یہود واسرائیل کو شکست کیسے ہوئی؟

مسجد اقصیٰ کھل گئی ۔اسرائیلی اپنے سارے سکیورٹی انتظامات لے کر واپس چلے گئے۔پہلی انتظامیہ نے کام شروع کر دیا۔لاکھوں فلسطینیوں کی اقصیٰ آمد سے فضائیں تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھیں۔یہ سب کیسے ہوا ہ؟اس سب کے پیچھے ان فلسطینیوں کے خون کی کہانی پنہاں ہے جنہوں نے سارا علاقہ اپنے خون سے رنگین کیا۔کتنے فلسطینی جانوں سے گزر گئے اور کتنے ہزار نے زخم برداشت کئے اورکتنے جیل پہنچ گئے۔

اسی فلسطینی قوم کے بیٹے نے کیا الفاظ ادا کئے’’اﷲ ،اس کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اورمسجد اقصیٰ کے لئے یہ موت کتنی میٹھی ہو گی، میں وہاں جا رہا ہوں جہاں سے واپسی کی امید نہیں،میں سیدھا جنت میں جاؤں گا۔‘‘یہ جملے اس ناقابل شکست فلسطینی قوم کے اس جوان کے ہیں جس نے قبلہ اول پر اسرائیل کی بار بار جارحیت ، نماز جمعہ تک کے لئے بندش اور فلسطینیوں کے بہتے خون کو دیکھ کر گھر سے چاقو اٹھایا اور پھر ان صہیونیوں پر چڑھ دوڑا جو عرصہ 70سال سے نہ صرف ارض مقدس پر قابض ہیں بلکہ ان کا دن رات خون بہا رہے ہیں۔

اس نوجوان کا نام عمر العابد تھا جس نے اس دنیا اور اس دنیا کی زندگی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور عمر کے اس حصے میں از خود موت کی اس وادی میں اترنے کے لئے تیار ہو گیا جس میں ہر انسان روز ہزار خواب دیکھتا اور پھر ان کی تکمیل کے لئے اپنا سب کچھ وارتا ہے۔عمر العابد کیا نہیں جانتا تھا کہ جس راستے پروہ جا رہا ہے وہاں سے کبھی واپسی ممکن نہیں اور یہی اس نے اقرار کر کے اپنے آخری الفاظ میں بھی لکھ چھوڑا۔اس امت کے ماننے والوں کی تعداد کہنے کو ڈیڑھ ارب سے زیادہ کہی جاتی ہے لیکن ان میں عمر العابد تو کروڑوں میں کوئی ایک ہی پیدا ہوتا ہے جو دشمنوں کی نیند حرام کر دیتا ہے اور ان کے سارے شیطانی تاروپود بکھیر دیتا ہے۔مرنے کو ان ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں میں روزانہ ہزاروں ہوتے ہیں لیکن جس شان کے ساتھ عمر العابد اور ایسے دیگر رہرو رخصت ہوتے ہیں ،یاد تو انہیں ہی کیا جاتا ہے، باقی ہزاروں تو کبھی کسی ریکارڈ میں شمار ہی نہیں ہوتے۔یہ سب روزانہ ارض ِ فلسطین کے سسکے بلکتے بچوں کو درندے یہودی فوجیوں کے ہاتھوں میں تڑپتا روتا دیکھتے ہیں لیکن ایک آہ بھر کر اس منظر سے آنکھیں چرا کر واپس اسی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں جہاں وہ موجود ہوتے ہیں۔حقیقت تو یہی ہے کہ اگر یہ امت عمر العابد کی طرح نہ سہی اس کا ایک فیصد ہی جاگ جائے تو اس کا حال کب کا سنور جائے۔70سال گزرے ارض فلسطین ایک بار پھر سے اس عمر کی راہ تک رہی ہے جنہوں نے 17 ہجری میں اسے صلیبیوں سے آزاد کروایا تھا۔ وہ مسجد اقصیٰ جسے اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بابرکت مقام قرار دیا اور جہاں سارے عالم کے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو سارے انبیاء علیہم السلام کی امامت کی سعادت عطا ہوئی تھی۔اس کے گرد و نواح کو بھی اﷲ تعالیٰ نے بابرکت قرار دیا اور اسے اپنی خاص نشانیوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔اسی کی جانب چہرہ کر کے مسلمانوں نے16ماہ نماز ادا کی تھی۔اسی لئے تو اس کی فتح مسلمانوں کی بڑی آرزوؤں میں سے ایک تھی۔

17 ہجری میں جب مسلمانوں نے فلسطین فتح کیا تو امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ نے یروشلم کا تاریخی سفر کرکے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے وہاں کے عیسائی پادری سے اس کی کنجیاں حاصل کیں۔ اس موقع پر امیر المومنین نے جس خوش اخلاقی، جس کشادہ دلی، عالی ظرفی اور بے لوثی سے عیسائیوں کے ساتھ معاملہ کیا، اور جس بلند اسلامی کردار کا مظاہرہ کیا، اس نے ان سب کا دل جیت لیا۔یہی تو وجہ تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ اسی وقت اسلام لے آئے۔اس وقت سے مسلم امت کا بیت المقدس سے جو رشتہ قائم ہوا، وہ صدیوں قائم رہااور اس شان سے قائم رہا کہ ارض ِفلسطین اسلامی تہذیب کی شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ 1096ء میں اسلام اورمسلم حکومتوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے نتیجہ میں دوسرے مسلم علاقوں کی طرح فلسطین پر بھی ایک بار پھر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیامگر مسلم امت کی یہ محرومی اور زبوں حالی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہی۔1187ء میں امت کے عظیم لیڈر سلطان صلاح الدین ایوبی نے طویل صلیبی جنگوں کے بعد آخری حملہ کر کے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد قبلہ اول کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا، مسجد اور اس کے محراب کو دوبارہ تعمیر کیا اور وہاں اپنے ساتھ لایا وہ منبر بھی نصب کیا جووہ ہر وقت اور ہر جنگ میں اپنے ساتھ اس ارادے سے رکھتے تھے کہ جب انہیں فتح ملے گی تو وہ اسے یہاں اپنے ہاتھوں سے نصب کریں گے۔اﷲ تعالیٰ نے ان کی یہ آرزو پوری کی کہ وہ تو یقینا ان لوگوں میں شامل تھے جن کی قسمیں بھی اﷲ تعالیٰ پوری کرتا ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریباً16جنگیں لڑ یں اور فاتح قرار پائے۔مسلم امت کے یہ عظیم ترین جرنیل1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں جو صدام حسین کی بھی جائے پیدائش ہے، پیدا ہوئے تھے ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور باریکر پر بھی حکومت کی۔سلطان صلاح الدین کو ان کی بہادری، فیاضی، حسن خلق،سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے،وہ آج تک سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے بعد واحد حکمران ہیں جنہیں فاتح بیت المقدس کا اعزاز حاصل ہے۔ تاریخ کی یہ عجیب یکسانی ہے کہ قبلہ اول کو آزاد کرانے والے یہ دونوں عظیم جرنیل سادگی اور متانت میں اپنی مثال آپ تھے۔سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی سیرت کے تذکرے تو زبان زدخاص و عام ہیں لیکن صلاح الدین ایوبی اس منفرد شخصیت کا نام ہے جو اتنے بڑے فاتح اور حکمران ہونے کے باوجود حج کی سعادت کی آرزو لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے کہ ان کے ذاتی مال میں اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ حج بیت اﷲ کا سفر اختیار کر سکتے۔آخر کوئی تو وجہ ہے کہ صدیاں بیتنے کے بعد میں ان حکمرانوں کے تذکرے کروڑوں اربوں انسان کرتے دنیا سے گزر گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے تو تا قیامت یوں ہی ان کے ناموں کے ڈنکے بجتے رہیں گے۔

قبضہ یہود میں تڑپتا بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے ان میں ایک پہاڑی کا نام صہیون ہے۔ اسی پر مسجد اقصیٰ قائم ہے۔بیت المقدس پر کنٹرول کتنی دہائیاں قائم رہا اوریہ اس وقت کی بات ہے جب آج کے مشرق وسطیٰ کے دولت مند ترین ممالک میں غربت کا راج تھا۔ یہاں موجودہ ترقی اور سہولیات کا تصور تک نہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے سینے میں خنجر کی مانند پیوست اسرائیل مشرق وسطیٰ میں عوامی سہولیات کے حوالے سے سب سے آگے ہے کیونکہ دنیا بھر کے وہ اسلام دشمنان جنہوں نے یہاں اسرائیل کو جنم دیا تھا آج تک اس پر دن رات دولت اور سامان حرب و ضرب کی برسات کرتے ہی جا رہے ہیں۔وہ 29نومبر1947 کا دن تھا جب مسلمانوں کو دنیا میں قانونی طور پر مارنے کے لئے بنائی گئی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا اور1948 میں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضہ میں آ گیا۔1967کی عرب اسرائیل جنگ میں یہودیوں نے مکمل طور پر قبلہ اول پر اپنا قبضہ جما لیا اور انہوں نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگا کر اس کا ایک حصہ جلا ڈالا تو اس آتش زدگی کا نشانہ وہ منبربھی بنا تھا جو صلاح الدین ایوبی اپنے ساتھ لائے اور یہاں نصب کر کے گئے تھے۔

مسجد اقصیٰ آج ایک بار پھر کسی عمر فاروقـؓ و صلاح الدین ایوبی کی راہ تک رہی ہے توامت کے بیٹے عمر العابد کی شکل میں دشمنوں پر پلٹ پلٹ کر جھپٹ بھی رہے ہیں جو اسی قافلہ حق کے راہی ہیں۔امت اس درد کو کب اپنا درد سمجھ کر آگے بڑھے گی ،مورخ انتظار میں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگرکچھ مسلم حکمرانوں کا خون سفید ہوگیا اور انہیں سوائے اپنے اقتدار کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تو اس سے اسرائیل کو یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ ساری کی ساری امت ان جیسی ہو چکی ہے۔اسرائیل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آج بھی مسلم امت کی رگوں میں دوڑنے والا خون ابھی بہت سرخ ہے اور ماؤں نے ابھی عمر پیدا کرنا چھوڑ نہیں دیا۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.