امریکا:انسانیت کامجرم

لہوکی تجارت پہ کس کی معیشت؟

عراق ایک بارپھرشہ سرخیوں میں ہے۔ مغربی میڈیا میں عراق کی صورت حال کوبھرپورطورپرکورکیاجارہاہے مگرکوئی بھی مغربی میڈیا آؤٹ لیٹ یہ نہیں بتائے گاکہ امریکاعراقی تنازع کے دونوں فریقوں کی بھرپورمددکررہاہے۔ ایک طرف سے واشنگٹن سے عراقی حکومت کومدد مل رہی ہے اور دوسری طرف اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کوفنڈنگ بھی کی جارہی ہے اورعسکریت پسندوں کو تربیت بھی دی جارہی ہے۔امریکی حکومت اگرچہ دہشت گردوں کی مدد کررہی ہے مگرمغربی میڈیاآپ کویہی بتائے گا کہ اوباماانتظامیہ کوعراق میں دہشتگردی پرتشویش ہے۔

امریکی اوریورپی میڈیامیں یہ بات زیادہ زوردے کربیان کی جاتی ہے کہ عراق میں جوبھی خرابی ہے وہ امریکی انخلاسے ہے۔ یعنی جب تک امریکی افواج عراق میں تعینات تھیں تب تک وہاں کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی تھی اوردہشتگرد بھی قابومیں تھے اوراب گویادہشتگرداور عسکریت پسند کچھ بھی کرگزرنے کے لیے آزاد ہیں۔ امریکانے عراق پرجولشکرکشی کی اوروہاں مختلف گروپوں کی مددسے جوقبضہ کیااس کاموجودہ صورت حال سے موازنہ کرناعجیب ہے۔ امریکا نے خصوصی دستے تیار کیے جنہوں نے امریکی افواج کو مدد دی۔ اب یہی دستے ملک کے حالات مزید خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

مین اسٹریم میڈیااب بھی حقائق چھپارہاہے۔حقیقت کوآپ تک پہنچنے نہیں دیاجارہا ۔ تاثریہ دیاجارہا ہے کہ عراق میں خانہ جنگی ہورہی ہے۔میڈیاکے ذریعے صرف وہی تاثرپیداکیااورابھاراجاتاہے جوبڑی طاقتوں کے مفادات کوتقویت بہم پہنچاتا ہے۔عراق میں جوکچھ اب کھل کرسامنے آرہاہے وہ دراصل’’تعمیری انتشار‘‘ہے جوپورے خطے کواپنی لپیٹ میں لیتاجارہاہے۔امریکا،یورپ اوراسرائیل نے بہت پہلے منصوبہ بنالیا تھا کہ عراق میں شدیدانتشارپھیلاکراُس کے ٹکڑے کردیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ لبنان،فلسطین،عراق،شام،خلیج فارس،ایران اورافغانستان تک شدیدانتشارپھیلانے کاہے۔مقصودصرف یہ ہے کہ یہ تمام ریاستیں شدید کمزور پڑیں اوراِن کے حصے بخرے ہوجائیں۔زیادہ سے زیادہ انتشارپیداکرکے امریکا، کرکے امریکا،یورپ اوراسرائیل اِس پورے خطے میں اپنی مرضی کے حالات چاہتے ہیں اورسرحدوں کانئے سِرے سے تعین بھی اپنی مرضی کے مطابق کرناچاہتے ہیں۔

امریکا،یورپ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ پوری عرب دنیا اورایشائے کوچک سے ہوتے ہوئے افغانستان اورایران تک نقشے نئے سِرے سے ترتیب دیے جائیں ۔ مقصودیہ ہے کہ معاشی،سفارتی اوراسٹریٹجک اہداف حاصل کیے جائیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے منصوبے کے تحت ہورہاہے جوانتہائی دانش مندی اور باریک بینی سے تیارکیاگیا ہے تاکہ کہیں کوئی جھول باقی نہ رہے۔امریکا،اسرائیل اور یورپ(بالخصوص برطانیہ) کے ایجنڈے کی تکمیل میں علاقائی حکومتیں بھی معاونت کررہی ہیں۔ خطے کے بیشترممالک کوکمزورکیاجارہاہے تاکہ اُن کی شکست وریخت آسان ہوجائے۔

کسی بھی ملک کوتقسیم کرنے میں خانہ جنگی مرکزی کرداراداکرتی ہے۔ بلقان کے خطے میں اس کاتجربہ بڑی طاقتوں کوکامیابی سے ہمکنارکرگیا۔ سابق یوگو سلاویہ میں نسلی،ثقافتی اورمذہبی تنوع موجودتھا۔اس کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے نفرتوں کوہوادی گئی۔ اس کے نتیجے میں سابق یوگوسلاویہ کوسربیا، بوسنیا ہرزیگووینا،کروشیا اورمونٹی نیگرومیں تقسیم کرنے میں آسانی ہوئی۔ اب عراق کوبھی اُنہی خطوط پرتقسیم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔شیعہ،سنی اورکرد ریاست کاقیام معرض وجود میں لایا جاسکتا ہے۔ مسلح گروپ کھڑے کردیے گئے ہیں۔ ان کوامریکا،برطانیہ اوراسرائیل ہی کی طرف سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔ شام ہویاعراق،ہرجگہ مسلح گروپ میدان میں آچکے ہیں جوکسی بھی حالت میں اپنے مقاصد کوترک کرنے کیلئے تیارنہیں۔ شام میں آمریت اور عراق میں منتخب حکومت کے خلاف لڑائی جاری ہے۔

القاعدہ سے جڑے ہوئے گروپوں کوامریکی محکمہ دفاع اورخفیہ ادارے سی آئی اے نے خفیہ اثاثوں کے طورپراستعمال کیاہے۔ شام میں النصرۃ اورآئی ایس آئی ایس مغربی طاقتوں کے پروردہ گروپ ہیں جنہیں فنڈز دینے ہی پراکتفا نہیں کیا گیابلکہ حکومت کے خلاف لڑنے کی باضابطہ تربیت بھی دی گئی ہے۔ واشنگٹن نے عراق اورشام میں عمدگی سے لڑنے والے ایسے گروپ کوتیارکیاہے جوبہتر لاجسٹک سیٹ اپ بھی رکھتاہو تاکہ ضرورت کے مطابق نقل و حرکت ممکن ہو۔ عراق اورشام میں سرگرم سُنّی گروپ امریکی ایجنڈے کے مطابق کام کررہے ہیں ۔ دونوں ممالک کوتین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ ایک سُنی ریاست معرض وجود میں لائی جائے، ایک عرب شیعہ جمہوریہ بنائی جائے اورآزاد کردستان کی راہ ہموارکی جائے۔

بغدادمیں امریکی حمایت یافتہ حکومت امریکی اداروں سے جدید ترین اسلحہ خرید رہی ہے۔ ایف سولہ طیارے بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی اسٹیٹ آف عراق اورالشام کوبھی مغربی خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ انہیں فنڈز کے ساتھ ساتھ جدید ترین اسلحہ بھی فراہم کیاجارہاہے۔ منظر نامہ یہ ہے کہ عراق اورشام میں تمام حکومت مخالف گروپوں کوبھرپورتیارکرکے میدان میں لایاجائے تاکہ فوج سے ان کاتصادم ہواوریوں مغربی قوتوں کو ایجنڈے کے مطابق اہداف حاصل کرنے میں بھرپورمدد ملے۔

میڈیا کے ذریعے عوام کویہ باورکرایاجارہاہے کہ عراق اورشام میں جوکچھ ہو رہاہے وہ شیعہ سنی اختلافات کاشاخسانہ ہے۔ شیعہ سنی اختلافات کی پشت پر امریکی،برطانوی اوراسرائیلی ایجنڈاہے یعنی یہ کہ خطے کے چندبڑے ممالک کومسلک،نسل اورزبان کی بنیادپرتقسیم کردیاجائے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سعودی عرب اورخطے میں دیگرحلیفوں سے مددبھی لی جارہی ہے۔مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اپنے اورمغرب کے مفادات کوتحفظ فراہم کررہا ہے۔ اب تک تویہی سامنے آیاہے کہ مختلف ممالک میں نسلی،مسلکی اورلسانی بنیادپر تفاوت اوراختلاف کوبڑھاوادیاجائے تاکہ اندرونی لڑائی کادائرہ وسیع ہو۔سعودی حکومت اپنے اقتدارکوہرحال میں بچاناچاہتی ہے۔اسے ڈرہے کہ عراق میں حقیقی جمہوری حکومت کاقیام اُس کے اقتدارکیلئے سنگین ترین خطرہ بن کراُبھرے گا۔

۲۰۰۳ء میں صدام حسین کے اقتدارختم ہونے کے بعدسعودی عرب کی حکومت عراق کے معاملے میں خاصی جارحانہ رہی ہے۔ سعودی عرب نے وزیر اعظم نوری المالکی پرالزام عائدکیاہے کہ اُس نے ایران کوعراقی معاملات میں عمل دخل بڑھانے کی بھرپورآزادی دی ہے۔عراق میں ایرانی اثرونفوذگھٹانے کی پالیسی کوسعودی عرب نے خُفیہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ سعودی عرب نے عراق سے امریکی افواج کے انخلا کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ اُس کاموقف تھاکہ ایسا کیے جانے کی صورت میں عراق میں ایرانی اثر و نفوذ بڑھ جائے گا۔ دسمبر ۲۰۱۱ء میں سعودی عرب نے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے شام میں حکومت کی تبدیلی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت سعودی عرب کے رقیب ایران کی اتحادی ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ شام میں حکومت کاتختہ الٹ دیاجائے۔اس مقصدکاحصول یقینی بنانے کیلئے سعودی حکومت نے شام میں القاعدہ اوراس سے جُڑے ہوئے عسکریت پسندگروپوں کی بھرپورمعاونت کی ہے۔ سعودی عرب نے عراق میں برسرپیکارسُنی گروپوں کی بھی جس میں القاعدہ اوراس سے جُڑے ہوئے عسکریت پسند گروپوں کی بھرپورمعاونت کی ہے۔ سعودی عرب نے عراق میں برسرپیکارسُنی گروپوں کی بھی مددکی ہے اوراُنہیں یہ باورکرانے کی بھرپورکوشش کی ہے کہ اُن کا اصل میدانِ جنگ عراق نہیں، شام ہے۔

اِس پورے معمے کاسب سے اہم جُزواشنگٹن کی طرف سے دہشت گردوں کو بھرپورتعاون فراہم کرناہے۔پال بریمرنے ۲۰۰۳ء اور۲۰۰۴ء کےدوران عراق میں سِوِل گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اُنہوں نے اِس میعاد کی بنیاد پر" مائی ڈیئر ایئر اِن عراق"کے عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے جو بہت مختلف ہے۔ پال بریمر نے جب عراق انٹیلی جنس اور پولیس کو ختم کیا تو امریکی قبضے کی بھرپور حمایت کرنے والے گروپوں کی فنڈنگ شروع کی۔ ان گروپوں نے عراق کے طول و عرض میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ اِن مظالم ہی کے باعث۲۰۰۶ء اور۲۰۰۷ءمیں عراق کے طول وعرض میں قتل وغارت کاسلسلہ چلاتھا۔

پال بریمرکی گورنری کے عہد میں قابض افواج (جنیوا کنونشن کے طے کردہ اُصولوں کے تحت) مقبوضہ علاقوں کے عوام کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہیں اوردوسری طرف اِس قبضے کومضبوط کرنے کیلئےدہشت گردوں اورجرائم پیشہ افرادکے گروپوں کومنظم کیا گیا۔وزارت داخلہ اوراسپیشل کمانڈوفورسزکے ذریعے عراق میں ہزاروں بے قصورسویلینزکوموت کے گھاٹ اتاراگیا۔

پال بریمرکے بعدعراق میں امریکی سفیرجان نیگروپونٹے نے قتل وغارت کا بازارگرم رکھا۔ اُنہوں نے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں وسطی امریکامیں بھی ایسا ہی کیاتھا۔ پال بریمر نے جوکام ادھوراچھوڑاتھا،اسے جان نیگروپونٹے نے مکمل کیا۔ جان نیگرو پونٹے نے قاتل دستوں کوبھرپورامداد فراہم کی۔ ان دستوں نے ملک بھر میں لاکھوں سویلینزکے قتل کی راہ ہموارکی۔عراق کابنیادی ڈھانچاتباہ ہوگیا۔ معیشت برائے نام بھی نہ رہی۔ تیل کی پیداواراوربرآمد میں ایسارخنہ پڑاکہ ملک تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا۔نیگرو پونٹے نے۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۵ء تک وسطی امریکا کے ملک ہونڈراس میں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ وہاں اُنہوں نے تربیت یافتہ قاتلوں کے دستے تیارکیے تھے۔عراق میں بھی اُنہوں نے ایساہی کیا۔ کردوں اورشیعوں پرمشتمل ایسے دستے تیارکیے گئے جوعراق پر امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے سُنّی رہنماؤں کوقتل کرنے پر مامورتھے۔السلواڈورآپشن کے تحت امریکی اورعراقی افواج مزاحمت کرنے والے رہنماؤں کوقتل کرنے کیلئے شام کی حدودمیں داخل ہونے سے بھی گریز نہیں کریں گی۔

شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کے پاس امریکی ہتھیارہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیزبات نہیں۔ایسانہیں ہے کہ امریکیوں کواس کاعلم یااندازہ نہ تھا۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوگاکہ ایساہوسکتاہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنہیں پروان چڑھایاگیاہوتاہے وہی مفادات کے خلاف جاناشروع کردیتے ہیں۔امریکی پالیسی میکرزکواندازہ تھاکہ ان کے دیے ہوئے ہتھیارکسی حدتک اُنہی کے خلاف استعمال ہوں گے مگرخیر،امریکاکوطویل المیعادبنیادپراپنے مفادات کی زیادہ فکر لاحق تھی۔

بہت سے لوگوں کوایسالگتاہے جیسے امریکی پالیسی میکرزبے وقوف ہیں یایہ کہ امریکی پالیسی ناکام ہوچکی ہے،ایسا نہیں ہے۔ دراصل امریکی پالیسی میکرزیہی چاہتے تھے کہ آپ یہ سمجھیں کہ مشرق وسطیٰ میں ان کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے یاوہ بے وقوف ہیں۔امریکا نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے جوپالیسی اپنائی ہے وہ غیرجمہوری،مجرمانہ اورسفاک ہے یعنی پہلے تومعاملات کوخوب خراب کیجیے اورقتل وغیرت کا بازار گرم ہونے دیجیے اورآخر میں ایک قدم آگے بڑھ کرخودہی قانون کی بالادستی کی بات کیجیے تاکہ معاملات کودرست کرنے کی راہ کسی حدتک ہموار ہولیکن حقیقت یہ ہے کہ اب دنیا کے مشہور سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بارہامطالبہ کیاجارہاہے کہ جن لوگوں نے عراق پرجنگ مسلط کی اُن کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے کیونکہ اُنہوں نے انسانیت کے خلاف جرم کاارتکاب کیا۔اُنہیں کسی بھی حالت میں معافی نہیں ملنی چاہیے۔ یاد رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم اورجنگ میں امریکاکے سب سے بڑے اتحادی ٹونی بلئیرعالمی میڈیاکے سامنے عراق جنگ کے سلسلے میں اپنی غلطی کااعتراف کرکے معافی کی درخواست کرچکے ہیں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.