ایک بار ایک مجرم کو پھانسی دی جا رہی تھی۔ اس سے
اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے نہ تو اپنے خاندان سے ملنے کی خواہش
ظاہر کی اور نہ ہی کسی خاص کھانے کی فرمائش۔
ان کی صرف ایک خواہش تھی جسے سن کر جیل ملازم حیران رہ گئے۔ اس نے کہا کہ
وہ مرنے سے پہلے محمدرفیع کا بیجو باورا فلم کا گانا 'او دنیا کے رکھوالے'
سننا چاہتے ہیں۔ اس پر ایک ٹیپ ریکارڈر لایا گیا اور ان کے لیے وہ گانا
بجایا گیا۔(محمد رفیع کی برسی کے موقعے پر ریحان فضل کی خصوصی تحریر)
چار فروری سنہ 1980 کو سری لنکا کے یوم آزادی پر محمد رفیع کو سری لنکا کے
دارالحکومت کولمبو میں ایک شو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس دن ان کو سننے
کے لیے کولمبو کے 12 لاکھ شہری جمع ہوئے تھے، جو اس وقت کا عالمی ریکارڈ
تھا۔محمد رفیع ٹرینڈاڈ میں سری لنکا کے صدر جے آر جے وردھنے اور وزیر اعظم
پریم داسا افتتاح کے فورا بعد کسی اور پروگرام میں حصہ لینے جانے والے تھے۔
لیکن محمد رفیع کے زبردست گانے نے انھیں رکنے پر مجبور کر دیا اور وہ
پروگرام ختم ہونے تک وہاں سے ہل نہیں سکے۔
محمد رفیع کی عادت تھی کہ جب وہ بیرون ملک کے کسی شو میں جاتے تھے تو وہاں
کی زبان میں ایک گیت ضرور سناتے تھے۔
اس دن کولمبو میں بھی انھوں نے سنہالا زبان میں ایک گیت سنایا۔ لیکن جیسے
ہی انھوں نے ہندی گانے سنانے شروع کئے بھیڑ بیقابو ہو گئی اور ایسا تب ہوا
جب ہجوم میں شاید ہی کوئی ہندی سمجھتا تھا۔
( یاسمین خالد رفیع نے کہا محمد رفیع کی بہو)جبکہ محمد رفیع اپنی اہلیہ
بلقیس کے ساتھ
اگر ایک گیت میں اظہارِعشق کے ایک سو ایک طریقے ظاہر کرنے ہوں تو آپ صرف
ایک ہی گلوکار پر اپنا پیسہ لگا سکتے ہیں اور وہ ہیں محمد رفیع۔
چاہے وہ محبت کا الڑپن ہو، دل ٹوٹنے کا درد ہو، بالغ محبت کے جوش ہوں، گرل
فرینڈ سے محبت کی درخواست ہو یا صرف اس کے حسن کی تعریف۔۔۔ محمد رفیع کا
کوئی ثانی نہیں تھا۔
محبت کو چھوڑ کر اور انسانی جذبات کے جتنے بھی پہلو ہو سکتے ہیں۔ دکھ، خوشی،
اعتقاد یا حب الوطنی یا پھر گائیکی کا کوئی بھی طور ہو بھجن، قوالی، لوک
گیت، کلاسیکی موسیقی یا غزل، محمد رفیع کے ترکش میں تمام تیر موجود
تھے۔محمد رفیع کو پہلا بریک شیام سندر نے پنجابی فلم 'گل بلوچ' میں دیا تھا۔
ممبئی کی ان کی پہلی فلم 'گاؤں کی گوری' تھی۔
نوشاد اور حسن لال بھگت رام نے ان کے ٹیلنٹ کو پہچانا اور اس زمانے میں 'شرماجی'
کے نام سے مشہور آج کے خیام نے فلم 'بیوی' میں ان سے نغمات گوائے۔
خیام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: '1949 میں میری ان کے ساتھ پہلی غزل ریکارڈ
ہوئی جسے ولی صاحب نے لکھا تھا۔۔۔ اکیلے میں وہ گھبراتے تو ہوں گے، مٹا ہے
وہ مجھ کو پچھتاتے تو ہوں گے۔ رفیع صاحب کی آواز کے کیا کہنے! جس طرح میں
نے چاہا انھوں نے ویسا ہی گایا۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو یہ گانا گلی گلی
بجنے لگا۔'
محمد رفیع کے کریئر کا بہترین وقت سنہ 1956 سے 1965 تک کا وقت تھا۔ دو
دہائیوں تک چھائے رہے۔'
بہو یاسمین کے ساتھ
'رفیع نے دھن سنی۔ انھیں بہت پسند آئی اور وہ اسے گانے کے لیے تیار ہو گئے۔
ریکارڈنگ کے بعد وہ رفیع کے پاس تھوڑے پیسے لے کر گئے۔ رفیع نے پیسے یہ
کہتے ہوئے واپس لوٹا دیے کہ یہ پیسے تم آپس میں بانٹ لو اور اسی طرح بانٹ
کر کھاتے رہو۔ لکشمی کانت نے مجھے بتایا کہ اس دن کے بعد سے انھوں نے رفیع
کی وہ بات ہمیشہ یاد رکھی اور ہمیشہ بانٹ کر کھایا۔'
رفیع بہت دھیمی آواز میں بولنے والے، ضرورت سے زیادہ شائستہ اور میٹھے
انسان تھے۔ ان کی بہو یاسمین خورشید بتاتی ہیں کہ نہ تو وہ شراب یا سگریٹ
پیتے تھے اور نہ ہی پان کھاتے تھے۔
بالی وڈ کی پارٹیوں میں بھی جانے کا انھیں کوئی شوق نہیں تھا۔ گھر میں وہ
صرف دھوتی کرتا ہی پہنتے تھے لیکن جب ریکارڈنگ پر جاتے تھے تو ہمیشہ سفید
قمیص اور پتلون پہنا کرتے تھے۔
البتہ انھیں مہنگی گھڑیوں اور فینسی کاروں کا بہت شوق تھا۔ لندن کی گاڑیوں
کے رنگوں سے وہ بہت متاثر رہتے تھے لہٰذا ایک بار انھوں نے اپنی فیٹ گاڑی
کو طوطے کے رنگ میں سبز رنگوا دیا تھا۔
ایک بار کسی نے مذاق بھی کیا تھا کہ آپ گاڑی کو اس طرح سے سجاتے ہیں جیسے
دسہرے میں بیل کو سجایا جاتا ہے۔
رفیع کبھی کبھی پتنگ بھی اڑاتے تھے اور اکثر ان کے پڑوسی منا ڈے ان کی پتنگ
کاٹ دیا کرتے تھے۔
ان کے قریبی دوست خي ام بتاتے ہیں کہ رفیع صاحب نے کئی بار انھیں اور ان کی
بیوی جگجیت کور کو ساتھ کھانے پر بلایا تھا اور ان کے یہاں کا کھانا بہت
عمدہ ہوا کرتا تھا۔
رفیع کو باکسنگ کے مقابلے دیکھنے کا بہت شوق تھا اور محمد علی ان کے
پسندیدہ باکسر تھے۔
1977 میں جب وہ ایک شو کے سلسلے میں شکاگو گئے تو منتظمین کو رفیع کے اس
شوق کے بارے میں پتہ چلا۔ انھوں نے رفیع اور علی کی ایک ملاقات کرانے کی
کوشش کی لیکن یہ اتنا آسان کام بھی نہیں تھا۔
لیکن جب علی کو بتایا گیا کہ رفیع بھی گلوکار کے طور پر اتنے ہی مشہور ہیں
جتنے وہ باکسر کے طور پر ہیں، تو علی ان سے ملنے کے لیے تیار ہو گئے۔
دونوں کی ملاقات ہوئی اور رفیع نے باکسنگ پوز میں محمد علی کے ساتھ
تصویرکھنچوائی۔
محمد رفیع باکسر محمد علی کے بہت بڑے مداح تھے
میں نے راجو بھارتن سے پوچھا کہ کیا رفیع کو ان کی زندگی میں وہ عزت و
احترام مل پایا جس کے وہ حق دار تھے؟
بھارتن کا جواب تھا: 'شاید نہیں، لیکن رفیع نے ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے
کبھی لابی انگ نہیں کی۔ یہ دیکھ کر کہ انھیں صرف پدم شری ہی مل سکا، میں
سمجھتا ہوں کہ انھیں اپنا حق نہیں ملا۔ انھیں اس سے کہیں زیادہ ملنا چاہیے
تھا۔'
1967 میں جب انھیں پدم شری ملا تو انھوں نے کچھ وقت تک سوچا کہ اسے مسترد
کر دیں، لیکن پھر ان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ ایک خاص کمیونٹی سے آتے ہیں
اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو غلط سمجھا جائے گا۔ انھوں نے مشورہ مان
لیا لیکن انھیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
راجو بھارتن کہتے ہیں کہ 'اگر وہ پدم بھوشن کا انتظار کرتے تو وہ انھیں
ضرور ملتا اور وہ یقینی طور پر اس حق دار بھی تھے۔'
خیال رہے کہ انڈیا کے سویلین اعزازات میں سب سے باوقار بھارت رتن ہے، جس کے
بعد علی الترتیب پدم وبھوشن، پدم بھوشن اور سب سے آخر میں پدم شری کا نمبر
آتا ہے۔ موسیقی سے تعلق رکھنے والی جن شخصیات کو بھارت رتن مل چکا ہے ان
میں لتا منگیشکر، روی شنکر، بھیم سین جوشی، سبھالکشمی اور استاد بسم اﷲ خاں
شامل ہیں۔ جب کہ آشا بھوسلے کو پدم وبھوشن اور طلعت محمود کو پدم بھوشن مل
چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رفیع کے حریف کشور کمار کو کوئی بھی پدم
ایوارڈز نہیں مل سکا۔(بشکریہ بی بی سی )
|