پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں گزشتہ کئی روز سے
جاری ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث سب سے زیادہ غریب شہریوں کو مشکلات کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ عموما ً سرکاری ہسپتالوں سے غریب یا متوسط طبقے کے
مریض رجوع کرتے ہیں، جہاں وہ ایک جانب تو مرض لاحق ہونے کی وجہ سے سخت
پریشان ہوتے ہیں، دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز کی آئے روز ہڑتال کے باعث ہسپتالوں
کے آوٹ ڈور بند ہونے سے ان کی مشکلات میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے۔اور مختلف
شہروں اور دیہی علاقوں سے آنے والے مریضوں کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔ اخبارات
کی خبروں کے مطابق گزشتہ دس برس کے دوران 300کے قریب مریض ینگ ڈاکٹرز کی
ہڑتال کے دوران طبی سہولیات نہ ملنے پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ صرف 2011 ء
میں ہڑتال کی وجہ سے ایمرجنسی ، ان ڈور اور آؤٹ بند ہوئے تو 200 کے قریب
مریض وفات پاگئے۔ اس زمانے میں فوج کے ڈاکٹروں نے بھی بعض سرکاری اسپتالوں
میں ڈیوٹیاں سر انجام دی تھیں۔ جبکہ ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال میں اب تک
4مریضوں کی موت کی اطلاع آچکی ہے، جبکہ ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں
مریضوں کے آپریشن ملتوی کئے گئے ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ مرنے والے کس
کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ ڈاکٹر ز جب اپنے فرض سے غفلت برتتے ہوئے کسی مریض کا
علاج کرنے سے انکار کر دیں تو کیا یہ قتل نہیں؟ اور اس قتل پر 302 کا مقدمہ
نہیں بنتا؟ جبکہ ڈاکٹربننے کے بعد ایک حلف اٹھا یا جاتا ہے جس میں واضع درج
ہوتا ہے کہ ہم اپنے مریض کو ہر حال میں علاج کی سہولیات فراہم کریں گے،چاہے
کچھ ہو جائے اس کا علاج کر یں گے اور علاج سے ہرگز انکار نہیں کریں گے۔
لیکن اس کے باوجود ہر دو چار ماہ بعد سرکاری اسپتالوں میں احتجاج کے دوران
طبی سہولتوں کی معطلی کا افسوسناک سلسلہ شروع ہونا کسی بھی مہذب اور انسانی
قدروں پر یقین رکھنے والی ریاست کیلئے کوئی مثبت علامت نہیں۔آئے روز کی
ہڑتالوں سے ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے پر حرف آتا ہے،اس طرح ایمرجنسی ،ان ڈور ،
آوٹ ڈور سروسزبند کردینا غریب مریضوں کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔غربت کا شکار
عام آدمی تو نجی اسپتالوں کے مہنگے علاج کی سکت ہرگز نہیں رکھتا، سرکاری
اسپتال ہی اس کی امید کاآخری سہا را ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مریضوں اور ان
کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز اور پنجاب حکومت مذاکرات کرکے معاملہ حل
کریں تا کہ متوسط اور غریب طبقہ کو علاج کی سہولت میسر آ سکے۔ جبکہ ینگ
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوتے یہ ہڑتال جاری
رہے گی۔ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں ینگ ڈاکٹرز کی کئی روز سے جاری
ہڑتال ختم کرنے کیلئے فریقین کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد صوبائی
محکمہ صحت نے احتجاج کرنے والے کئی ڈاکٹرز کو بر طرف کرکے نئی بھرتیوں کا
عمل شروع کردیا ہے ۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق برطرف ڈاکٹرز کی تعداد
74 سے بڑھ کر80 ہوگئی ہے۔ برطرف ڈاکٹرز کی جگہ نئے ڈاکٹرز نے فرائض سنبھال
لیے ہیں۔ جبکہ لاہور کے جنرل، جناح اور سروسز ہسپتال میں سینئر ڈاکٹرز نے
ڈیوٹیاں سر انجام دینا شروع کردی ہیں جبکہ ملتان کے چلڈرن کمپلیکس، کڈنی
سینٹر، نشتر اور سول ہسپتال میں ینگ ڈاکٹرز کے ہڑتا ل کے باعث ہسپتالوں کے
آوٹ ڈور اور ایمرجنسی میں سینئر ڈاکٹرز کو تعینات کردیا گیا ہے۔ لیکن کیا
ہی اچھا ہوتا کہ اس ضمن میں حکومتی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات کئے جاتے جس
سے معاملے کے مستقل حل میں مدد ملتی۔ بلاشبہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے
آواز اٹھانا ہر شہری اور ہر شعبے سے وابستہ افراد کا حق ہے ، تاہم اس حوالے
سے درمیانی راستہ اور انسان دوست روئیہ اپنانا ضروری ہے، منفی ہتھکنڈوں کی
کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ |