حضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی علیہ الرحمۃ والرضوان
15؍ذیقعدہ027 1ھ مطابق 3؍نومبر 1618ئکواتوارکے دن ملکۂ
ارجمندبانو(ممتازمحل بیگم)کے بطن سے ’’قصبۂ دَوْحَد‘‘(صوبہ گجرات)میں
پیداہوئے۔آپ کانسب یہ ہے حضرت اورنگ زیب عالمگیربن شہابؔ الدین شاہجہاں بن
نورالدؔین جہانگیربن اکبرؔ بن نصیرؔالدین ہمایوںؔ بن ظہیرؔالدین بابر۔
حضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی ؒ نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء کرام سے
تعلیم حاصل کی۔عربی ،فارسی اورہندی کے بہترین عالم ہوئے،ترکی زبان سے بھی
کامل طورپرواقف تھے۔ حضرت علامہ مولانامُلّااحمدجیون علیہ الرحمۃ والرضوان
(مصنف نورالانوار)جوہندوستان کے بہت مشہورومعروف جید عالِم گزرے ہیں ،آپ
کانام احمدہے اوروالدکانام ابوسعید،آپ’’ مُلّاجیون ‘‘سے مشہورومعروف ہیں،آپ
نے اپنی پوری زندگی درس وتدریس اورتصنیف وتالیف میں صرف کی اُصول فقہ میں
’’نورالانوارشرح المنار‘‘آپ کی زندہ یادگارہے جس سے دنیائے علم کابچہ بچہ
بخوبی واقف ہے ،یہ کتاب آپ نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران صرف دوماہ کے
اندرلکھی ہے،حضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی ؒنے اِن کی شاگردی کابھی شرف حاصل
کیاہے۔مغل بادشاہوں میں جس نے سب سے پہلے حافظ قرآن کریم ہونے کی شرف وعزت
پائی وہ حضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی ؒ ہیں۔
مذہبی تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے فوجی تعلیم میں بھی مہارت
تامہ پیداکی۔جنگی داؤ پیچ میں آپ ایک بہترین سپہ سالار تھے، ہمت وشجاعت
اوربہادری کاعالم یہ تھاکہ چودہ برس کی عمرمیں ایک مست ہاتھی سے ڈٹ کر
مقابلہ کیا۔بچپن ہی میں آپ روزہ ،نمازوغیرہ احکام ِشرع کے سخت
پابندتھے۔شہزادگی کے زمانے میں شاہجہاں بادشاہ نے آپ کومغل فوج کا سپہ
سالاربناکربلخ کی مُہِم سرکرنے بھیجا۔جب آپ لشکرلے کربلخ پہنچے تومقابلہ
پرعبدالعزیزخان سپہ سالاراپنابلخی لشکرلے کرآیااورطرفین میں خوب لڑائی ہونے
لگی۔24؍ربیع الآخر056 1ھ مطابق 9؍جون 1646ء کوسنیچرکے دن مغل فوج اوربلخی
لشکرکے درمیان گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی کہ نمازِظہرکاوقت آگیا۔حضرت
شاہزادہ اورنگ زیب عین میدانِ جنگ میں اپنے گھوڑے پرسے اُترپڑے اورنمازشروع
کردی یہ دیکھ کراَغل بغل کے سپاہی بھی نماز میں شریک ہوگئے۔آپ نے توپوں کی
چنگھاڑ اورتلواروں کی جھنکارکی پرواہ وفکرکیئے بے غیرنہایت اطمینان وسکون
اوروقارسے فرض ،سُنّت اورنفل اداکئے۔آپ کی جرأت وہمت کایہ نقشہ دیکھ کربلخی
فوج کاسپہ سالارعبدالعزیزخاں بہت متاَثِّرہوااَوراپنے جنگی افسروں سے کہنے
لگاکہ عالمگیرجیسے شخص سے لڑنااپنے آپ کوتباہ وبربادکرناہے پھروہ صلح
کاخواستگارہوااورجنگ مکمل ختم ہوگئی۔
شاہجہاں مرحوم کے چار(4)شاہزادے تھے۔(1)دراشکوہ،(2)حضرت اورنگ زیب
عالمگیر،(3)محمدشجاع،(4)مُرادبخش۔اِن میں سب سے زیادہ داناو ہوشیار،سنجیدہ
مزاج،پیکرحُسن واخلاق،تحمل وبُردبار،جفاکش،تجربہ کار،شجاعت وبہادر اورپختہ
کردارحضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی ؒتھے۔ان باتوں کے ساتھ ساتھ آپ دین کے
عالِم ،شریعت مطہرہ کے حامی،پاکیزہ چال چلن کے آئینہ دارتھے۔تمام بھائیوں
میں سب سے بڑا’’دَارَا‘‘تھالیکن پست ہمت،بزدل،مزاج کاچڑچڑا،عمل
کانِکمَّا،سمجھ کابوداتھااورپھرمسلمان کہلاتے ہوئے اسلامی شرع
کادشمن،ملحدوں کاساتھی اورطرف دارتھا۔برہمنوں اوریوگیوں کی صحبت میں رہ
کراُس نے نمازاَوررُوزہ سب چھوڑدیاتھا۔ اس کی انگوٹھی کے نگینہ پراﷲ کے نام
کی جگہ’’پربھو‘‘کانام کندہ تھا۔(معاذاﷲ).(ہندوستان کی مذہبی روحانی
تاریخ،ص138)
اس کواپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ چڑھ،بغض،دشمنی،حسد اورجَلن حضرت
اورنگ زیب عالمگیرغازی ؒ سے تھی چنانچہ شاہجہاں کی علالت کے زمانہ میں جب
اس نے سلطنت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لے لی تھی تواُس وقت اُس نے حضرت
اَورنگ زیب عالمگیرغازیؒ کونست ونابودکردینے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی
لیکن اﷲ تبارک وتعالیٰ کے فضل ومہربانی نے حضرت اورنگ زیب
عالمگیرغازیؒکوہرموڑپرکامیابی وکامرانی عطافرمائی اوردَارَاشکست پرشکست ہی
کھاتاگیا۔
24؍رمضان المبارک068 1ھ مطابق 25؍جون 1658ئکو حضرت اورنگ زیب عالمگیرغازی
ؒ نے شہنشاہ ہندوستان کی حیثیت سے زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ،اورتاجپوشی
کی رسم10؍رمضان المبارک069 1ھ مطابق یکم جون 1659ئکواَداکی گئی۔بادشاہ
ہوتے ہی آپ نے شراب نوشی ممنوع قراردی،بھنگ اورگانجے کی کاشت روک
دی۔قماربازی وجُوابندکردیا۔ناچنے اورگانے بجانے کی سخت ممانعت کردی۔طوائفوں
کوحکم دیاکہ وہ مردسے نکاح کرلیں یاملک چھوڑدیں پھران احکام کی تعمیل کے
لئے آپ نے محکمۂ اِحتساب قائم کیاجِس کے افسروں کاکام یہ تھاکہ جوشخص اِن
احکام کی خلاف ورزی کرے اس کوسخت سے سخت سزادیں۔
آپ نے اپنے سرپرشہنشاہی تاج اس لئے نہیں پہناتھاکہ خودعیش وآرام کی زندگی
گزاریں۔سُکھ کی نیندسوئیں۔اپنے ٹھاٹ باٹ کے لئے رعایاپرطرح طرح کے ٹیکس
لگائیں بلکہ بادشاہت آپ نے اس لئے قبول کی تھی تاکہ رعایااَمن وسکون کی
زندگی بسرکرے۔ناجائز ٹیکسوں کابوجھ عوام کے کندھوں سے اُتاردیاجائے۔مُلک
میں عدل وانصاف کاجھنڈالہرائے۔طاقت والے کمزورں پرظلم نہ کرپائیں۔مسلمان
اسلامی قانون پرعمل کریں۔ چنانچہ آپ نے ساری توجہ رعیت کی خوشحالی وترقی
پرلگادی۔رعایاکے ذمہ سے تقریباًاَسِّی فیصد ٹیکس معاف کردئیے گئے۔راستے
اورسڑکوں کی حفاظت کاعمدہ انتظام کرکے تجارت کوخوب فروغ دیا۔آپ نے عدل
وانصاف کاایساشامیانہ تاناجس کے نیچے پھیڑیابھی ایک دُبلی کمزوربکری پرحملہ
کرنے کی ہمت وجرأت نہ کرسکتاتھا۔آپ نے مُلک میں تعلیم کوخوب ترقی دی۔دینی
مدرسوں پرزمینیں وقف کیں۔اساتذۂ کرام کے لئے شاہی خزانے سے مشاہرے اورطلبۂ
عظام کے لئے وظائف بھی
مقررکئے۔فریادیوں،دُکھیوں،غریبوں،مسکینوں،یتیموں،بیواؤں اورمظلوموں کے لئے
آپ کاوجودرحمتِ اِلٰہی کادریاتھا،لیکن ظالموں ،شریروں اورسرکشوں کے حق میں
آپ شمشیربرہنہ تھے۔آپ ہندوستان کے ایک عظیم شہنشاہ تھے۔شاہی خزانوں
کادریاآپ کے قدم کے نیچے سے بہ رہاتھااوراس دَریاسے ساراہندوستان مکمل
طورسے سیراب ہورہاتھالیکن دُنیایہ سُن کرحیرت کرے گی کہ آپ نے اپنی ذات کے
لئے شاہی خزانہ سے ایک پیسہ نہیں لیا۔آپ نے ایک بے نوافقیرکی طرح بڑی سادہ
زندگی بسرکی۔ٹوپیوں کے پلّے میں بیل بوٹے کاڑھ کراس کوفروخت کرتے نیزاپنے
ہاتھ سے قرآن مجیدلکھ کراُس کوہدیہ کرتے اوراِن دونوں کی آمدنی سے اپناذاتی
خرچ پوراکرتے تھے۔آپ نے وقتِ وِصال وصیت کردی تھی کہ چارروپے دوآنے جومیں
نے ٹوپیاں بناکرکمائے ہیں۔وہ میرے کفن پرخرچ ہوں اورتین سوپانچ (305)روپے
جومیں نے قرآن شریف کی کتابت سے حاصل کئے ہیں وہ غریبوں اورمسکینوں میں
خیرات کردئے جائیں۔
آپ کے اِسی ایک کردارسے واضح طورپرثابت ہوگیاکہ آپ نے ہندوستان کی شہنشاہی
کامنصب عیش وآرام اُٹھانے یااپنی عظمت وشان بڑھانے کے لئے قبول نہیں
کیاتھا۔ہاں یہ اوربات ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جوعظمت وجلال آپ
کوعطافرمایاتھا وہ مغل بادشاہوں میں تیمورلنگ سے لے کربہادرشاہ ظفرتک کسی
کوبھی حاصل نہیں۔آپ کے عہدِ حکومت میں بے شمارمسجدیں تعمیرہوئیں اوراسلامی
قوانین کوپھولنے اورپھلنے کاموقع خوب ملا۔عدالتوں میں مفتی اورقاضی
مقررتھے۔جنھیں شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرناپڑتاتھا۔آپ نے قاضیوں کی
آسانی کے لئے قانون شرع کی ایک بہت ہی ضخیم کتاب تیارکرائی جس کانام
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ہے۔
آپ نے اس کتاب کی تیاری کے لئے پانچ سو(500)قابل ومستندعلماء کرام کی ایک
جماعت قائم کی اورشاہی خزانے سے اُن کاوظیفہ مقررکیا۔آٹھ سال کی محنت شاقہ
وجہدمسلسل کے بعدیہ کتاب مرتب ہوئی اوراس کی تیاری میں دولاکھروپے
(200000اُس زمانے)میں خرچ ہوئے۔اس کارنامہ کی بدولت آپ کی عظمت ورفعت
کاجھنڈابھی ہندوستان سے مُلک مصرتک لہرارہاہے۔
آپ کے دَورِحکومت میں مسلمانوں کے ساتھ غیرمُسلم رعایابھی سُکھ اورچین کی
زندگی گزارتی رہی۔ملازمت کادروازہ آپ نے سب کے لئے یکساں طورپرکھول
رکھاتھا۔آپ کی حمایت ووَفاداری میں جس طرح ایران اورتوران کے مسلمان اپنی
شمشیروں کے جوہردکھاتے تھے یونہی آپ کے جھنڈے تلے ہندوستان کے ہزاروں
راجپوت سپاہی اورافسران بھی آپ کے دشمنوں پرتلواریں چلاتے رہے۔
آپ کی سلطنت کارقبہ بہت وسیع تھا،ہندوستان،افغانستان اورتِبَّت اِن تینوں
مُلکوں کے آپ واحدشہنشاہ تھے۔آپ نے پچاس (50)سال ایک ماہ پندرہ(15)یوم
حکومت کی اور8؍ذ ی قعدہ118 1ھ مطابق 11؍فروری 1707ئکوجمعہ مبارکہ کے دن
اَحمدنگر(صوبہ دکن)میں انتقال فرمایااورقصبۂ خلدآبادمیں جوشہراورنگ آبادسے
بارہ میل کے فاصلے پرہے دفن ہوئے۔ |