ینگ ڈاکٹرز کی اپنے مطالبات کے حق کے لئے ہڑتال چل رہی
تھی کہ میرا بھی گزر وہاں سے ہوا۔ ایمرجنسی ہال لوگوں سے بھرا پڑا
تھا۔چھوٹے چھوٹے بچے امداد کو ترس رہے تھے اور بلک بلک کر اپنے والدین کے
سامنے مرنے پر مجبور تھے اور والدین ان ڈاکٹروں کے ترلے لے رہے تھے کہ
خدارا میرے بیٹے کو چیک کر لو۔میری بچی کو چیک کر دو،مگر ان ڈاکٹروں کو ان
کی آہو پکارکچھ سنائی نہیں دے رہی تھی۔پریشانی کے عالم میں جب میں باہر
نکلا تو لون میں بیٹھے ایک باباجی کو روتے دیکھا۔ بابانور محمد کی عمر
تقریباً80 سال کے قریب ہے اس کو اپنا علاج معالجے کے لئے ہفتے میں دو بار
ہسپتال کی ہوا کھانی پڑتی ہے ۔میں بھی بابا جی کے پاس جا کر بیٹھ گیا میں
نے ان سے پوچھا کہ بابا جی ہسپتال میں خیریت سے آئے ہیں۔ا ور رو کیوں رہے
ہیں اور پریشان بھی بہت ہیں ۔ وہ کہنے لگے کہ بیٹا ہسپتال میں بندہ کسی
مجبوری کے تحت ہی آتا ہے۔ ورنہ اس عمر میں تو کہیں جانے کی ضرورت کب ہوتی
ہے۔ وہ میرے پا س بیٹھ گئے اور کہنے لگے بیٹا کبھی بھی کسی کو ڈاکٹر نہ
بنانا۔ میں نے کہا بابا جی میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔ بابا جی دوبارہ اپنی
بات کو رپیٹ کیا اور کہا کہ بیٹا کبھی بھی اپنے کسی بیٹے یا بھائی کو ڈاکٹر
نہ بنانا۔ وہ دور گزر گیا جب ہم بڑی خوشی سے کہتے تھے کہ میں اپنے بیٹے کو
ڈاکٹر بناؤں گا تاکہ وہ غریبوں ،یتیموں اور انسانیت کی خدمت کر سکے۔ وہ
ہمارے دور کی سوچ تھی جب ہم ایک دوسرے کے لئے جان دے دیا کرتے تھے ۔ایک
دوسرے کا خیال رکھتے تھے ۔ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے ایک دوسرے کے کام
آیا کرتے تھے ۔وہ دن بڑے اچھے تھے جب کوئی بیماری نہیں تھی۔خود ہی اپنا
علاج کر لیا کرتے تھے ۔خالص خوراک تھی ۔اب تو ہم سب کھاد کی پیداوار ہیں
۔ہمارے اندر بیماروں کے علاوہ کچھ نہیں۔اس لئے تو ہر دوسرے دن ہسپتال آنا
پڑتا ہے۔ مگر اتنا سفر کرنے کے بعد جب تھک ہار کر ہسپتال پہنچتے ہیں تو
یہاں کے ڈاکٹروں کی ہڑتال دیکھ کر اور بیماروں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سارا
سارا دن ان کی ہڑتال چلتی رہتی ہے۔اور تھک ہار کر بغیر چیک اپ کے گھر کو
لوٹنا پڑتا ہے۔
بابا جی کی یہ درد بھری داستان سن کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔یہ تو
ایک بابا نور محمد کی داستان تھی مگر ایسے حالات و واقعات ہر روز جنم لے
رہے ہیں ہر روز بچے بوڑھے ،نوجوان ان کی غفلت اور لاپروی سے مر رہے ہیں جب
بھی ان کی ہٹرتال چلتی ہے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ،یہ انسانیت کے
بہت بڑے قاتل ہیں جو صرف اپنی سہولیات کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ جن کو
ہم انسانیت کا مسیحا سمجھتے ہیں وہ انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں ۔
ہر روز اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے ہڑتال پہ ہڑتال کیے جا رہے ہیں ۔ آخر یہ
ڈاکٹر بن کر کون سا انسانوں پر احسان کر رہے ہیں اپنی جیبیں بھر رہے ہیں ۔
ان کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں۔ اس وقت کوئی بھی ایسا ڈاکٹر نہیں جو
اپنا پرائیویٹ کلینک نہ چلا رہا ہو۔ لاکھوں روپے کما رہے ہیں ۔ہزاروں میں
ان کی چیک اپ فیس کے چارجز ہیں ۔ چیک اپ کے ساتھ ہی سب سے پہلے لاکھوں کے
ٹیسٹ کروانے کی رسید ہاتھ میں تھما دی جاتی ہیں ۔ ٹیسٹ لیبارٹوں سے بھی
کمیشن کھاتے ہیں ہیں۔ اگر ٹیسٹ کروا کر ہی انہوں نے بیماری کا علاج کرنا ہے
تو ان کا کیا فائدہ ،وہ بھی دور تھا جب ڈاکٹر نبض دیکھ کر سب کچھ بتا دیتا
تھاکہ آپ کو فلاح بیماری ہے ۔ مگر اب جب سائنس نے ترقی کر لی ہے تو یہ سب
الٹ چلنے لگا ہے۔ اب کوئی بھی ڈاکٹر نبض چیک نہیں کرتا ۔سب سے پہلے یہ
پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیا ہے ۔کیا مسلہ ہے ۔ بیان کریں۔ اگر یہ سب کچھ بتا
کر ہی علاج ہونا ہے تو یہ ڈاکٹر اتنی بڑی بڑی فیسیں کیوں وصول کر رہے ہیں
کیا ان کے اندر خدا کا خوف نہیں ۔ کہ خدا بھی دیکھ رہا ہے کہ ہم انسانوں کو
کس طرح لوٹ رہے ہیں ۔خدارا کوئی رحم کرو انسانوں پر اور ان کی زندگیوں پر
کیوں اپنی حوس کی خاطر ان کی جانوں سے کھیل رہے ہو۔
ہمارے ملک کے اندر تقریباً نوے فیصد ایسے ڈاکٹر ہیں جو صرف اپنی جیبوں کو
بھرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔اور یہ ایسے ڈاکٹر ہیں جو پاکستان کی
پیداوار نہیں بلکہ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے چائنہ
،کرغستان،اذربائیجان،ملائیشیاجیسے ممالک کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک
میں تو ان کا میڈیکل کے لیے میرٹ ہی نہیں بنتا ۔یہ ڈاکٹر جب ان ممالک میں
اپنی میڈیکل کی ڈگر ی کے حصول کے لئے جاتے ہیں تو پانچ سال تک وہاں یہ
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اور جب یہ میڈکل کی تعلیم مکمل ہو جاتی ہے
تو ان کو تین سال کے لئے ہوس جاب کرنی ہوتی ہیں جو کہ یہ تمام ڈاکٹر وہاں
پر نہیں کرتے اور پاکستان لوٹ آتے ہیں اور یہاں آکر یہ ڈاکٹر ہماری جانوں
پر اپنے تجربات کرتے ہیں اور ہماری زندگیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔میں پوچھتا
ہوں ان حکمران اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے اعلی عہدے داران سے کہ وہ بھی ہماری
جانوں کے دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔اور ہم ان کے خلاف آواز کیوں نہیں
بلند کر رہے۔
ان ڈاکٹروں کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے اگر ہم ان کے خلاف آواز
نہیں اٹھائیں گے تو یہ زمینی خدا بن کر ہماری جانوں سے کھیلتے رہیں گے ۔ یہ
ڈاکٹر بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں اور کروڑوں روپے مہینے کے کماتے ہیں ان پر
ٹیکس کیوں لاگو نہیں ۔یہ ڈاکٹر بڑی بڑی ناکارہ ادویات بنانے والی کمپنیوں
سے ڈیل کر کے ان کی میڈیسن ہر مریض کو لکھتے رہتے ہیں اور ان سے بھی کروڑوں
روپے اور بڑی بڑی گاڑیاں وصول کرتے ہیں ۔ اگر زمیندار ،دوکان دار اور ہم ہر
چیز پر ٹیکس دیتے ہیں تو یہ ڈاکٹر کیوں نہیں دے سکتے ان کو کس بات کی چھوٹ
دی جارہی ہے۔ ان کا بھی احتساب ہونا چاہئے ۔اور ایسے تمام ڈاکٹر جو اپنا
پرائیویٹ کلینک چلا رہے ہیں ان کو گورنمنٹ کے ہسپتالوں کی جاب سے نکال دینا
چاہئے ۔ اوران کی بھی ذرائع آمدنی کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے تاکہ ان کا بھی
احتساب ہو سکے۔ |