یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت زیادہ تابناک نہیں رہی
لیکن پھر بھی اس ریاست نے بہت سے سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔ اگر
28جولائی کے دن کو بھی اسی سیاسی پس منظر میں دیکھیں تو بہت زیادہ اہمیت کا
حامل دن تھا۔ اور اس دن کو دو پہلوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مثبت
پہلو جبکہ دوسرا تاریک اور منفی پہلو ہے۔سب سے پہلے اگر مثبت پہلو پر نظر
دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ غریب عوام جو تقریباً اپنے ملک کے انصاف کے
نظام سے مایوس ہو چکی تھی ۔اس عوام کے لیے پانامہ کا فیصلہ کسی تازہ ہوا کے
جھونکے سے کم نہیں۔کیونکہ یہ فیصلہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں بلکہ ملک کی
سب سے طاقتور شخصیت جو کہ سب سے بڑے عوامی عہدے کی حامل شخصیت کے خلاف کیا
گیا ہے۔اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جو سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے یہ سمجھتی تھیں
کہ کبھی بھی طاقتور وزیراعظم یعنی جس کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے اس کا
احتساب نہیں ہوا۔ اب ان کے ماتم کرنے کو بھی کچھ نہیں بچا۔اسی طرح بہت سے
لوگوں کا عدالتی نظام پر پھر سے اعتماد بحال ہوا ہے۔ پانامہ کیس پر بہت سے
لوگ قلم درازی کرچکے ۔ڈھیروں مواد مضامین کی زینت بنا کچھ لوگوں نے اپنے
قلم کو اپنے مفاد کی خاطر بطور ہتھیار استعمال کیا تو کچھ نے اسی قلم سے
تاریخ کے روشن باب بھی لکھے جو بعد میں کافی حد تک تحقیق اور رائے عامہ کو
ہموار کرنے میں ممدد ثابت ہوئے۔یہ کیس لندن میں میاں صاحب کے چار فلیٹس کا
تھا جن کی حقیقت پانامہ پیپرز میں آشکار ہوئی۔اور پھر الحمدﷲ کہہ کر اس
حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا گیا اب مسئلہ صرف اتنا تھا کہ یہ فلیٹس میاں
صاحب کے پیسوں سے خریدے گئے یا پھر بچوں کے ۔اس کے لئے ثبوت کے طور پر قطری
شہزادے کا خط عدالت میں پیش کیا گیا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ یہ فلیٹس
خریدے نہیں بلکہ قطری شہزادے کے باپ کے ساتھ کاروبار کی مد میں ملے۔اور وہ
خط بھی بعد میں کسی افسانے سے زیادہ کچھ کردار نا ادا کر سکا۔البتہ اس قطری
خط کی وجہ سے قطر کا شہزادہ ضرور مشہور ہو گیا۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ
نے پہلا فیصلہ بیس اپریل دو ہزار سترہ کو سنایا ۔ جس میں دو معزز ممبران کی
رائے میں میاں صاحب نااہل قرار پائے اور تین ممبران نے مزید تحقیقات کے لئے
joint investigation team (JIT)تشکیل دے دی ۔اس فیصلے کی اہم بات یہ تھی کہ
دونوں پارٹیاں فیصلے کو اپنے حق میں سمجھ رہی تھیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ
دونوں گھروں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ حکومتی پارٹی اس فیصلے کو اپنے حق
میں کیوں سمجھ رہی تھی یہ عام آدمی کی فہم سے بالا تر تھا مگر مجھ جیسے
طالبعلم سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ حکومت یہ سمجھتی تھی کہ
وہ اپنے روائتی ہتھ کنڈے استعمال کر کے بچ نکلیں گے۔کیونکہ اس ملک کی
روائیت رہی ہے کہ یہاں کی اشرافیہ پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں جس کی واضح
دلیلیں ماڈل ٹاؤن کیس ، اصغر خاں کیس اور بہت سے دیگر مقدمات شامل ہیں۔اس
کی خاص وجہ ہماراتفتیش کا ناقص نظام ہے جس میں تفتیش کی جگہ لین دین،سیاسی
دباؤ یا پھر سفارش سے کام چلایا جا تاہے۔اور من مرضی کی رپورٹ بنا کر عدالت
میں پیش کی جاتی ہے جس پر عدالت سے بڑے بڑے مجرم باآسانی رہا ہو جاتے
ہیں۔لیکن کیا کریں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی انسان کو مروا دیتی ہے۔
اور یہی سب کچھ میاں صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔سپریم کورٹ کے معزز
بنچ نے تمام تفتیشی اداروں سے چھ نام مانگے تاکہ جے ۔آئی۔ ٹی تشکیل دی جا
سکے۔ پھر کیا ہوا حکومت نے اپنی پہلی چال چلی اور تما م اداروں سے اپنے
چہیتے اور آنکھ کے تارے نمائندوں کے نام سپریم کورٹ میں بھیج دئیے۔جس پر
سپریم کورٹ نے از خود جائزہ لینے کے بعد تمام نام مسترد کر دئیے ۔یہی وہ دن
تھا جب حکومتی صفوں میں ہلچل کی ابتدا ہو گئی تھی۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے
از خود جے ۔آئی ۔ٹی تشکیل دی جس میں آئی ۔ایس۔آئی، ایم آئی، ایف آئی اے،ایس
ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے نمائندگان شامل تھے۔اس جے آئی ٹی کی قیادت واجد
ضیاء نے کی۔شروع میں اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات تھے مگر جیسے جیسے تفتیش کا
دائرہ کار بڑھتا گیا معاملات کھل کر سامنے آنے لگے جس پر حکومت پریشان ہو
گئی ۔ اور مایوسی اس نہج تک پہنچ گئی کہ حکومتی حلقوں سے جے آئی ٹی ممبران
کو دھمکیاں تک دی جانے لگیں۔جو تیرہ سوال سپریم کورٹ نے ممبران کو دئیے تھے
معاملہ ان سوالات سے کافی آگے نکل گیا۔اور میاں صاحب کے اثاثہ جات کھل کر
سامنے آگئے۔ جن میں دبئی کے اندر ملازمت اور اقامہ بھی شامل ہیں۔ اور آخر
کار جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ تین دن کی بحث کے
بعد دونوں فریقین کے وکلاء نے اپنے دلائل مکمل کئے ،اور فیصلہ محفوظ کر لیا
گیا۔ فیصلے کا دن 28جولائی 2017ء بروز جمعہ مقرر کیا گیا جو کہ وزیراعظم ،
ان کے بچوں اوروزیر خزانہ کے لئے جمعۃالوداع ثابت ہوا۔بس یہ وہ وقت تھا کہ
جب کچھ لوگوں نے خوشیاں منائیں اور کچھ کے ارمان چکنا چور ہو گئے۔اور کچھ
لوگ لوہے کے چنے مٹھائی کے لڈو سمجھ کر کھا گئے۔ایسے میں میرے جیسے بھی کچھ
لوگ جو شدید تذبذب (confusion)کا شکار ہوئے کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ
ایسے موقعے پر خوشی منائی جائے یا افسوس کیا جائے۔ایک طرف جب دیکھتا ہوں کہ
پہلی بار کوئی طاقتور شخصیت قانون کے شکنجے میں آئی ہے تو ایک حوصلہ ملتا
ہے کہ جس ملک میں انصاف کا نظام موجود ہو وہ قومیں کبھی زوال پذیر نہیں
ہوتیں۔اور آج کے فیصلے سے سپریم کورٹ نے پسے ہوئے عوام کے رستے ہوئے زخموں
پر مرہم رکھا ہے۔اب اس فیصلے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ میرا منتخب کردہ
وزیراعظم مجرم قرار پایا ہے اور پوری دنیا میں جگ ہسائی کا موجب بنا ہے یہ
بات کسی بھی باشعور انسان کو سونے نہیں دے گی۔کیونکہ یہ صرف فیصلہ ہی نہیں
بلکہ اس ملک کی نئی سمت بھی متعین کر گے اور اس فیصلے کے بعد جو عالمی سطح
پر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچے گااس کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہو
گا۔اس فیصلے پر مختلف طرز کے تبصرے ہو رہے ہیں کہ یہ عالمی سطح کی سازش ہے
میں سمجھتا ہوں اگر ایسا کچھ ہے بھی اور ہمارا منتخب وزیراعظم اس سازش کو
بے نقاب کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو ایسے وزیراعظم کا گھر جانا تو بنتا ہے۔
یہ صرف سیاسی پروپیگنڈہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کوئی
تو ہو جو میرے خلاف ایسی سازش کرے جس سے میرے لندن میں نا سہی پاکستان میں
ہی دو تین گھر نکل آئیں اور پھر ایک آدھ کمپنی۔ ایسے میں جو وزراء نے کردار
ادا کیا ہے وہ قابل شرم ہے جس میں وہ ایک خاندان کو تو بچاتے رہے مگر ریلوے
وزیر کی ٹرینیں خود ہی چلتی رہیں اور حادثات کا شکار ہوتی رہیں۔ بجلی پوری
ہو نا ہو عابد شیر علی سپریم کورٹ کے سامنے گالم گلوچ ضرور کرتا تھا ۔
خواجہ صاحب کی توپیں انڈیا کی بجائے ہمیشہ عمران خان کی طرف ہوتی تھیں۔ یہ
سب کچھ ہونے کے بعد آپ ہی بتا دیں میں جشن مناؤں یا ماتم کروں۔ اﷲ تعالی
میرے ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو۔آمین |