ان دنوں خواتین خصوصاً عائشہ نام کی خواتین نے میڈیا پر
اپنا مکمل تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ایک ہیں عائشہ گلا لئی جو تحریک انصاف کی
نسبت سے مسلم لیگ (ن) کے ماتھے کا جھومرہیں کہ اپنی وابستگی عمران خان سے
بتاتی ہیں۔ دوسری عائشہ احد نے حمزہ شہباز کے سر پر تاج سجایا ہے اور انہوں
نے حمزہ شہبازکو سرتاج قرار دے دیا ہے اس لئے تحریک انصاف کی چہیتی ہیں۔
مقابلہ زبردست ہے۔ کوئی شرم، کوئی حیا، کوئی غیرت، کوئی عزت، یہ پرانے
وقتوں کی باتیں اب کہاں۔دونوں طرف واہ واہ اور ہائے ہائے کہنے والے بہت۔ کس
قدر افسوس ناک ہے کہ قومی سطح پر اس قدر اخلاقی انحطاط اور قوم مزے لے رہی
ہے۔ میڈیا پر تو وہ پرانے ڈھولچی پوری طرح قابض ہیں کہ جن کا آبائی پیشیہ
لوگوں کو ہنسنا اور ہنسانا تھا سو وہ اپنا کام دکھا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ
ملک کا سنجیدہ طبقہ غیر فعال ہو چکا۔وہ صرف ماتم کر سکتا ہے۔ کچھ اپنی
کمزوریوں اور شرافت پر اور کچھ اس ملکی غلیظ صورت حال پر۔
مجھے اس ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تقریباً پنتالیس (45)
سال ہونے کو ہیں ۔ ہر سال بھانت بھانت کے لڑکے اور لڑکیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
کچھ عجیب صورت حال ہے۔ خدیجہ مستور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جس گھر میں جوان
بچیاں ہوں اس گھر کے مکینوں کو ہوا کے جھونکوں سے بھی خوف آتا ہے۔ سوچتا
ہوں کہاں گئے وہ جھونکے۔ آج ہم جھکڑ چلتے دیکھتے ہیں۔ کسی ماں اور کسی باپ
کو خوف نہیں آتا۔ بچیاں ہنسی خوشی باد سموم کا رخ کرتی ہیں، ماں باپ حوصلہ
افزائی کرتے ہیں اور میرے جیسے منع کرنے والے کو احمق اور پاگل قرار دیتی
ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی گلہ کیسا۔ کوئی شکوہ اور شکایت کیونکر۔ہر روز
ایسے واقعات ہوتے ہیں اور شور اس وقت اٹھتا ہے جب کسی خاص مصلحت کے تحت ایک
فریق دوسرے کو بلیک میل کرنے کی تھام لیتا ہے۔
فطری طور پر مرد فاعل ہے اور عورت مفعول۔ابتدا مرد کرتا ہے اور عورت جواب
دیتی ہے۔چنانچہ عموماً جب بھی کوئی پیشکش ہوتی تھی تو اس کا محرک نوے فیصد
(90 %) مرد ہوتے تھے۔ بہت کم عورتیں پہل کرتی نظر آتی تھیں۔مگر آج پہل کرنے
والی عورتوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ نظر آتا ہے۔ شایداس کی وجہ لوگوں
کے بہت سے سماجی مسائل ہیں۔پڑھنے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں
بہت زیادہ ہے۔آج سے پندرہ بیس سال پہلے ریاضی مردانہ مضمون جانا جاتا تھا۔
کل دو سو طلبا میں لڑکیاں پانچ چھ سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ آج لڑکوں کی
تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کیمسٹری میں دو سو طلبا میں لڑکیاں تیس
چالیس کے قریب ہوتی تھیں ، اب لڑکے تیس چالیس ہوتے ہیں۔رشتے تلاش کرتے ماں
باپ کو پڑھی لکھی بچی کے لئے پڑھے لکھے بچے نہیں ملتے ۔ مجبوری انہیں بچی
کو ڈھیل دینے پر اکساتی ہے ۔ یہ مسئلہ لوئر مڈل کلاس میں بہت سنگین صورت
اختیار کر چکا ہے۔لڑکیاں بہتر سے بہتر خاندان میں جگہ بنانے کے خواب دیکھتی
ہیں۔ مرد کی فطری کمزوریوں سے کھیلتی ہیں اور اگر ناکام ہو جائیں تو عورت
اور مرد کے حوالے سے الزامات کو اپنے ہتھیار کے طور بھی استعمال کرتی نظر
آتی ہیں۔ایسی بچیاں دو یا تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوتیں مگر اپنی سمیٹی
ہوئی کالک سے بہت سو ں کوخراب کرتی ہیں۔
ایسی عورتیں جو کسی انداز میں بھی کسی بڑے سیاسی لیڈر کے حوالے سے چاہے
بدنام قرار پائیں، میڈیا انہیں نامور بنا دیتا ہے اور ہماری مخالف سیاسی
جماعتیں اپنے اخلاقی ضابطے پس پشت ڈال کر ان کی حوصلہ افزائی کا شرمناک کام
کرتی ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ ایسے حادثات جو فقط عزت گنوانے کی اساس پر
ایک انجان لڑکی کو لیڈر بنا دیں ، اس کی کلاس بدل دیں ، اس کو گمنامی کے
اندھیروں سے باہر لا پھینکیں ۔ بہت سی لڑکیوں کو کیا ان کے خاندانوں کو بھی
قابل قبول ہوتے ہیں۔یہ بات بڑی شرمناک سہی مگر ایک حقیقت ہے جس سے انکار
ممکن نہیں۔اچھی لڑکیاں اور اچھی عورتیں ،جو آج بھی ایک بہت بڑی اکثریت ہیں
، اگر کبھی ایسی نوبت آئے تو خاموشی سے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے ایسا تاثر
دیتی ہیں کہ کسی کو دوبارہ جراٗت نہیں ہوتی۔ بعض ایسی فضول حرکات کرنے والے
حضرات کو باقاعدہ سبق بھی سکھا کربھیجتی ہیں ، وہ انتظار نہیں کرتیں یا تو
فوراً حساب چکا دیتی ہیں یا ایسی فضول بات کو نظر انداز کر جاتی ہیں کیونکہ
انتظار کا مقصد بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے بعض معمولی باتوں کو NGOs نے بھی اپنے مقاصد کے لئے خوب اچھالا
ہے۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر اس ملک کے صاف ستھرے کلچر کو داغدار کرنے کی
سعی NGOs کا ہمیشہ مقصد خاص رہا ہے۔عورتوں کی آزادی یقیناً بہت ضروری ہے
مگر مادر پدر آزادی نہیں۔Human Rights کے حوالے سے کام کرنے والے زیادہ تر
لوگ بھارتی مفادات کے امین ہیں۔ ان حالات میں میڈیا کے لوگوں کو بہت احتیاط
کی ضرورت ہے۔ جو کہنا ہے وہ ضرور کہا جائے مگر ایسا بے ہنگم شور کہ جس سے
ہمارا کلچر مسخ ہو اور ہمارے نظریہ پر کوئی حرف آئے اسے روکنے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں یورپ سے ایک کتا پاکستان آ گیا۔ یورپی کتا ہو اور ہمارے کتے اس کے
آگے پیچھے نہ ہوں کیسے ممکن ہے۔ کتوں نے اسے بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔
اس کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ استقبالئے دیئے گئے۔ اس کتے نے
یورپ کے حوالے سے ہر جگہ قانون کی عملداری اور انسانی حقوق کی باتیں کیں۔
یورپی ممالک کا خوبصورت نقشہ کھینچا، وہاں کے لوگوں کی خوشحالی کا ذکر کیا۔
جلسے میں بیٹھے ایک کتے نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی اتنا کچھ ہونے کے بارے سن
سن کر ہم یورپ جانے کی سوچ رہے ہیں مگر تم یہ کچھ حاصل ہونے کے باوجود
پاکستان کیوں آ گئے۔ جواب ملا، سب کچھ تھا مگر بھونکنے کی اس قدر آزادی نہ
تھی جتنی یہاں ہے۔ ہم انسان ہیں اور ہمیں خود کو بر تر ثابت کرنے کے لئے ا
ور ایسی آزادی کے ناجائز استعمال سے بچنے کے لئے بولنے سے پہلے تولنا
سیکھنا ہو گا۔ |