یوں توبہت سی بیماریاں ہیں جو کہ نہ صرف جان لیوا ثابت
ہوتی ہیں بلکہ ان بیماریوں سے ڈر کر مریضوں کے اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے
ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماری جزام یعنی کوڑھ کی بھی ہے۔ اس مرض کے شکار مریضوں
کا جسم گلنے سڑنے لگتا ہے اوران کے زخموں سے شدید بدبو آتی ہے۔ مگر تاریخ
اس بات کی شاہد ہے کہ پاکستان اس ملحق بیماری کو شکست دے کر ایشیاء کا پہلا
ملک بنا جس نے جزام جیسے موذی مرض پر قابو پایا۔ اور سنہ 1996ء میں عالمی
ادارہ صحت نے پاکستان کو جزام سے پاک ملک قرار دے دیا۔ یقیناً یہ کوئی
چھوٹی موٹی کامیابی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی فتح تھی جس کا سہرا انفرادی طور
پر جرمنی کی ایک نیک دل خاتون ڈاکٹرروتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ کے سر جاتا
ہے۔ جوکہ انسانیت دوست نہایت شفیق انسان تھیں جنہوں نے رنگ، نسل اورمزہب کی
تفریق سے بالاتر ہو کرمحض انسانیت کے ناطے ہزاروں کوڑھ اور ٹی بی کے مریضوں
کی دادرسی کی۔ مگر اب یہ مریض اپنی شفیق مسیحا کی شفقت اور سائے سے محروم
ہو چکےہیں۔
پاکستان سے خاص لگاؤ رکھنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ شدید علالت کے بعد کراچی
کے ایک نجی ہسپتال کےانتہائی نگہداشت کی وارڈ میں 9 اگست کو وفات پا گئیں
تھیں۔ ڈاکٹر روتھ کو پاکستان کے اعلٰی حکومتی ایوانوں اورسول سوسائٹی کی
جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
کوڑھیوں کی مسیحا اور پاکستانی مدر ٹریسا کہلانے والی یہ خاتون سنہ1960ء
میں پاکستان تشریف لائیں اور جزام کے مرض کے خاتمے کے لئے کوششیوں کا آغاز
کیا اور اپنی ساری زندگی پاکستان میں ہی گزار دی۔ اس زمانے میں کوڑھ کے
مریضوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا جاتا تھا۔ تب ڈاکٹر روتھ نے کراچی میں
میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر قائم کیا جہاں وہ ان کوڑھیوں کو اپنے ہاتھ سے
دوا کھلاتیں اور مرہم پٹی کرتیں۔ بعد ازاں اس سنٹر نے سنہ 1965ء میں ہسپتال
کی شکل اختیار کر لی۔ اب پورے پاکستان میں ان سنٹرز کی تعداد 170 تک پہنچ
چکی ہے جہاں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
ڈاکٹر روتھ کو انکی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے متعدد
ایوارڈز سے نوازا۔ جن میں ہلال پاکستان، ستارہ قائد اعظم، ہلال امتیاز،
جناح ایوارڈ اور نشان قائد اعظم قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر روتھ کی کہانی سے ہم سب پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ سچی ہمت اپنے عقائد
کے تعاقب میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اورعقائد بھی ایسے جو دکھی انسانیت کی خدمت
اورہمدردی کے جذبات سے لبریز ہوں۔ اپنے انہی عقائد کے سائے میں اورانسانیت
دوست جذبات سے لبریز ہو کر ڈاکٹر روتھ نے اپنے آبائی ملک پر ان نامعلوم
،اجنبی لوگوں کی دیکھ بھال کو ترجیح دی جو کہ مصیبت اورتنہائی کی اتہاہ
گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور ڈاکٹر روتھ نے اپنی زندگی کے 50 پچاس
سےزائد سال ان لوگوں کی خدمت میں گزار دیئے۔ حتٰکہ انہیں انہی مریضوں کے
علاج معالجے کے لئے اپنے اعزازات اورانعامات تک بیچنے پڑئے۔ کیونکہ ڈاکٹر
روتھ کے مطابق یہ انعامات ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اگر ان کے مریض
تکلیف میں مبتلا رہیں۔
مزید براں، سوشل میڈیا پر متعدد سیاسی ٹرینڈز کے باوجود ڈاکٹر روتھ فاؤ کا
نام "صفِ اول کا ٹرینڈ" رہا۔ جہاں پر صارفین کی جانب سے انکی سرکاری اعزاز
کے ساتھ تدفین کا مطالبہ کیا گیا۔ جس کے چند گھنٹوں بعد حکومت پاکستان کی
جانب سے ان کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنانے کا اعلان کیا گیا۔ اور ان
کی آخری رسومات 19 اگست کو سینٹ پیٹرکس چرچ کراچی میں ادا کی جائیں گی۔
المختصر،پوری قوم اپنی اس محسنہ کی وفات پر سوگوار ہے اور تہ دل سے انکی بے
لوث خدمات کے لئے انہیں خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ اور بلا شبہ پاکستان
دوست، انسانیت کی اس سفیر کو ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یاد رکھا جائے گا کہ جس
نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے صرف اور صرف
ایک نیک اور مہربان دل درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر
روتھ فاؤ جیسی ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں اوربہت نایاب ہوتی ہیں۔ |