اِس مرتبہ یوم آزادی انتہائی عجیب و غریب ما حول میں
منایا جارہا ہے۔عمران خان، نوا ز شریف اور بلاول زرداری جلسے کر رہے ہیں
اور ریاستی ادارون کو اِن حالات مین بے یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔نواز
شریف کا انقلابی انداز اختیار کرنا عمران کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتاہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمہوریت کی بساط بھی لپیٹی جاسکتی ہے۔ نواز شریف کے
نئے سیاسی انداز مختلف ہیں اور وہ ایک ہارئے ہوئے جواری کی طرح ہر شے کی
بازی لگانے پر تُلا ہوا نظر آرہا ہے۔ جس طرح سے نواز شریف کی جانب سے
ریاستی اداروں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ وہ ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے ۔
اِس وقت جب سی پیک منصوبہ تکمیل کے مراحل مین ہے ۔ نواز شریف کو یک جنبش
قلم اقتدار سے علحیدہ کر دینا بہت بڑا اقدام ہے۔موجودہ سیاسی حالات جس نہج
پر پہنچ چکے ہیں اُس سے یہ بات حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ اداروں کے
درمیاں ٹکروا کی پیش بندی ہوتی جارہی ہے۔ نواز شریف نے جس طرح اسلام آباد
سے لاہور کا سفر سیاسی روڈ شو کے طور پر کیا اور نواز شریف نے جو انقلاب کی
بات کی اور جس طرح پانچ ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اِس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ نواز شریف اِس وقت انتہائی غصے میں ہیں۔نواز شریف نے جس انداز میں
پچھلے ستر سالوں کا ذکر کیا کہ منتخب وزیر اعظموں کو مدت نہیں پوری کرنے دی
جاتی رہی اور عوام کو انقلاب لانے کی ترغیب دی ہے۔نواز شریف نے جوڈیشل
ایکٹوازم کے خلاف دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ قانون کی بالا دستی قائم کروانا
حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اِس وقت پنجاب، بلوچستان، کشمیر اور مرکز
میں نواز شریف کی پارٹی کی حکومت ہے۔ اِس طرح نواز شریف بلا غیرے شرکت اِس
ملک کے حکمران ہیں۔لیکن ڈان لیکس کے واقعے کے بعد صورتحال بگڑتی چلی گئی۔
ڈان لیکس والے معاملے پر آرمی کی طرف سے جو ٹویٹ آئی جو بعد میں واپس لے لی
گئی یہ ٹرنگ پوانٹ بنا۔نواز شریف کی جانب سے بھارت میں سرمایہ کاری کے
حوالے سے اور مودی سرکار سے ذاتی دوستی نے بھی نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے
لیے ناقابل قبول بنا دیا ۔پاکستان مین دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج
جس طرح قربانیاں دے رہی ہے اِن حالات میں سول حکومت کے ساتھ تعلقات کا بہتر
نہ رہنا پاکستان کی بدقسمتی ہے۔پانامہ لیکس نواز شریف کو نکال باہر کرنے کا
بہانہ ہی بنی ورنہ اقامہ والا فیکٹر ہی نواز شریف کے لیے بہت بھاری ثابت
ہوا۔نواز شریف جو بڑی شد ومد کے ساتھ اب اِس بات اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ
آرام سے نہیں بیٹھیں گے بلکہ نواز شریف انقلابی رہنماء کے طور پر خود کو
اُبھار رہے ہیں اور اُن کا اب کارواں دوسرے صوبوں اور آزادکشمیر کی طرف
مارچ کرئے گا۔ نواز شریف کی کوشش ہے کہ ایک لارجر بنچ بنے جو کہ نواز شریف
کی اپیل سُنے۔نواز شریف کی برطرفی کے بعد نوا ز شریف کے داماد کیپٹن صفدرکی
ممتاز قادری شہیدؒ کے مزار پر حاضری دینا اور وہاں پر یہ استدلال پیش کرنا
کہ پھانسی تو ججوں نے دی تھی نواز شریف کا کوئی قصور نہیں تھا ۔کیپٹن صفدر
نے یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف چونکہ نظام مصطفےﷺ نافذ کر رہے تھے اِس لیے
اُن کو ہٹا دیا گیا ہے۔عمران خان کی جانب سے گو کہ نواز شریف کو ناہل قرار
دیے جانے کے لیے کافی زور لگایاگیا لیکن نواز شریف کی جانب سے بہتر طور پر
وکالت نہ کرنا اور خوشامدیوں کے نرغے میں آنا نواز شریف کے لیے وبال جان بن
گیا ہے۔ نواز شریف خود ہی حکومت میں ہیں اور خود ہی اب وہ اپوزیشن بھی بنے
ہوئے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں نواز شریف ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جس کا
موازنہ کسی اور کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ
داران کو سزائیں نہ دینا بھی نواز شریف کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے۔نواز
شریف کو اب ایک ایسی لڑائی لڑنا ہوگا۔ جس کے راستے میں ادرواں کے ساتھ
ٹکراو نوشتہ دیوار ہے۔ نواز شریف شائد اِس زعم میں رہے کہ اُن کے اپنے ہی
بھرتی کردہ جج کیسے اُن کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں لیکن جب ایمپائر کوئی
اور ہو تو سب کچھ ہو جاتا۔ نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی کو پہلے تسلیم
کرنا پھر اِس میں پیش ہونا اور بعد ازاں جے آئی کے خلاف ردِ عمل کا اظہار
کرنا اِس طرف اشارہ ہے کہ نواز شریف چگل میں پھنستے چلے گے عدلیہ کی جانب
سے مشرف کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ احتساب سب کا
نہیں ہورہا ۔ ججوں جرنیلوں سیاستدانوں کے درمیان فرق روا رکھا جارہا ہے۔
عمران کے حامی بہت خوش ہیں کہ نواز شریف نا اہل ہوگیا ہے۔ لیکن بقول خواجہ
سعد رفیق نواز شریف اب زیادہ خطرناک ہوگیا ہے۔ |