شیزرے خود کو سنبھالو میں نے ریحان کو فون کر دیا ہے وہ
واپس آ رہا ہے۔نمرہ ماما کو پانی دو اور خود بھی حوصلہ کرو تم ہمت کرو گی
تو ان کو بھی سنبھالو گی نا۔نسیمہ آنٹی آپ نانو کے گھر فون کر دیں۔ وہ آئیں
گی تو ماما کو بہت سکون ملے گا ۔ ٹھیک ہے تم مجھے نمبر دو میں فون کر دیتی
ہوں۔ یہ لیں یہ ماما کا فون ہے اور یہ نانو کا نمبر ہے ۔آپ فون کریں میں
ماما کو دیکھتی ہوں۔ نمرہ پانی لے کے شیزرے کے پاس آ گئی تھی ماما پانی پی
لیں۔ رکھ دو مجھے ابھی پیاس نہیں ہے ۔ماما تھوڑا سا پی لیں۔میں نے کہا ہے
نا نمرہ کہ مجھے ابھی پیاس نہیں ہے۔ نمرہ اٹھ کہ باہر آ گئی تھی دل کر رہا
تھا وہ بہت روئے جنت کو واپس لے آئے پر اب جنت واپس نہیں آ سکتی تھی۔
ریحان ماں جی اور مریم آ پا آ گئے تھے ریحان کے کچھ جاننے والے بھی تھے
محلے کے لوگ بھی تھے۔ شیزرے کے گھر سے کوئی نہیں آیا تھا۔ شیزرے کی آنکھوں
کے سامنے اس کے جگر کے ٹکڑے کو اٹھا کر لے گئے تھے۔اور وہ نہیں روک پائی
تھی۔ پھر آہستہ آہستہ سب چلے گئے تھے۔گھر میں صرف گھر کے افراد رہ گئے
تھے۔مریم آپا نے بھی کل واپس چلے جانا تھا۔ سب اپنے کمروں میں چلے گئے
تھے۔ماں جی کے کمرے میں مریم آپا تھیں ۔نمرہ اپنے کمرے میں تھی ۔ریحان
لاؤنج میں تھے ۔شیزرے چھت پر آگئی تھی ۔نیچے ہر طرف اسے جنت محسوس ہو رہی
تھی جیسے شیزرے کے پیچھے پیچھے ہو کبھی ڈوپٹہ پکڑ رہی ہو تو کبھی قمیض بس
شیزرے کے ساتھ چل رہی ہو۔ اچانک ہی چھت پہ کسی کی آہٹ محسوس ہوئی تھی۔اور
بے اختیار ہی شیزرے کے منہ سے جنت کا نام نکلا تھا۔ لیکن سامنے ریحان
تھا۔اترا ہوا چہرہ روئی ہوئی آنکھیں۔ شیزرے کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ
ریحان ہے ۔چہرے پہ بیٹی کے مرنے کا دکھ تھا یا فون پہ بات نہ سننے کی
ندامت۔وہ سمجھ نہیں پائی تھی ۔
شیزرے نیچے چلو کافی رات ہو گئی ہے۔ ریحان آپ چلے جائیں یہاں سے مجھے ابھی
نیچے نہیں آنا۔ کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد ریحان پھر سے بولا تھا۔دیکھو
شیزرے مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ مسئلہ ہو گیا ہے۔میں تمہارے آگے بہت شرمندہ
ہوں۔۔۔ شرمندہ ریحان آپ شرمندہ ہیں آپ کی شرمندگی میری بچی کو واپس لا سکتی
ہے ان لمحوں کو واپس لا سکتی ہے جب کتنے مان کے ساتھ آپ کو فون کیا تھا میں
نے کہ جنت کی تکلیف کا سن کہ آپ فوراً واپس آجائیں گے پر نہیں ریحان صاحب
آپ نے تو بات تک سننا گوارا نہیں کیا ۔ مر گئی ہے وہ جس کے لیے آپ شرمندہ
ہو رہے ہیں۔آپکی شرمندگی نہیں چاہیے مجھے چلے جائیں یہاں سے۔ ایسی باتیں مت
کرو شیزرے وہ میری بھی بیٹی تھی ۔ہاں ریحان وہ بیٹی جس کو آپ نے کبھی سینے
سے نہیں لگایا جس کے رک رک کے بولنے سے اس سے نفرت ہوتی تھی آپ کو ۔ اب آپ
کو اس سے مزید نفرت نہیں کرنی پڑے گی ۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہی شیزرے وہ
میری اولاد تھی۔ مجھے نمرہ اور جنت دونوں بہت عزیز ہیں میں تمہارے معاملے
میں جیسا بھی تھا اپنی اولاد کو پیار نہیں دیا پر ان کے مرنے کے بارے میں
کبھی نہیں سوچا میں جانتا ہوں تمہارے میرے درمیان جو کچھ بھی تھا ۔پر اپنی
اولاد کے معاملے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔اور اس پہ میں بہت نادم ہوں ۔
شیزرے کو ریحان کی باتوں پہ حیرانگی سے زیادہ افسوس ہوا تھا۔ اس شرمندگی
میں کہیں بھی شیزرے کے ساتھ رکھے گئے رویے کے لیے ندامت نہیں تھی۔ ریحان
صاحب اب ندامت کے لیے بہت دیر ہو گئ ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اب آپ کو یہ سب
محسوس ہو رہا ہے۔جب آپ کی ایک بیٹی مر چکی ہے اور دوسری آپ کو جیتے جی
مارنے کے چکروں میں ہے۔ کیا مطلب ہے تمہارا میں کچھ سمجھا نہیں ریحان حیرت
سے شیزرے سے پوچھ رہا تھا۔
یاد ہیں وہ لمحے ریحان جب آپ کا یقین قائم رکھنے کے لیے میں اپنے ماں باپ
کو دھوکا دیتی تھی۔آپ کی ہر بات کے لیے اپنے ماں باپ سے منافقت کرتی تھی
۔تب بدلے میں آپ کا پیار مجھے میرے گناہ کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا۔ جب
آپ کے ساتھ چھپ کے ملتی تھی۔اور ہاں ریحان جب ہم اس گھر میں گئے تھے وہ آپ
کے دوست کا گھر تھا۔ ہمارے درمیان کچھ غلط نہیں ہوا تھا لیکن آپ کے ساتھ
بغیر نکاح کے ایک گھر میں وقت گزارا تھا میں نے اس وقت کے بدلے سب کچھ گنوا
دیا ۔ اس گھر سے نکلتے ہوئے ابا نے مجھے خود دیکھا تھا۔اس محلے میں ابا کے
روست رہتے تھے۔ کیا گزری ہو گی ابا پہ اس وقت میں ان کی تکلیف کو نہیں سمجھ
پائی تھی۔گھر آ کے ان کے پوچھنے پہ ان کے آگے کھڑی ہو گئی تھی کہ مجھے اپنے
کلاس فیلو ریحان سے شادی کرنی ہے ۔اور ان کے زور دار تھپڑ نے میری آنکھیں
کھولنے کی بجاۓ مجھے اور پاگل کر دیا تھا کاش میں تب سمجھ جاتی کاش اس ٹائم
ابا کی تکلیف کو سمجھ پاتی۔ لکین ریحان میں اپنے باپ کے آگے کھڑی ہوئی تھی
ان کے ہاتھوں سے رخصت ہوئی تھی بہت مجبور کر دیا تھا اپنے ماں باپ کو میں
نے۔پر افسوس بہت افسوس کے ریحان صاحب آپ کی بیٹی آپ کو شاید یہ موقع بھی نہ
دیتی اگر آج جنت نہ مرتی تو اس کی جگہ ہم مر جاتے آپ کی عزت مر جاتی میری
بچی تو قبر میں چلی گئی لکین آپ کی بیٹی نے آپ کے لیے ایسی قبر کھودنی تھی
جس میں آپ کی عزت کا جنازہ نکل کے دفن ہونا تھا۔
ریحان میں نے جو اپنے ماں باپ کے ساتھ کیا آپ کے لیے اپنے ماں باپ کا یقین
توڑا ان کے ساتھ منافقت کی ان کا دل دکھایا اس کی سزا مجھے آپ نے اور آپ کی
بڑی بیٹی نے دے دی ہے ۔ میں نے راتوں کو جاگ کے اپنے گناہوں کی معافی مانگی
ہے شاید اس معافی کا بدلہ آج مجھے ملا ہے جنت نہ مرتی تو ہم سب مر جاتے۔
لیکن میری معصوم بچی کی جگہ میں مر جاتی تب ہی مر جاتی جب آپ کے پیار کے
لیے اپنے ماں باپ کے پیار کا گلا گھونٹا تھا۔ ریحان میں نے بہت کچھ کیا ہو
گا پر اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔پر ہماری نمرہ آج
گھر سے بھاگنے والی تھی ۔جس بچی سے آپ اتنی نفرت کرتے تھے آج اسی کی موت نے
آپ کی عزت بچا لی۔شیزرے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی۔
ریحان سے یہ سب سننے کہ بعد کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رہی تھی وہ شیزرے کے
ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا تھا۔اور شیزرے کو روتے تڑپتے دیکھ رہا تھا۔شیزرے
چپ کر جاؤ پلیز خود کو سنبھالو ۔
ریحان آپ نے مجھ پہ ہمیشہ شک کیا آپ نے مجھے میرے کردار کی کمزوری کے طعنے
دیۓ۔ وہی ماں باپ جن کے آگے میں آپ کے لیے کھڑی ہوئی تھی انہی کے سامنے
میری تذلیل کی۔اپنے گھر والوں کے سامنے ہماری محبت کی دھجیاں اڑا دیں۔ کیا
یہ تھی وہ محبت ریحان جس کے لیئے میں اللہ کے آگے روئی تھی۔آپ کو پانے کے
لیے سب کی باتیں برداشت کی تھیں۔اور آپ نے چند لوگوں کی باتوں کے پیچھے
میرے ہی کردار پہ کیچڑ اچھالا۔ لیکن نہیں آپ کا قصور نہیں ہے اللہ پاک نے
مجھے دیکھانا تھا کہ آخر کس چیز کی میں نے خواہش کی ہے ۔رب نے مجھے آپ کی
بیوی اور بیٹی کی ماں بنا کہ بتانا تھا کہ انسان کی محبت اور اولاد کی
تکلیف کیا چیز ہوتی ہے۔ گناہ گار تو ہم دونوں تھے پھر سزا وار میں ہی کیوں
ریحان آخر کیوں۔۔
چپ کر جاؤ شیزرے پلیز چپ کر جاؤ مجھ میں اور سننے کی ہمت نہیں ہے ۔ میں
معافی مانگنے کے بھی قابل نہیں ہوں مجھے میرے شک نے کچھ دیکھنے ہی نہیں دیا
۔ میں تم سے کبھی نفرت نہیں کر پایا پر میرے شک نے مجھے تم سے مزید محبت
بھی نہیں کرنے دی۔اماں اور آپا کی باتوں نے میرے شک کو ہمیشہ ہوا دی۔مجھے
معاف کردو شیزرے میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔
ریحان آپ تو کہتے تھے آپ مجھے جانتے ہیں پر دکھ تو یہ ہے آپ کبھی مجھے جان
ہی نہیں پاۓ۔ مجھے آپ کےاتنے رویوں کے باوجود کبھی آپ سے نفرت نہیں ہوئی
۔اور اس کی وجہ میری اولاد تھی۔ ایک آج میرے ہی سامنے مر گئی ہے ۔اور جو
دوسری ہے مجھے لگتا ہے میں اسے جانتی ہی نہیں ہوں۔ کسی کے خوابوں، خواہشوں
اور اس کی زندگی کے کل اثاثے کا جنازہ نکال کے معافی نہیں مانگی جاتی۔
ریحان میں اب کو معاف بھی کر دوں تو میرا دل اب بغیر کسی جذبے کے دھڑک رہا
ہے۔میرے سارے جذبے جنت اپنے کفن میں لپیٹ کے لے گئی ہے ۔
شیزرے میں غلط تھا بہت غلط میں تم سے وعدہ کرتا ہوں سب ٹھیک کر دوں گا مجھے
ایک موقع دے دو۔ریحان بےبسی سے شیزرے کے آگے گڑگڑا رہا تھا۔
کچھ لمحے خاموشی چھائی رہی ایسی خاموشی جو جسم کو احساسات کو چند لمحوں میں
مزید کمزور کر دے ۔شیزرے کچھ بولو خاموش مت رہو مجھے یہ خاموشی کھا جائے گی
مجھے اس خاموشی میں تمہاری کال پہ مجھے جنت کے بارے میں بتانے کی آواز صاف
سنائی دیتی ہے۔وہ آواز میری سماعتوں کو چبھتی ہے۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا
ہوں بولو مجھے برا بھلا کہو۔
ریحان اگر آپ واقعی کچھ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ہماری بیٹی کو بچا لیں وہ
جس دلدل میں پیر رکھ چکی ہے وہ اسے اور ہم سب کو کھا جائے گی ۔بس اسے اس
اذیت سے بچا لیں جو وہ خود کو دینا چاہتی ہے۔اور اگر نہ بچا پائیں تو اپنے
ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دیجئے گا۔کیوں کہ وہ جو کرنا چاہتی ہے اس کے بعد
لوگ اسے جینے نہیں دیں گے۔
میں سب ٹھیک کر لوں گا شیزرے میرا تم سے وعدہ ہے۔چلو اب نیچے چلو۔اپنے کمرے
میں چل کے تھوڑا آرام کر لو۔شیزرے کچھ بولی نہیں تھی پر ریحان کے ساتھ کمرے
میں آ گئی تھی۔وہ دونوں لیٹ تو گئے تھے لیکن نیند دونوں کی آنکھوں میں نہیں
تھی۔ رات تڑپتے سسکتے گزر گئی تھی ۔صبح آپا نے شیزرے کو تسلی دے کہ واپس
جانے کی اجازت مانگی تھی۔اماں بھی خاموش تھیں۔نمرہ اپنے کمرے سے باہر نہیں
آئی تھی۔شیزرے آپا کو اور اماں کو ناشتہ دے کر نمرہ کے کمرے میں آ گئی تھی۔
جنت کے کھلونے کمرے میں بکھرے ہوئے تھے ۔وہ وہاں نا ہوتے ہوئے بھی وہیں
محسوس ہو رہی تھی۔نمرہ اٹھ جاؤ بہت ٹائم ہو گیا ہے۔ ماما میں جاگ رہی ہوں
مجھے نیند نہیں آئی جینی کے رونے کی آوازیں آتی ہیں ماما پلیز آپ میرے پاس
سو جایا کریں۔ ٹھیک ہے میں آج رات تمہارے پاس سو جاؤں گی ابھی اٹھ جاؤ کچھ
کھا لو۔ ماما میں آپ کی کود میں سر رکھ لوں۔شیزرے کو نمرہ پہ غصہ تھا پر
تھی تو وہ اس کی اولاد ہی وہ اسے منع نہیں کر سکتی تھی۔نمرہ نے شیزرے کی
گود میں سر رکھ لیا تھا۔اور آہستہ آواز میں رونے لگے تھی۔ لکین اللہ پاک نے
اولاد کے لیے ماں کی سماعتوں کو تیز رکھا ہوتا ہے وہ کچھ نہ بھی محسوس
کروائیں پھر بھی مائیں محسوس کر لیتی ہیں۔ شیزرے کے دل کو چین نہیں آرہا
تھا وہ نمرہ کو گلے لگا کر خوب رونا چاہتی تھی۔مگر وہ ابھی ایسا کر کے اسے
اور پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی جو بھی تھا وہ ابھی ناسمجھ تھی۔ نمرہ چپ کر
جاؤ روتے نہیں ہیں جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے اب جنت واپس نہیں آۓ گی ۔پر اب
ہمیں اپنی زندگیوں کو بہتر کرنا ہے ۔ نمرہ تم بڑی ہو دیکھو جنت کیسے کچھ
لمحوں میں ہم سے الگ ہو گئی زندگی موت کا کچھ پتا نہیں ہے کب کون اپنے
پیاروں سے جدا ہو جائے۔ زندگی ہمیں اپنے رب سے محبت کے لیے ملی ہے ماں ،باپ
،بہن،بھائی کے علاوہ سب کی محبت میں تکلیف ہے رسوائی ہے۔ ماں باپ اولاد کا
پردہ رکھ لیتے ہیں پر دنیا والے نہیں رکھتے ۔چلو دنیا کو بھی چھوڑ دو وہ
شخص جس کے پیچھے ہم اپنے والدین کو ذلت کے گھڑے میں دھکا دیتے ہیں وہ بھی
ہماری تمام تر محبتوں اور ریاضتوں کو ان لوگوں کے پیچھے جن سے پہلے تو اسے
کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن پھر انہی لوگوں کے لیے وہ سب کچھ ہمارے منہ پہ
دے مارتا ہے پھر پتا ہے کیا ہوتا ہے نمرہ ۔۔۔۔نمرہ خاموش تھی بلکل
خاموش۔۔۔۔۔ نمرہ پھر اولاد کی باری آتی ہے اور اولاد جو ہم نے کیا ہوتا ہے
اس کا دگنا ہمارے آگے لے آتی ہے۔۔ پھر رب یاد آتا ہے ندامتیں ہوتی ہیں پر
ہمیں اپنی منافقت کا بدلہ اپنی ہی اولاد سے چکانا پڑتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے
سنبھل جاؤ انسان کی محبت ہاتھ میں ۔پکڑی ریت کی طرح ہے اور ریت کبھی ہاتھوں
میں نہیں ٹھہرتی۔۔
شیزرے سب کہہ کے چپ کر گئی تھی اسے معلوم تھا اگر اب بھی اس کی بیٹی نہ
سنبھلی تو اسے وقت ہی سمجھائے گا ۔
ماما آپ سب جانتی تھیں ۔پر ماما میں یہ سب ایسے نہیں چاہتی تھی آپ کو اور
بابا کو سب بتانا چاہتی تھی پر بابا کے رویے نے مجھے مجبور کر دیا تھا میں
چاہتی تھی وہ اپنی تمام تر توجہ اور محبت صرف ہمیں دیں۔پر وہ ایسا نہیں
کرتے تھے۔پھر سر طلحہ نے مجھے توجہ دینا شروع کر دی مجھے لگنے لگا کوئی تو
ہے جو میری بھی سنتا ہے۔ پھر انھیں مجھ سے محبت ہو گئی۔ماما وہ مجھے خاص
ہونے کا احساس دلانے لگے تھے ۔مجھے ان کی باتیں اچھی لگنے لگی تھیں۔جو توجہ
آپ سے اور بابا سے چاہتی تھی وہ مجھے کسی قدر اس شخص سے ملنے لگی تھی۔ ماما
پلیز مجھے معاف کر دیں مجھے پتا ہے میں غلط ہوں مجھے گھر سے بھاگنے کا نہیں
سوچنا چاہیے تھا۔ماما میں آپ کے پیر پکڑتی ہوں میں نے آپ کا بہت دل دکھایا
ہے۔یہ یہ کیا کر رہی ہو نمرہ اٹھو ریحان جو باہر کھڑا باتیں سن رہا تھا
اندر آ گیا تھا اور نمرہ کو اٹھا کے بیڈ پر بٹھایا تھا۔ بابا آپ نمرہ کے
چہرے کا رنگ اڑ گیاتھا۔
ہاں میں ہوں اب چپ کر جاؤ جو ہو گیا ہے اس پہ مزید کوئی بات نہیں ہو گی ۔ہم
سب مل کے سب ٹھیک کریں گے ۔ میں جنت کو واپس نہیں لا سکتا لکین تم دونوں کو
مکمل زندگی دے سکتا ہوں۔
بابا آئی لو یو بابا مجھے معاف کر دیں نمرہ روتے ہوئے ریحان کے سینے سے لگ
گئی تھی۔ریحان نے ایک ہاتھ سے شیزرے کو بھی اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔۔
اور پھر اصل زندگی کی شروعات ہو گئی تھی۔ایک خوبصورت اور مکمل زندگی کی۔
ایک حادثے نے کتنی زندگیاں بدل دی تھیں۔ صحیح کہتے ہیں رب کے ہر کام میں
مصلحت ہوتی ہے۔ جنت کو کوئی نہیں بھول پایا تھا ۔پر اللہ پاک نے اپنی نعمت
سے شیزرے کی گود بھر دی تھی۔ نھنے ارسلان نے گھر میں خوشیاں بکھیر دی تھیں
۔نمرہ پڑھائی اور مدرسے میں مصروف ہو گئی تھی۔ ریحان نے سب کچھ ٹھیک کرنے
کے لیے اپنی پوری کوشش کی تھی ۔شیزرے کے گھر والوں سے اپنے رویوں کی معافی
مانگی تھی۔ اور سب نے معاف کر دیا تھا۔ ارسلان کے گود میں آنے کے بعد شیزرے
نے بھی ہر بات کو دل سے نکال دیا تھا۔یہ سچ تھا گزرا ہوا وقت واپس نہیں
آسکتا تھا ۔لکین آنے والے وقت کو خوبصورت بنایا جاسکتا تھا۔ اور ریحان نے
اپنی محبتوں اور اعتماد سے زندگی کو خوبصورت بنا دیا تھا۔
وقت پلٹتا نہیں لکین ۔۔۔
گزری تلخیوں کو رویے مٹا دیتے ہیں۔۔۔
زندگی کا بہت پیار ا سچ یہ ہے کہ ہم آپ اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے
گزرے وقت میں تو نہیں جا سکتے۔لکین اپنے گزرتے وقت میں اپنے اچھے رویے سے
اس کا ازالہ ضرورکرسکتےہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
|