جنگ کسی بھی مسئلے کاحل نہیں

جب سے ٹرمپ نے قصرسفیدمیں پاؤں رکھاہے ،اپنی عجیب و غریب حماقتوں سے آئے دن امریکی قوم کی جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں۔صہیونی لابی کوخوش کرنے کیلئے کئی مسلم ممالک کے باشندوں پرامریکاآمدپرپابندی لگادی جس پر امریکا کی بعض ریاستوں نے اس حکم کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیاجس پرعدالت نے ٹرمپ کے اس حکم کو مستردکردیا۔میکسیکوکی ہزاروں میل سرحدپرباڑلگانے کا اعلان کردیاتووہاں بھی منہ کی کھانا پڑی۔ان دنوں ایک حلقے کی طرف سے ان کے انتخابات میں روسی مداخلت کی مددکاشوران کی پریشانی کاسبب بناہوا ہے اوران کے خلاف اعلی پیمانے کی کمیٹی امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے بل بوتے پر دھاندلی کے الزامات کی بھرپور تفتیش کررہی ہے اور عنقریب آپ کی اور آپ کے بیٹے کی گردن قانونی شکنجے کی گرفت میں آنے والی ہے۔

صدرٹرمپ نے اقتدارسنبھالتے ہی جونہی میڈیاکوبری طرح حقارت کانشانہ بنایاتوامریکی میڈیاکے علاوہ عالمی میڈیاکے ساتھ غیرصحت مندانہ مسابقت شروع ہو گئی ۔اپنی اس خامی پرقابوپانے کیلئے قریبی مشیروں کی رفاقت بھی کام نہ آسکی توقصرسفیدکے بین الاقوامی امورکی حکمت عملی کے سربراہ اورقریبی مشیر اسٹیفن کیون بینن کوبھی سات ماہ کے بعد محض اس لئے برطرف کردیاکہ اس نے صدرٹرمپ کوشمالی کوریاکے میزائل تجربے پرانتہاپسندپالیسی کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیارکرنے کامشورہ دیاکہ اوّل توشمالی کوریاپرامریکی اقتصادی اثرورسوخ ختم ہوچکاہے اور دوسرا کوریابھی ایک ایٹمی قوت ہے اور کسی بھی ''مس ایڈونچر''کی صورت میں فوری طورپراس کا راست اقدام ناگزیر ہے اور تیسری اہم وجہ شمالی کوریاپر حملہ چین کے مفادات پرضرب سمجھا جائے گاجس کے خوفناک نتائج ہوں گے ،اس لئے فی الحال شمالی کوریاکاکوئی بھی فوجی حل سوچنے کی بجائے مذاکرات کی راہ اپنانی ہوگی گویااسٹیفن کیون بینن نے شمالی کوریاکے معاملے پر آئینہ دکھایاتوموصوف برامان گئے ۔

دوسری طرف حال ہی میں قصرسفیدمیں براجمان ٹرمپ نے اپنے فرعونی انداز میں امریکی اقدارکاخون کرتے ہوئے جس طرح فاشسٹ کرداروں اورنسل پرستی کوہوادیکرامریکی کثیرالاقدارمعاشرے کومزیدتقسیم کرکے ملکی آہنگی کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی کوبھی پچھلے کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے جس پرکیلیفورنیا کے گورنرمشہورزمانہ فلمی اداکارآرنالڈ شوارزنگر نے صدرٹرمپ کونسلی منافرت پھیلانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے امریکی عوام کے عتاب کاسامنا کرنے کی دہمکی دینی پڑی۔ادھرانتخابی مہم کے دوراان ٹرمپ نے امریکی عوام سے جہاں اورکئی بے شماروعدے کئے وہاں افغانستان اور دنیابھرمیں موجود امریکی افواج کوواپس بلانے کاوعدہ کیاتھالیکن اقتدارسنبھالتے ہی وہ نہ صرف اب تک اپنے کسی بھی وعدے کو پورا کرنے سے قاصر ہیں بلکہ سابقہ صدورکی پالیسیوں پرگامزن ہیں اوربالخصوص اوباماکی طرف سے ہرحال میں اافغانستان سے اپنی افواج کونکالنے کے وعدے کوبھی بری طرح پامال کررہے ہیں۔ موصوف کواب جن مسائل کا اندرونِ ملک سامناہے ،ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے اورامریکی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے اب انہیں کوئی بیرونی ایشوکی ضرورت ہے تاکہ اندرونی درگت سے گلوخلاصی ہوسکے جس کیلئے انہوں نے افغانستان میں سولہ سال جاری شکست کا پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی ناکام کوشش شروع کردی ہے۔|

تاریخ شاہدہے کہ امریکانے دنیابھرمیں ٣٨ممالک پراپنی بھرپورفرعونی طاقت سے ظالمانہ یلغارکرکے ان کوتاراج توکیالیکن فتح حاصل کرنے کی بجائے بالآخررسواہوکرنکلناان کا مقدررہااورہمیشہ اپنی ناکامی اورشکست کاملبہ پڑوسی ملک پرڈالناان کاشیوہ رہا۔ویت نام سے ہاراتوالزام کمبوڈیاپر، عراق سے رسواہوا توالزام ایران پراوراب افغانستان میں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں توتمام ناکامیوں اورشکست کاملبہ پاکستان پرڈال کرڈومور کامطالبہ کردیا ہے۔ ابھی ان دہمکیوں کے ابتدائی خدو خال ہی سامنے آئے ہیں اورٹرمپ کی تقریرکاپہلی مرتبہ ان کی امیدوں کے برعکس جواب دیا گیاہے کہ پاکستان کوکسی مدد کی نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان قربانیوں کے اعتراف کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے جس مددکا تذکرہ کیاہے دراصل امریکانے افغان جنگ میں پاکستان کے ہوائی اڈوں،فضائی اور زمینی حدودکواستعمال کرنے کے عوض عالمی ضابطوں اور قوانین کے مطابق کہیں کم رقم اداکی جبکہ پاکستانی فاسق کمانڈوپرویزمشرف کے غلط فیصلے کی سزا کے طورپرپاکستان اب تک ایک سوبیس ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان اور سترہزارافرادجس میں چھ ہزارسے زائدسیکورٹی فورسزکے افرادجان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اس لئے امریکی امدادکی بندش کی گیدڑدہمکی کایقیناًکوئی اثرنہیں لیا گیا۔
دوسری طرف شمالی کوریا کے مقابلہ میں پاکستان کامعاملہ کئی گناگھمبیرہے۔ پاکستان کی ملٹری اور ایٹمی طاقت کسی بھی مس ایڈونچر کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اورپہلی مرتبہ پاکستان کوجواب دینے سے قبل چین کھل کر میدان میں اترآیاہے اوراس نے امریکاکوایک ہی دن میں دومرتبہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے رابطہ کرکے ہوش کے ناخن لینے کامشورہ دیاہے اورروس نے بھی پاکستان کی حمائت میں بیان دیتے ہوئے امریکاکو زمینی حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔یادرہے کہ پچھلے ایک سال سے روس،پاکستان اور چین کے اس خطے میں باہمی مفادات کے کئی میدانوں میں تعاون تیزی سے جاری ہے،یوں پاکستان پرحملہ ان تینوں ملکوں پرتصورکیاجائے گاجس کیلئے امریکامیں کئی سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ کی تقریرکے بعد اپنے شدیدردّ عمل کااظہارکرتے ہوئے اسے ٹرمپ کی تہہ برتہہ حماقتوں والی مثال سے تشبیہ دی ہے جوامریکی قوم کی جگ ہنسائی کا موجب بنے گی۔اس لئے یہاں بھی امریکا کے پاس شمالی کوریاکی طرح کوئی ملٹری آپشن موجود نہیں ہے۔

دراصل چین کی ترقی کرتی ہوئی معیشت نے تیزی نے اقوام عالم کی نہ صرف توجہ بلکہ عالمی منڈیوں پربھی دسترس اوربرتری حاصل کرلی ہے اور امریکا کی بگڑتی ہوئی معیشت اوراندرونِ خانہ مسائل کے انبارسے وقتی طورپر چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے حسبِ معمول ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی سطح پر خوف وہراس پھیلانے کی دہمکی آمیز پالیسی کاسہارالیتے ہوئے سازشوں کایہ نیاسلسلہ شروع کیاہے۔دوسری طرف مودی سرکاربھی اندرونِ خانہ عروج پر پہنچی ہوئی ہندوانتہاء پسندی کی وجہ سے سول سوسائٹی کے بحران اورمقبوضہ کشمیرمیں بڑھتی ہوئی جدوجہدآزادی کی تحریک سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے بالآخرٹرمپ کے گھٹنوں کوچھوکرمددکا طلب گارہے۔امریکانے اپنے مفادکیلئے اس خطے میں بھارتی کانگڑی پہلوان کی ڈھیلی اورکانپتی ٹانگوں کوسہارادینے کی احمقانہ کوشش توکی لیکن مودی سرکارکو ''سرمنڈاتے ہی اولے پڑے''کے مصداق ڈوکلام میں چینی افواج کاسامنا کرتے ہوئے اوقات یادآگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی نفرت اورتعصب کے طوفان کونشیبی علاقوں میں منتقل کرنے کی بھونڈی کوشش توضرورکی ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہرقسم کاطوفان ہمیشہ نشیبی علاقوں میں غرق ہوکرفناہوتاہے۔

اس دورِجدیدمیں جنگ کی خواہش خودکشی سے کم نہیں اوراب توجنگ کی ہولناکی کے چندلمحات ہی اس دنیاپرہرذی روح کاصفایا کرنے کیلئے کافی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب جارحیت کامقابلہ اورجنگ سے بچنے کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کوبطوردفاع ضروری ہوگیاہے۔ چین کاٹرمپ کے بیان پرفوری ردّعمل اور امریکی اعلیٰ حکام کے ساتھ رابطہ بھی سامنے آچکا ہے،اس سے اگلے دن روس نے بھی اپنے خدشات اورتشویش کااظہارکیاہے۔آج امریکا اور اس کی افواج شکست خوردہ حالت میں ہیں اور امریکہ کی معاشی کمر ٹوٹنے کے قریب ہے۔ (جاری ہے)

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.