جشن آزادی: جب حقیقت یہ بن نہیں سکتے،میری آنکھوں سے خواب لے جاؤ

۷۱ واں جشن آزادی امسال اس طرح منایا گیا کہ ریزرو بنک نے حکومت کو ۷۴ ہزار کروڈ منافع دینے کے بجائے صرف ۳۰ ہزار کروڈ دیئے ہیں جو گزشتہ سال کے ۶۵ ہزار کروڈ کے نصف سے بھی کم ہے۔ آزادی کے۷۰ سال بعدیوم آزادی سے ۷ دن قبل بہار میں ۷۰۰ کروڈ کی بدعنوانی منظرِ عام پر آئی اور گورکھپور میں۷۰ سے زیادہ بچے آکسیجن کی رسد رک جانے سے جان بہ حق ہوگئے اس لیے کہ صوبائی حکومت نے ۷۰ لاکھ سے کم کی بقایہ رقم کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ اس کے باوجود پردھان منتری لال قلعہ سے بلند بانگ دعویٰ کرنے باز نہیں آئے۔انہوں نے کروڈوں ایسے لوگوں کو گیس سلنڈر تقسیم کر کے اپنی پیٹھ تھپتھپائی جو بیچارےاس کو دوبارہ نہ بھروا سکے لیکن ان کے نام پر ایسے کروڈوں گیس سلنڈر کا بھاو ۴ روپئے بڑھا دیا جو ہر ماہ بھرائے جاتے ہیں۔ یہ ہے سیاست کہ چندغریبوں کو دکھاوے کے لیے ایک بار دو اورپورے متوسط طبقے کے سے بار بار نوٹ کے ساتھ ساتھ ووٹ بھی لو۔ کامیاب سیاستداں اس کو کہتے ہیں ۔ اسی لیے بی جے مودی جی کو پردھان منتری سے ترقی دے کر پرچار منتری کے عہدے سے نواز دیا ہے۔ پرچار منتری کا عہدہ پردھان سے زیادہ پائیدار ہے اس لیے کہ انسان اس پر انتخاب ہارنے کے بعد بھی فائز رہ سکتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی ہرسال ۱۵ اگست کو لال قلعہ کی دیوار سے ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں۔ ؁۲۰۱۴ میں انہوں نے بیت الخلاء کی تعمیر کو ایسا قومی مسئلہ بنا کر پیش کیا کہ تین سال بعد ان کے چہیتے اکشے کمار نے ٹائیلیٹ ایک پریم کتھا کے نام سے فلم بناڈالی جو اس سال یوم آزادی کے موقع پر ریلیز ہوئی اور اکثرسرکاری پروجکٹس کی مانند طرح فلاپ ہوگئی۔ اس کے بعد ؁۲۰۱۵ میں انہوں نے ’میک ان انڈیا ‘ کا اعلان کیا جو اب فیک ان انڈیا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ؁۲۰۱۶ کے آنے پروزیراعظم نے بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر اظہار خیال کیا اور اونٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کہی ایک سال بعد عقل ٹھکانے آگئی اور اب کہہ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ نہ گولی سے حل ہوگا اورنہ گالی سے۔ یہ بات اگر ایک سال قبل سمجھ میں آجاتی تو بے شمار بے قصور عوام اور فوجی اپنی جان نہ گنواتے۔ کشمیر کے اندر حکومت کے کنفیوژن کا یہ حال ہے کہ فوجی سربراہ انسانی ڈھال کی تعریف و توجیہ فرماتے ہیں اور صوبائی انسانی حقوق کا کمیشن اس کی مذمت کرکے خودبی جےپی کی ریاستی حکومت کو ۱۰ لاکھ ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔
بلوچستان اور بیت الخلاء تو خی
ر وزیراعظم کی سیاسی بازیگری تھا لیکن ’میک ان انڈیا‘ کا تعلق عوامی فلاح و بہبود سے ہے اس لیے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔جس وقت یہ اعلان کیا گیاملک میں صنعتی پیداوار کی مجموعی قدروقیمت کا اضافہ( جی وی اے برائےصنعت) بام عروج پر تھا ۔ وہ ؁۲۰۱۵ کی پہلی چوتھائی میں ۲ء۸ سے دوسری چوتھائی میں ۳ء۹ پر پہنچا اور اس میں اچانک اچھال آیا اور وہ ۲ء۱۳ پر پہنچ گیا۔ مودی جی نے سوچا ہوگا کہ اب یہ سفر بلندی کی جانب گامزن رہے گا اور اس کا سہرہ ان کے سر بندھ جائیگا اس لیے موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے میک ان انڈیا کا نعرہ لگا دیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔؁۲۰۱۵ کی آخری چوتھائی میں جی وی اے کے اندر معمولی کمی نظر آئی اور یہ شرح گھٹ کر ۷ء۱۲ پر آگئی ۔ ؁؁۲۰۱۶ کی پہلی چوتھائی میں مزید گراوٹ آئی اور بات ۷ء۱۰ تک پہنچ گئی۔ جیٹلی جی نے ؁۲۰۱۶ کا بجٹ پیش کیاتو اس سے توقع تھی کہ حالت سدھرے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا دوسری چوتھائی میں جی وی اے کی شرح ۷ء۷ پر آگئی۔ اب پھر زور لگایا گیا تو معمولی اضافہ کے ساتھ یہ ۲ء۸ پر پہنچی جہاں ڈیڑھ سال پہلے تھی ۔

یہ اس حکومت کے لیے مشکل صورتحال تھی جو سالانہ دو کروڈ نئے روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرکے عالم ِوجود میں آئی تھی اس لیے کہ صنعتوں کی پیداوار نہ بڑھے تو روزگارکے مواقع کیسے پیدا ہوں ؟ ایسے میں مودی جی نے نوٹ بندی کا احمقانہ فیصلہ کردیا جس نے صنعتوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور جی وی اے کی شرح گھٹ کر ۳ء۵ پر پہنچ گئی ۔ اس کا موازنہ اگر ؁۲۰۱۵ کے دوسرے چوتھائی سے کیا جائے تو یہ ڈ ھائی گنا کمی تھی ۔نوٹ بندی کے مصیبت میں جو کسر رہ گئی تھی اس کو جی ایس ٹی نے پورا کردیا اور صنعتی پیداوار ؁۲۰۰۹ کی سب سے نچلی سطح سے بھی نیچے چلی گئی ۔ اس طرح گویا میک ان انڈیا کا سپنا ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ گراوٹ کیوں آئی ؟ ساری دنیا میں گھوم گھوم کر سرمایہ کاروں کو یہاں صنعت قائم کرنے پر آمادہ کرنے والے مودی جی اس قدر بری طرح کیوں ناکام رہے؟ اس پیچیدہ سوال کا ایک آسان ترین جواب تو یہ ہے کہ ہندوستان کے بھولے بھالے لوگوں کو احمق بنانا جس قدر آسان ہے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والوں کو رجھانا اتنا سہل نہیں ہے؟
اس سال جدیدبیرونی سرمایہ کاری صرف ۰۷ء۲ لاکھ کروڈ ہوئی جو پچھلے سال کی ۹ء۲ لاکھ کروڈ سے۳۰ فیصد کم ہے۔ سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری منموہن سنگھ کے آخری سال ؁۲۰۱۴ میں ہوئی جو ۷ء۵ لاکھ کروڈ تھی۔ نجی اداروں آنے والی سرمایہ کاری کے اندر سب سے زیادہ اضافہ ؁۲۰۱۲ میں ہوا تھا۔ اس سال ہونے والا اضافہ اس کا ایک تہائی ہے اور پچھلے دس سالوں میں سب سے کم رفتار میں ہونے والی بڑھوتری ہے۔ ماہرین معاشیات نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ عوامی بنکوں نےخطرات سے دوچار صنعتوں میں سرمایہ کاری روک دی ہے ۔ موجودہ حکومت چونکہ بڑے سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہے اس لیے وہ بنکوں سے قرض لیتے ہیں اور دیوالیہ ہوجاتے ہیں ۔ سرکاری بنکوں پر ۵۰ بڑے سرمایہ داروں کا واپس نہ ہونے والا قرض ۸۵ ہزار کروڈ ہے اور یہ امیر کبیر لوگوں کا کارنامہ ہے اس لیے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور بنک والے محتاط ہوگئے۔

بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل دیگر رکاوٹیں بھی اس سنگین صورتحال کے لیے ذمہ دار ہیں۔ مودی جی کے بلند بانگ دعوں کےباوجود ہندوستان کا شمارکاروبار کے لحاظ سے دنیا کے مشکل ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی بنک کے مطابق دنیا بھر کے ۱۹۰ ممالک میں ہندوستان ۱۳۰ ویں مقام پر ہے۔ یہ پچھلے سال کے مقابلے ایک درجہ اوپر آیا ہے اگر یہی رفتار رہی تو پہلے نمبر پر آنے کے لیے ۱۳۰ سال کی مدت لگے گی اس وقت تک دنیا نہ جانے کہاں سے کہاں نکل چکی ہوگی؟ نئے کاروبار کی ابتداء کے معاملے میں حال اور بھی خراب ہے یعنی ہم لوگ ۴ درجات کی گراوٹ سے ۱۵۵ ویں مقام پر ہیں ۔ نئی تعمیر کےاجازت نامہ کی بابت ہندوستان ۱۸۴سے گرکر ۱۸۵ پر آگیا اور اب صرف۵ ممالک کی حالت ہم سے خراب ہے ۔ ایسے میں کون یہاں آکر صنعت لگانے کی حماقت کرے گا؟ میک ان انڈیا کے ٹھوس اقدام کے بجائے تقاریر سے شرمندۂ کرنے کوشش ثمر آور نہیں ہوسکتی۔

مرکزی سرکار کے شائع کردہ تازہ اعدادوشمار کے مطابق مئی میں صنعتی ترقی کی شرح ۷ء۱ فیصدتھی جو پچھلے سال مئی کے ۸ء۲ کے مقابلے ۱ء۱ فیصد کم ہے۔ کیپٹل گوڈس کی پیداوار اس سال اپریل میں نفی ۹ء۲ فیصد پر تھی جو مزید ایک فیصد گھٹ نفی ۹ء۳ پر پہنچ گئی ہے۔ مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) پچھلے پانچ سہ ماہی یعنی جنوری تا مارچ ؁۲۰۱۶ سے لے کر جنوری تا مارچ ؁۲۰۱۷ تک مسلسل روبہ زوال ہے اور اپریل تا جون ؁۲۰۱۷ کے دوران مسلسل چھٹی گراوٹ ویکھی گئی ہے۔ ملک کے اندر بننے والی مصنوعات کا معیار بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے ایک عملی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج فی الحال انساس رائفل استعمال کرتی ہے جو کافی پرانی ہوچکی ہے۔ ہماری فوج کو ایک لاکھ ۸۵ ہزار نئی بندوقیں درکار ہیں جن میں سے ۶۵ ہزار کی فوراً ضرورت ہے لیکن نام نہاد دیش بھکت حکومت اس کو نظر انداز کرکے فضول مسائل میں اپنے آپ کو الجھارکھاہے۔ بندوق کی فراہمی کے لیے سرکاری فیکٹری سے رجوع کیا گیا تھالیکن اس کی پیشکش کو فوج نے غیر معیاری قرار دے کر ٹھکرا دیا۔ سرکاری اسلحہ فیکٹر ی کی یہ دوسری کوشش تھی جو ناکام ہوگئی۔ پچھلے سال بھی اس کا یہی حشر ہوا تھا ۔ اس بیچ ایک سال کا قیمتی وقفہ ضائع ہوگیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اب حکومت بیرونی ممالک سے رائفلیں درآمد کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے اور ۲۰ عالمی کمپنیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو صنعت خود اپنی فوج کے لیے معیاری بندوق بنانے ناکام ہوگئی وہ وزیراعظم کے دعویٰ کے مطابق دیگر ممالک گاہکوں کو کیسے مطئن کرسکے گی ؟

مصنوعات کے معیار کو بلند کرنے کے لیے صرف نعرےبازی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے تحقیق پر محنت و سرمایہ لگانا پڑتا ہے جس کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا۔عالمی مسابقین پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے ۔ اس شعبے میں ہندوستان کاچین سےموازنہقابلِ غور ہے۔ ہمارے ملک میں تحقیق پر جملہ ۱۹۰۰ کروڈ ڈالر خرچ ہوتے ہیں ۔ یہ سرمایہ کل پیداوارکا ۸ء۰ فیصد ہے ۔ اس کے برعکس چین میں یہ خرچ ۲۲۵۰۰ کروڈ ڈالر ہے جو وہاں کی کل پیداوار کا ۲ فیصد ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں چین اس مد میں ہندوستان ۱۱ گنا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ظاہر ہےیہ خطیر رقم مصنوعات کے معیار میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اوراسی لیے دنیا بھر کے سرمایہ دار چین کا رخ کرتے ہیں ۔ خوش قسمتی سے چین میں میک ان چائنا کے نام پر بیوقوف بنانے والی صنعت نہیں ہے۔ہمارامیک ان انڈیا کا شیر سرکس کا پالتو جانور ہے ۔ اس کا کام رائے دہندگان کی تفریح کرکے ان کی جیب خالی کرنا ہے ۔وہ صرف دہاڑنے اورا چھل کود کے کام آتا ہے اس لیے کہ اس کےنہ دانت ہیں اور نہ ناخون بس ایک زبان ہے جو بے تکان من کی بات سناتی رہتی ہے۔
مودی سرکار پر چدمبرم جیسے ماہرین معاشیات کی تنقید کو سیاست کے خانے میں ڈال کر مسترد کردیا جاتا ہے لیکن سنگھ پریوار کے پروردہ بھارتیہ مزدور سنگھ کے احتجاج کو بہ آسانی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔بی ایم ایس کے سابق قومی سکریٹری کے سی مشرا نے کانپور میں مزدور سنگھ کے قومی اجلاس کے موقعہ پر برملاالزام لگایا کہ جب سے یہ سرکار قائم ہوئی ہے اس نے سماج کے غریب طبقات اور محنت کشوں کی خاطر کچھ نہیں کیا۔ کم سے کم اجرت کا قانون سارے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا جو صرف مرکزی حکومت تک محدود ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری صنعتوں تک میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ بونس کے قانون میں مزدور چاہتے تھے ۲۱۰۰۰ہزار کی حد مقر ر کی جائے لیکن سرکار ۳۷۰۰ کی تحدید کرکے سب کو مایوس کردیا۔

مشرا جی نے سب سے زیادہ غم و غصے کا اظہارمودی حکومت کے قائم کردہ نیتی آیوگ پر کیا ۔ ان کے مطابق عدالت عالیہ نےیکساں کام کے لیے یکساں اجرت کیتاکید کی ہے کہ لیکن نیتی آیوگ اس میں ترمیم کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے بار بار یہ الزام دوہرایا کہ پلاننگ کمیشن کو ختم کرکے بنایا جانے والا نیتی آیوگ صرف دولتمندوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ وہ سرمایہ داروں کی حمایت اور غرباء و مساکین کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا مقصد وجود ہی سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اب تو نیتی آیوگ سےمودی جی نورنظر اروند پنگھڑیا بھی فرار ہوچکے ہیں ۔ مشرا جی کا کہنا ہے کہ یہ حکومت نئی ملازمتیں فراہم کرنا تو درکنار بیروزگار ہونے والے لوگوں کو سہارا دینے تک میں بھی ناکام ہے۔۵ کروڈ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور اس میں بتدریج اضافہ جاری ہے۔نوٹ بندی نے تعمیراتی صنعت کی کمر توڑ دی ہے اور اس میدان میں کام کرنے والا ملازم دانے دانے کا محتاج ہوگیا۔ اسی کے ساتھ کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کا بھی برا حال ہے کسان آئے دن خودکشی کرتا ہے حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔جی ایس ٹی کا قہر اناج کے تھوک بازار میں ۴۰ فیصد گراوٹ کا سبب بنا۔کسی اور کے نہیں تو کم ازکم اپنے سنگھ پریوار کی جانب تو حکومت کو توجہ دینی چاہیے ۔

انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی رہنمائی میں ؁۲۰۲۲ تک دس کروڈ نئے صنعتی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اس شعبے میں نیا روزگار تقریباً نہیں کے برابر پیدا ہوا ۔منموہن سنگھ کے آخری ایام میں ہر سال ۴ لاکھ نئی ملازمتیں نکلتی تھیں۔ اس طرح ؁۲۰۱۱ سے ؁۲۰۱۴ کے درمیان اوسطاً ہر سال ۵ لاکھ ۷۹ ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے حالانکہ وہ بھی بہت کم اضافہ تھا ۔ مودی جی آمد کے بعد اس معاملے ترقی کے بجائے تنزل ہوا ہے ۔ ؁۲۰۱۵ کے جو اعداوشمار شائع ہوئے ہیں ان کے مطابق قومی معیشت میں صرف ایک لاکھ ملازمتوں کا اضافہ ہوا ہے جو ۲۰ فیصد سے بھی کم ہے۔حکومت کے اپنے بیروزگاری لیبر سروے کے مطابق غیر منظم شعبے میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد ۲ کروڈ سے ۵ کروڈ ہے۔

جی ایس ٹی کے سبب تاجروں کے مسائل و مشکلات کی تازہ مثال گجرات کےکپڑاتاجرین کی ہڑتال تھی۔ سورت میں مظاہرین پر پولیس لاٹھی چارج ہوا اوراحمد آباد کا مسکاتی مارکٹ سنسان ہوگیا ۔احمدآبادریتیش شاہ نے الزام حکومت ہمیں دبانے کیلئے طاقت کا بیجا استعمال کررہی ہے۔ اس ہڑتال سے حمل و نقل کا کاروبار کرنے والے ، مارکٹ کے آس پاس خوانچہ لگانے والے، چائے والے اور پاور لوم میں کام کرنے والے۸ لاکھ مزدوروں بے کار ہوکر گاوں لوٹ گئے۔ کڑھائی کا۷۰ فیصدکام ٹھپ ہوگیا ہے اور واپس جانے والے مزدوروں کی تعداد ۸۰فیصد تک جاپہنچی ہے۔ بیوپاری اپنی مشینیں بیچنے پر مجبور ہوگئے ۔نہ نیا مال بکا اور نہ پرانا ادھار وصول ہوااس لیے مزدوروں کو تنخواہ دینے میں مشکل پیش آئی۔دس ون کے اندر ۴۳۰۰ہزار کروڈ کا نقصان ہوا لیکن وزیراعظم غیر ملکی دوروں پررہے نیز امیت شاہارکان اسمبلی کی خریدو فروخت سے فرصت نہیں ملی ۔

ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش کی کامیابی نے بی جے پی کا دماغ خراب کردیا ہے ۔ اس نے پہلے گجرات کے اندر پٹیلوں کو ناراض کیا ۔ اس کے بعد دلتوں کے ساتھ مارپیٹ کی اور اب تاجروں سے بھی عداوت مول لے لی۔ مودی جی کو اگر ایسا لگتا ہے کہ ان کی کامیابی کے لیے گائے کافی ہے تو بہت جلد ان کی یہ خوش فہمی دور ہوجائیگی اور ان کو دوبارہ کسی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنی چائے کی دوکان کھولنی پڑے گی ۔ ویسے مودی جی کے دست راست امیت شاہ ہر چونکہ ہر وعدے کو انتخابی جملہ بازی کہہ کر اڑا دیتے ہیں اس لیے وہ جو من میں آئے بولتے چلے جاتے ہیں مثلاً ۶ لاکھ گاوں میں انٹر نیٹ ، ۱۰۰ اسمارٹ (جدیدطرزکے) شہر، دس کروڈ بیت الخلا اور گنگا کی صفائی وغیرہ وغیرہ لیکن کچھ ہوتا جاتا نہیں ۔ مودی جی نے دعویٰ تھا ہندوستان کا شمار تجارت کی سہولت کے اعتبار سے دنیا کے ۵۰ بہترین ممالک میں ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ۱۳۰ویں مقام پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت مودی جی امریکہ کے دورے پر پہنچے معیشت کےمعروف عالمی جریدے اکانامسٹ نے مودی کو کاغذی چیتے پر سوار کردیا اور کہا کہ ان کے اندر معیشت کو تجدید کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ بہتر ہوتا کہ وہ مودی جی کو چیتے کے بجائے کاغذی بیل پر سوال کردیاجاتا۔

مودی جی نے لال قلعہ سےپہلی بار گئورکشکوں کو بلاواسطہ دھمکی دی کہ آستھا کے نام پر تشدد برداشت نہیں کیا جائیگا لیکن جب مودی گئورکشکوں کو نقلی گئوسیوک کہتے ہیں توجواب میں وہ مودی کو جعلی دیش بھکت کہہ کر ان کے پروچن پر کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔مودی جی نے سب کو ساتھ لے کر چلنا اپنی تہذیب و ثقافت قراردیا مگر تریپورہ کے وزیراعلیٰ مانک سرکارکو ساتھ نہیں لیااوردوردرشن و آل انڈیا ریڈیو پر ان کا گلا گھونٹ دیا ۔اس طرح غلام نبی آزاد یہ کہنے پر مجبور کردیاکہ حکومت ایمرجنسی کا اعلان کیوں نہیں کردیتی تاکہ عوام کسی دھوکے میں نہ رہیں۔ ویسے مانک سرکار کو مرکزی حکومت نے ہیرو بنادیا اس لیے کہ یوم ٓزادی کے موقع پر دیگر وزرائے اعلیٰ نے کیا کہا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن مانک نے جو کچھ کہا اس سے سب واقف ہیں ۔اس طرح تریپورہ جیسی ننھی سی ریاست کے وزیر اعلیٰ نے یوپی جیسی بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ سے زیادہ شہرت حاصل کرلی۔ وزیر اعظم نے یوم آزادی کے موقع پر بھارت چھوڑو کے بجائے بھارت جوڑو کا نعرہ دیا لیکن جہاں سابق نائب صدر تک کو بھارت چھوڑنے کا مشورہ دیا جاتا ہے وہاں بھارت کو جوڑے گا کون؟ لال قلعہ سے یوم آزادی کی تقریر سننے کے بعد جب عام آدمی اپنے گردوپیش کےحالات کاجائزہ لیتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے؎
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پرتجھ سے قبل اتنی پریشان بھی نہ تھی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450030 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.