عظمیٰ نے توہین عدالت کی کارروائی سے
بچنے کیلئے 26جولائی کو المرکز اسلامی کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا
اور اس عمارت کے مرکزی گیٹ نصب کلمہ طیبہ کا بورڈ جسے سنیماکی وجہ سے چھپا
دیا گیا تھا اب عیاں کر دیا ہے۔
عائشہ منزل کے علاقے میں قائم المرکز اسلامی بلا مبالغہ شہر قائد کا ا
سلامی ادبی، مذہبی اور ثقافتی مزکز تھا ۔ سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل
ایس ایم عباسی نے اس مرکز کا سنگ بنیاد 8 جون 1982 کو رکھا تھا،اس موقع پر
اس وقت کے میئر عبدالستار افغانی بھی موجود تھے،اس کے قیام کا واضح مقصد
اسلامی روایات و اقدار کو فروغ دینا تھااور ایک ایسے مرکز کی فراہمی تھا جو
علم واب ،مذہبی وثقا فتی سر گرمیوں کے ذریعے شہر کی پہچان بنے ،اپنے قیام
کے بعد یہ شہر کا سب سے بڑا آڈیٹوریم بن گیا تھا، جہاں 750 افراد کے بیٹھنے
کی گنجائش تھی،سابق ناظم کراچی نعمت اﷲ خان کے دور نظامت میں اس میں قرآن
سنہ اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ سٹی کونسل کراچی نے اس کے
بائی لاز بھی منظور کیے تھے،بدقسمی سے 2008 میں اس وقت ایم کیو ایم سے
وابستہ ناظم کراچی مصطفی کمال نے اس عمارت کا نام 'المرکز اسلامی سے ختم کر
کے سینٹر فار آرٹ اینڈ لرننگ کردیا اور عمارت کے داخلی دروازے اور آڈیٹوریم
میں آویزاں مقدس کلام بھی ہٹا دیا گیااور پھر اسے ٹھیکہ پر دے دیا گیا۔
2010 میں سٹی گورنمنٹ نے عمارت کی بالائی منزل پر شانزے آڈیٹوریم قائم کیا،
جہاں ہر شام میں میوزیکل اور اسٹیج پروگرام منعقد کیے جاتے تھے۔2012 میں
اردگرد کے رہائشیوں کی شکایت پر اس عمارت کو سیل کردیا گیا، تاہم چند ہی دن
بعد اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔کچھ عرصے بعد مرکز کے لان میں شادی ہال بنا
دیا گیا جبکہ تھیٹر کو باقاعدہ سینما گھر میں تبدیل کردیا گیا۔اگست 2015
میں کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی نے خبروں کا نوٹس لے کر سینما بند کروا
دیا لیکن جلد ہی یہ دوبارہ کھل گیا اور یہاں فلمیں دکھائی جانے لگیں،اس
عمارت سے المرکز اسلامی کا بورڈ بھی ہٹادیا گیاتھا-
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے 2016 میں دائر
درخواست پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور
ظہیر جمالی نے سندھ حکومت سے اس بات کی وضاحت طلب کی تھی کہ اس نے کراچی
میں ایک اسلامک سینٹر 'المرکز اسلامی' کو سینما گھر میں کیوں تبدیل کیا
،کیس مختلف مدارج طے کرتا رہا ،بلآخر سپریم کورٹ نے 7جولائی 2017 کو سنیما
کو ختم کر کے المرکز اسلامی کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا حکم دے
دیااور ساتھ ہی کے ایم سی کے اصل ذمے داران کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے نیب
میں درخواست دینے کا بھی حکم دیا۔
المرکز اسلامی کی عمارت کے اسٹرکچر کا کا بغور جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی
ذی شعور اس بات کا ادارک کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کو ئی بڑی مسجد ہے یا
کو اسلامی سینٹر ہو گا جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہو گی ،لیکن یہ بڑی بدقسمتی
اور کم فہمی کی بات کے اسے ٹھیکے پر دینے والوں نے اس کے طرز تعمیر کا بھی
لحاظ نہ کیا ،جب سید وسیم اختر میئر بنے تو وہ ادارہ نورحق آئے یہ ان کا
بڑا پن تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں
،اس موقع پر ان سے حافظ نعیم الرحمن نے ان سے استدعا کی تھی کی المرکز
اسلامی کا کیس عدالت عظمیٰ میں چل رہا ہے تاہم میئر کراچی کی حیثیت سے وہ
اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اسے بحال کریں لیکن میئر کراچی ایسا نہ کرسکے
،عدالتی فیصلے کے بعد بھی میئر کراچی کو حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے
مراسلہ تحریر کیا جس میں المرکز اسلامی کو عدالتی حکم کے مطابق فوری بحال
کرنے اور اسے سنیما میں بدلنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطا لبہ
کیا تھا تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
ا لمرکز اسلامی کے بحالی عدالت عظمیٰ کا عظیم فیصلہ ہے،اس سے قبل بھی
عدالتی حکم پر شہر کراچی سے بل بورڈز ہٹائے جاچکے ہیں ،عدالت عظمیٰ نے
کراچی کو بورڈز کا جنگل اور شہر میں کسی بڑے ممکنہ حادثے کا بھی پیش خیمہ
قرار دیا تھا ، ا لمرکز اسلامی کی بحالی اسلام دوست شہریوں کی فتح ہے اور
کراچی کے باسیوں کے لیے یہ بڑی خوشی کی خبر ہے ،کراچی ہمیشہ علم وثقافت کا
مرکز رہاہے، اس کے اس مرکزیت اور شناخت کو ماضی میں مسخ کرنے کی کوششیں کی
گئیں جو افسوس ناک امر ہے ،ہم نے 2006 میں المرکز اسلامی میں منعقدہ ایک
تقریب میں شرکت کے وقت معائنہ کیا تو ہماری آنکھیں کھلی رہ گئیں کہ کراچی
شہرکی اس عمارت میں میں اتنا بڑااوردیدہ زیب وسیع وعریض حال بھی موجود ہے
جو اسی کے علم وادب اور دین اسلام کے فروغ کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے اور یہ
اس شہر کے رہنے والوں کیلئے بڑا تحفہ ہے ۔
جماعت اسلامی نے المرکز اسلامی کی بحالی کے بعد بھی اس کی عمارت پر 27
جولائی کو دھرنا دیا اور اسے سنیما میں بدلنے والے ذمہ داران کے خلاف
عدالتی حکم کے مطابق کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ،ذمہ داران کیخلاف عدالتی
فیصلے کے مطابق کارروائی ضرور ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو بھی غیر مقبول
فیصلے کرنے کی جرات نہ ہو۔ماضی میں جو ہوا اسے فراموش تو نہیں کیا جا سکتا
لیکن ترقی کیلئے ہمیشہ ہمیں آگے کی جانب دیکھنا چاہیے ،اس کا سارا کریڈٹ
جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن کو جاتا ہے جنہوں نے اہل اسلام، اہل
کراچی کی نما ئندگی کرتے ہو ئے یہ کیس سپریم کورٹ میں چلایا اور انہیں فتح
سے ہمکنار کیا ،ہم اہل کراچی اور جماعت اسلامی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ،
حافظ نعیم الرحمن کے الیکٹرک کے خلاف بھی شہریوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ،امید
رکھتے ہیں کہ وہ المرکز اسلامی کے کیس کی طرح کے الیکٹرک کے مقدمے میں بھی
فتح یاب ہوں گے اورشہریوں کو اس کے ظلم سے نجات دلاکر رہیں گے۔ |