صحافت ایک نظر میں

صحافت وہ ہے جس کے قلم کی قرآن نے ‘ن وَالقَلَمِ وَمَایَسطْرْون’ کہ کر قسم کھائی ہے اور اس سے دوسروں کو تعلیم دینے کے لئے کہا ہے۔ صحافت پیغمبری پیشہ تو نہیں لیکن اْس کا ایک رْخ ضرور ہے اور اسے اپنانے والوں کے لئے پیغمبری صفات سے متصف ہونا ضروری نہ ہو تب بھی اس میں بنیادی بات اپنی ذات اور مفادات کی نفی ہے۔صحافت کی لغوی اصطلاحی تعریفات میں اُلجھنے کے بجائے مختصر کہ صحافت کا عروج آج کے دور میں جتنا ہے ماضی میں کبھی نہیں رہا، صحافت کے بڑھتے ہوئے عروج کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ خواہش کرتے ہیں کہ ہم صحافی بنیں اور بن بھی جاتے ہیں کیونکہ صحافی بننے کا میرٹ بدل گیا ہے مگر صحافت کے اصولوں سے نا آشنا ہوتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم صحافی ہیں۔ جس طرح آج کل زیادہ تر سکولوں میں تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہے ٹھیک اْسی طرح اکثر صحافیوں میں صحافت کے علاوہ سب پایا جاتا ہے۔ایسے صحافی کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔جہاں صحافت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے وہاں اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں اور بجائے اِس کے کہ صحافت میں دوسرے سے آگے نکلیں ، دوسروں کو نیچا دکھانے میں اپنی تمام تر انرجی استعمال کرتے رہتے ہیں۔
صحافت معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ صحافت نام ہے اطلاعات تک رسائی اور اطلاعات کو لوگوں تک پہنچانے کا اور اْن کے دل کی بات کو زبان پر لانے کا، صحافت نام ہے تبصرے کا تجزیے کا نہیں، صحافت نہ تعریف کرنے کا نام ہے اور نہ کسی کو گالیاں دینے کا، نہ چمچہ گیری کرنے کا اور نہ بدتمیزی کا۔ صحافت نام ہے محنت اور مطالعے کا نہ کہ کام چوری اور جہا لت کا۔ صحافت نام ہے سچ کو تسلیم کرنے کا نہ کہ اَنا پرستی ، ضد یا اپنی بات پر اَڑے رہنے کا۔صحافت نہ کسی کے تعلقات کی بناء پر کسی کی تعریفیں کرنے کا ہے نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا۔صحافت نام ہے کسر نفسی کا، تکبر اور غرور کا نہیں۔صحافت نام ہے صحافت کا سیاست کا نہیں، صحافت نام قربانی دینے کا ہے لینے کا نہیں۔ صحافت نام ہے بحث کا ہٹ دھرمی کا نہیں۔صحافت نام ہے دلیل دینے کا فیصلہ کرنے کا نہیں۔صحافی کا کام ہے خبر کو نچوڑنا یا احکام کو جنجھوڑنا نہ کہ ہدف کو بھنبھوڑنا۔ سچ بولنا صحافی کا مذہب ہونا چائیے۔ غیر جانبداری اور عدم طرف داری صحافت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔

صحافت ایک سماجی خدمت ہے اور اخبار ایک سماجی ادارہ ہوتاہے۔ سماج کو آئینہ دکھانے کا کام صحافت کا ہے۔ سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعہ ہی سامنے آتی ہیں۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنا، صحت مند ذہن اور نیک رجحانات کو پروان چڑھانا، صالح معاشرے کی تشکیل کرنا، حریت اور آزادی کے جذبے کو فروغ دینا، مختلف اقوام میں دوستی کے جذبے کو بڑھانا، جذبہ ہمدردی، رواداری، الفت و محبت کو فروغ دینے کا کام صحافت کا ہے۔

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں صحافت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اور معاشرہ انہی خطوط پر استوار ہو جاتا ہے جن پر صحافت اُسے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک صحافی ہر حال میں حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہے اور معاشرتی بگاڑ اور فساد کے خلاف اپنے قلم کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے، وہ قوم کا سرمایا ہوتاہے۔جس طرح ایک اْستاد اپنے طالب علموں کی تلخ باتوں کو نظر انداز کر کے اْس کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ٹھیک اْسی طرح ایک صحافی بھی معاشرے کی تنقید کو نظر اندار کرتے ہوئے اس کی اصلاح کرنے کی شش کرتا ہے۔

موجودہ صحافت پر دقیق نظر ڈالی جائے تو آج کے معاشرتی بگاڑ کو درست سمت میں لے کر جانے والی صحافت کو مصائب و تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ایک صحافی کو سچ لکھنے کی پاداش میں اپنے معاشرے میں جینا محال ہوجاتا ہے،سچ برداشت کرنے کے بجائے صحافت کو ٹارگٹ بنایا جاتاہے،ایک سچ لکھنے والے صحافی کی باتوں کو سمجھنے اور اپنے معاشرے کی اصلاح کے بجائے دھونس دھمکیوں پر اترآنا درحقیقت صحافت کے مقدس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی یا من مانی نیوز چلانے کی سمت لے جانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔مگر ایک صحافی وہی لکھتاہے جو سچ ہوتا ہے۔
دوپہر تک بِک گیا بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں ایک سچ لے کررات تک یبٹھا رہا

جس نے صحافت کے مقدس فریضے کوتمام لفافوں اور سیاسی دباؤ سے بالا تر ہوکر سمجھا درحقیقت ایک حقیقی صحافی وہی کہلاتی ہے۔جو اس مقدس فریضے کی تکمیل کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیتا ہے،گرمی ہو چاہے سردی ہر حال میں اپنے سماج کو باخبررکھتاہے ،خوشی ہو یا غمی مگر ایک دیانتدار صحافی ان تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے سماج کی بھلائی کی ہر ممکن کوشش کرنے میں لگا ہوتا ہے۔

یاد رکھئے صحافت ایک سماجی خدمت ہے سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں۔ صحافت کو ایک ذریعہ معاش نہیں سمجھنا چاہیے۔ صحافت کو لفافہ صحافت سے پاک کریں، صحافت کو اس طرح مضبوط کرنا چاہیے کہ اگر کسی صحافی کو کوئی تکلیف ہو تو تمام صحافی اس کا درد محسوس کرسکیں۔ صحافی کو اپنی پہنچان خود کروانے کی ضرورت محسوس نہ ہوبلکہ صحافت اْس کی پہچان بنے۔ اگرایسا ہو جائے گا تو پھر ہم بڑے فخر سے کہ سکیں گے۔
سچ کہ کے کسی دور میں پچھتائے نہیں ہم
کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.