ہندوستان کی آزادی کی 70 ویں سالگرہ پر نئی دہلی میں
منعقدہ تقریب میںوزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ'' کشمیر کا مسئلہ گولی
یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے حل ہو گا''۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ
'' ہمیں کشمیر کے معاملے پر مل کر کام کرنا ہو گاتاکہ کشمیر کی جنت کو ہم
دوبارہ محسوس کر سکیں اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نے
پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ''جب سرجیکل سٹرائیکس ہوئیں تو دنیا نے
ہماری طاقت کو تسلیم کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔
دنیا کے بہت سے ملک ہماری مدد کر رہے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم مودی نے انڈیا
میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے اسے قبول
نہ کرنے کی بات کہی۔سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی مقبوضہ کشمیر کی مختلف
وڈیوز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں متعین تقریبا ایک ملین
بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف گندی گالیوں اور گولیوں کا استعمال شدید،بھر
پور اور مسلسل طور پر کرتی آ رہی ہے۔اب بھارتی وزیر اعظم کشمیریوں کے خلاف
اشتعال اور نفرت انگیز گالیوں اور گولیوں کا استعمال کی پالیسی ختم کر کے
کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کر رہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کی صورتحال
دیکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کشمیر پالیسی میں
تبدیلی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں ۔بھارتی وزیر اعظم کشمیریوں کے احترام
حقوق و اختیار کی بات نہیں کرتے اور ایک ایسے کشمیر کی خواہش ظاہر کررہے
ہیں کہ جہاں بھارت کو کشمیر میں '' جنت'' محسوس ہو سکے۔بھارتی وزیراعظم کی
اس تقریر سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ
پرامن طور پر حل کرنے کی سوچ نہیں رکھتے۔بھارت میں ''بندی'' کا لفظ اتنا
مقبول ہے کہ اقلیت بندی کے مسلسل سلوک کے ساتھ نس بندی اورنوٹ بندی کی
پابندیاں بھی استعمال کی گئی ہیں۔شاید بھارت بندیوں پر ہی یقین رکھتا
ہے،آزادیوں پر نہیں اور بھارت کی یہی سوچ کشمیر کے حوالے سے بھی روز روشن
کی طرح واضح ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر کو مستقل طور پر ہتھیانے کے لئے فیصلہ
کن اقدامات پر عمل پیرا ہے،اس تناظر میں بھارتی وزیر اعظم کی یہ تقریر
عالمی برادری اور کشمیریوں کو'' سبز باغ'' دکھانے کی کوشش کے طور پر بھی
دیکھی جاسکتی ہے۔
لڑکپن میں جب پاکستان کے کسی حالیہ سیاسی مسئلے کے بارے میں دریافت کرتے تو
ہمارے بزرگ تیس ،چالیس سال پہلے کی باتیں بتانا شروع کر دیتے۔ نئے سیاسی
حالات کے بارے میں تین ،چار عشرے پرانی باتیں سن کر بہت کوفت ہوتی تھی کہ
ہم آج کی بات دریافت کر رہے ہیں اور ہمیں سالہا سال پرانے واقعات بتائے جا
رہے ہیں۔تاہم اب معلوم ہوا کہ حالیہ سیاسی واقعات کے تانے بانے ماضی میں ہی
پوشیدہ ہوتے ہیں،ماضی میں اٹھائے گئے اقدامات ہی حال کی صورتحال کا پیش
خیمہ ہوتے ہیں۔پاکستان میں ایک بار پھر یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ آئین و
قانون کی حقیقی بالادستی قائم کی جائے، ملکی وسائل کی تقسیم، پالیسیوں کی
تشکیل اور آئینی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ کے قائد انہ کردار کو تسلیم کیا
جائے۔ جنرل ایوب کے مارشل لاء سے لیکر اب تک فوج ہی ملک کے سیاسی فیصلے
کرتی چلی آئی ہے جس سے ملک میں سویلین اور فوج کے درمیان اختیارات اور
بالادستی کی کشمکش کو عالمی سطح پر بھی محسوس اور مانیٹر کیا جا رہا
ہے۔پاکستان کو چلانے کے لئے عبوری انتظامات زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں ۔ملک
چلانے کے لئے سرکاری اداروں،محکموںکو مستقل نوعیت کی پالیسیوں پر استوار
کرنا اب ملکی استحکام اور بقاء کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔اب عوام کو '' ایک
پیج'' پر ہونے کی طرح کی مصنوعی خوشخبریاں مطمئن نہیں کر سکتیں۔پاکستان کا
قیام عسکری نہیں بلکہ سیاسی کارنامہ ہے لیکن ملک میں اسے عسکری کارنامے کے
طور پر پیش کیا جانا،23مارچ کی طرح14اگست کو بھی غالب طور پر نظر آتا
ہے۔پاکستان عوامی ووٹ کی بنیاد پر قائم ہوا اور عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ
کئے جانے سے ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔بعض عناصر کی طرف سے یہ تاثر
ملک کے لئے نہایت خطرناک ہے کہ سیاسی حکمرانی سے ملک کمزور اور فوجی حاکمیت
سے ملک مضبوط ہوتا ہے۔جنرل ایوب کے قائم کردہ ،جنرل ضیاء ،جنر ل مشرف کے
مضبوط کردہ اورعدلیہ و سیاستدانوں کے منظور کردہ نظام نے پاکستان اور عوام
کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق پاکستان کے ساتھ مزاکرات
سے حل کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتے
ہوئے اسے اندرونی اقدامات سے حل کرنے کی بات کر رہا ہے۔لیکن بھارت یہ حقیقت
فراموش کر رہا ہے کہ کشمیریوں کے خلاف ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے
کے باوجودبھارت کشمیریوں کے عزم آزادی کو تسخیر نہیں کر سکا ہے۔کشمیریوں کے
خلاف بھرپور فوجی طاقت کے مسلسل ظالمانہ استعمال نے کشمیریوں کو بھارت کی
فوجی طاقت سے بے خوف کر دیا ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے ارباب
اختیار کی طرف سے عقل و دانائی کا تقاضہ مبنی بر انصاف اور ملک و عوام کے
بہترین مفاد میں ہے۔اگر اب بھی ہم ریاست کی تشکیل کے بنیادی تقاضوں کے
بجائے اختیار و حاکمیت کے نت نئے تجربات میں مصروف رہے تو فکر و عمل کا یہ
منفی رجحان مہلک ترین ناقابل تلافی نقصانات پر منتج ہو سکتا ہے۔ |