مکافاتِ عمل کاشکنجہ

تمام کائنات کانظام اس قادرِمطلق کی مرضی اورفیصلے اسی کی مشیت سے چل رہے ہیں اور وہی حقیقی معنوں میں نافذہوتے ہیں ۔انسان تواپنی ذہانت،عقل وفہم کی بنیادپراچھے برے فیصلے کرتا ہے مگراس کے نتائج بھی رب کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ معزز ججوں نے وزیراعظم نوازشریف کو امین وصادق کی صفات سے عاری قراردیتے ہوئے نااہل کرکے گھربھیج دیاتواس پرخوشیاں منانے والے بھی کم نہ تھے مگرچند روزمیں حالات نے جورخ اختیارکیاہے،لگتاہے کہ خوشیاں منانے والے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخران کی عقل پر پتھر کیوں پڑگئے کہ وہ آپے سے باہرہوگئے۔ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں،حزب اقتداروحزب اختلاف، سول وفوجی قیادت اوراعلیٰ عدلیہ کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے اورسب کیلئے اس میں عبرت کے اسباق بھی پنہاں ہیں کہ اب آئین کی یہی شق سب کی منتظر ہے۔

مشرف کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں احتجاجی تحریکیں چلانے کے بعدتھک چکی تھیں ،سپریم کورٹ بھی اقتدارپراس کے غاصبانہ قبضے کوقانونی اور جائز قراردینے کے علاوہ آئین میں من مانی ترامیم کالامحدوداختیارسونپ کراس مطلق العنان بادشاہ کی راہ ہموارکرچکی تھی،وہ وردی کی طاقت سے آئندہ پانچ سال کیلئے صدربھی بن چکاتھا۔ اب اس کے ذہن کاخناس تھاکہ کوئی اس کاراستہ نہیں روک سکے گالیکن پھر۹مارچ۲۰۰۷ء کادن آگیا جب اس نے پانچ جرنیلوں کوساتھ بٹھاکردہشت اوردھونس کاماحول پیداکرکے چیف جسٹس افتخارچوہدری کوطلب کرکے استعفیٰ طلب کیا۔یہ مکافات عمل تھاکہ چیف جسٹس افتخارچوہدری بھی سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل تھے جنہوں نے مشرف کی غیرقانونی حکومت کو تمام غیرقانونی مراعات فراہم کی تھیں۔

اپنے آپ کوتمام طاقتوں کامنبع سمجھنے والے پرویزمشرف کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ افتخارچوہدری نہ صرف اکڑکرسامنے کھڑابلکہ اس کیلئے لوہے کا چنابن جائے گا۔پھرپورے ملک نے کمانڈوکوآہستہ آہستہ بے بسی کی تصویربنتے دیکھا۔اسی جی ٹی روڈپرمیاں نوازشریف لوگوں کے اژدھام کے ساتھ سپریم کورٹ کی بحالی کیلئے نکل کھڑاہوا،ابھی یہ ہجوم منزل مقصود پربھی نہیں پہنچا تھاکہ سپریم کورٹ کی بحالی کے اعلان اورکامیابی نے نواز شریف کوسرشار کر دیااورجلدہی پرویزمشرف کوبے بسی اوربے توقیری کے ماحول میں ایوان صدر خالی کرناپڑا،یہ مکافاتِ عمل تھاکہ اپنے اقتدار کودوام دینے کیلئے جس رسوائے زمانہ ''این آراو''کاسہارلیاتھا،وہ بھی کام نہ آسکااورزرداری جیسے فردنے منصب صدارت سنبھال لیا۔یہ الگ بات ہے کہ زرداری کوبھی مکافات عمل کاشکارہو کر کئی برس تک پاکستان سے باہرروپوش رہناپڑا، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اب اگلی باری زرداری صاحب کی متوقع ہے کہ ان کیلئے تومہاکرپشن کے الزامات کے علاوہ عذیربلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ ہی کافی ہے۔

یہ بھی مکافاتِ عمل ہے کہ آج پرویزمشرف انتہائی غداری کے جرم آرٹیکل۶کے مقدمے میں عدالت سے مفرورہے۔اس نے بھی لوٹ مار سے بہت دھن دولت اکٹھی کی،کوئی درجن کرنسی اکاؤنٹ اورجائیدادوں کی ایک لمبی فہرست بھی منظرعام آچکی ہے،بقول اس کے سعودی بادشاہ نے بھی اس کوبہت پیسہ دیا تھا مگراس کے باوجودوہ اندر سے دہل رہاہے،بزدلی غالب ہے اوروطن واپس نہیں آرہا۔اب مانتاہے کہ۹مارچ کواس سےغلطی ہوئی تھی مگراللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں۔بعدمیں آنے والے حکمرانوں آصف زرداری اورنواز شریف نے جمہوریت کے چیمپئن ہونے کے زعم میں اس سے سبق نہیں سیکھا۔ نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ وہی کھویاہوااقتدارتوحاصل کرلیا اوریہ بھی مکافات عمل ہے کہ ابھی اقتدارکی مدت پوری نہیں ہوئی کہ اسی سپریم کورٹ نے نااہل قراردیکراسی جی ٹی روڈسے واپس گھربھیج دیا لہندانوازشریف بھی قادِر مطلق کے فیصلوں کی زدمیں آچکے جبکہ عمران خان اورکئی دوسرے جواپنے آپ کوقومی رہنماء کہتے اورسمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیس کروڑ عوام کی تقدیران کی مٹھی میں دے دی ہے،مکافاتِ عمل کا شکنجہ ان کی طرف بھی بڑھ رہاہے۔کب کس کی باری آجائے ،اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔

انسان سمجھتاہے کہ اس نے اپنی ذہانت،عقل وفہم ،دولت اورطاقت سے اردگردکی تمام قوتوں کوزیرکرلیاہے،اب کوئی اس کے خلاف چوں بھی نہیں کرسکتا مگرجب خالق کائنات کی مشیت ہوتی ہے تولمحات میں ایسےعوامل پیداہوجاتے ہیں کہ جن کاکوئی تصوربھی نہیں کرسکتا۔قادرِمطلق اپنے فیصلوں کے نفاذ میں اسباب و عوامل کامحتاج نہیں ہے لیکن انسانوں کوسمجھانے کیلئے بظاہرکچھ چیزیں حرکت میں آجاتی ہیں اور مکافاتِ عمل کے شکنجے میں ان کو ایسا جکڑلیتاہے کہ ان کومہلت کاوقت بھی نہیں ملتا۔

نوازشریف کے اقتدارسے محروم ہونے اورنااہل قراردیئے جانے کے بارے میں دینی وسیاسی جماعتیں ،معاشرے کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز میں اپنے ردّ ِعمل کااظہارکررہے ہیں اورتبصرے بھی جاری ہیں لیکن اس میں شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ رب العالمین کی مشیت کے نتیجے میں ہی یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔آئین کے آرٹیکل۶۲/۶۳کی رو سے نوازشریف کی نااہلی نے احتساب کا حقیقی معنوں میں راستہ کھول دیاہے۔کتنی حکومتیں گزرگئیں ، سیکولر،نیم مذہبی ہر طرح کے حکمراان آئے مگرضیاء الحق کے دورمیں ان آرٹیکل کوجس شکل میں آٹھویں ترمیم میں شامل کیاگیاتھااس شکل میں برقرار رکھاگیالیکن قوم کی یہ بدقسمتی۱۹۷۳ءکے آئین کاکوئی ایک چوتھائی سے کم حصہ پارلیمانی جمہوریت کے علم برداروں نے معطل کررکھاہے جس میں یہ دونوں مجوزہ آرٹیکل بھی شامل ہیں اورہائی کورٹس اورسپریم کورٹ بھی اس ڈگرپرچلتی رہی تھیں۔مقدمات میں درخواستوں اوردلائل کے باوجودآئین کے ان آرٹیکلزکونظراندازکیاجاتارہا۔

اب نوازشریف کے خلاف پاناماکیس میں سپریم کورٹ نے جس طرح آرٹیکل۶۲ کو استعمال کرتے ہوئے قراردیاہے کہ صادق وامین نہیں رہے ، اس نے ان آرٹیکلز کے تقدس و اہمیت کوفروترسطح پرلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی حالانکہ امیدتھی کہ عوامی نمائندگی کیلئے باکردار،ایماندار،دیانت دار،اسلام کی تعلیمات کاشعوررکھنے والے افرادکوچھانٹ کرآگے لانے میں ان آرٹیکلزسے بہت مدد ملے گی اورحقیقی احتساب ہوگا۔نوازشریف پرکرپشن،جعلسازی، ناجائزاثاثے بنانے اورقومی دولت لوٹ کرملک سے باہرلے جانے جیسے سنگین الزامات تھے جن کے بارے میں کہاگیاہے کہ جے آئی ٹی منوں ثبوت جمع کرچکی ہے اوراب تمام الزامات ثابت ہونے میں کوئی کسرنہیں رہ گئی لیکن ہوایہ کہ تمام معاملات تونیب کوبھیج دیئے گئے لیکن اپنی ہی کمپنی سے نہ وصول کی گئی تنخواہ کی رقوم کاغذات نامزدگی میں درج نہ کرنے کی پاداش میں مروجہ قانون سے ہٹ کر ڈکشنری کی مددسے اچھوتے معنی اس فعل کوپہناکرانہیں ٹیکنیکل طورپرناک آؤٹ کردیاگیا اور زیبِ داستاں کیلئے آرٹیکل۶۲/۶۳کوبھی نتھی کردیاگیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے ماہرین آئین وقانون جن میں نواز شریف کے سخت مخالف بھی شامل ہیں،حیران و پریشان ہیں کہ اتنے بڑے دماغ ،فہم وفراست رکھنے جج صاحبان نے یہ کیا کردیاہے۔

آئین وقانون ،قواعدوضوابط میں اس فیصلے کی گنجائش کہاں تلاش کی جائے کیونکہ اس فیصلے کومستقبل کیلئے نظیر کی حیثیت سے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پراثراندازہوناہے۔وکلاء دانشور حلقے سوال اٹھارہے ہیں کہ اگرنواز شریف کو''گاڈفادر''قراردینے،تاریخ میں یادرکھاجانے والافیصلہ کرنے کے پر زورریمارکس کے بعدکوئی ذہن بن چکاتھا توتمام الزامات ثابت قراردے دیئے جاتے،نااہلی ہوجاتی اگراس میں کوئی فنی رکاوٹ تھی اورتمام مقدمات نیب کو بھیجنے کے ساتھ حکم دیاجاسکتاتھاکہ چونکہ نوازشریف کے وزیراعظم رہنے کی صورت میں نیب مقدمات شفاف طریقے سے نہیں چل سکتے ،اس لئے مقدمات کے فیصلے تک نوازشریف اپنے عہدے سے الگ ہوجائیں ۔آخرانہیں مظلوم بنانے اورکہنے کاموقع دینے کی کیاضرورت تھی ؟اب نوازشریف نااہل قراردیئے جانے کے بعداگرنیب عدالتیں مقدمات میں الزام ثابت ہونے پرسزائیں بھی سنادیں تویہی کہاجائے گااقتدار سے الگ توبلاجوازکیاگیااوراب انتقام کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ اس لئے سنیئروکلاءجوسیاستدان یاسیاستدانوں سے فوائدحاصل کرنے والے ہیں، مشورہ دے رہے ہیں کہ فیصلے پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔

روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے پر نہائت ادب سے سپریم کورٹ کومشورہ دیاہے کہ فیصلے میں غلطی ہوگئی ہے لہندا فل بنچ قائم کرکے اس کودرست کرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال عدالت عظمیٰ آئین قانون ضابطوں کی تشریح کاسب سے معتبراورآخری ادارہ ہے،اب اس کے چیف جسٹس اورجج صاحبان اس صورتحال کوکیسے دیکھ رہے ہیں انہیں ماہرین آئین وقانون کی رائے سے کتنااتفاق ہے ،آئندہ چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.