یاد تو ہوگا عوام کو میڈیا سوشل میڈیا پر کوئی اندر کی
بات پوشیدہ رہے ہی نہیں سکتی عوام کی نظروں سے. پہلے عمران خان طاہرالقادری
نے نواز حکومت کے خلاف اور عوام کے حقوق کے لیے ایک ساتھ دھرنے دیئے تھے تو
نا اہل نواز شریف کہتے تھے کہ سڑکوں پر احتجاج مت کرو کنٹینروں دھرنوں کی
سیاست مت کرو۔ نظام کو چلنے دو۔عدالت جائو۔ پھر عمران خان طاہرالقادری
عدالت گئے پھر عدالت نے دلیرانہ فیصلہ کرکے نواز شریف کو مجرم نا اہل قرار
دے کر برطرف کردیا تو اب سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف خود سڑکوں پر آگئے۔
دیکھو اللہ پاک کی شان۔
نواز شریف اب سڑکوں پر چیخنے چلانے کے بجائے اپنے ماضی کو یاد کریں۔ سڑکوں
پر توہین عدالت نہ کریں۔ عدلیہ اور اداروں کا احترام کریں۔ اپنی نا اہلی کو
تسلیم کریں۔ یاد ہے نا اسی آرٹیکل 62 63 کے تحت نواز شریف نے یوسف رضا
گیلانی کو نا اہل قرار دلوایا تھا۔ اور خود بھی اب 62 63 کے تحت نا اہل
ہوگئے۔ تو اب ن لیگی ارکان 62 63 کو ترمیم کے ذريعے ختم کرنے کے لیے
اپوزیشن کی حمایت چاہتے ہیں۔ مگر اپوزیشن کسی بھی صورت آئین میں ترمیم 62
63 کے خاتمے کی حمایت نہیں کریں گی۔ نواز شریف ماضی سے سبق سیکھے۔ 62 63 کے
خاتمے کی حمایت کرنے سے مولانا فضل الرحمان نے بھی معذرت کرلی۔
سیاست میں کوئی پاک صاف نہیں ہوتا تو پھر کوئی بھی صادق امین نہیں ہوسکتا۔
نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے اور تینوں بار اپنی مدت پوری نہیں کرسکے۔
نواز شریف نے نا اہلی کے بعد سے عدلیہ اور قومی اداروں کے خلاف جارہانہ
انداز اپنایا ہوا ہے. روز توہین عدالت کررہے ہیں۔ جو کسی بھی صورت ٹھیک
نہیں۔ اداروں کا احترام سب پر لازم ہیں۔ قومی ادارے ہی ملک کا اہم ستون
ہوتے ہیں۔ کرپشن میں لتٹھری مفاد پرست سیاسی شخصیات نہیں۔
آج سیاست سیاسی اصولوں سے ہٹ کر مراعات عیش و عیاش پر مشتمل ہوچکی ہے۔
پارٹی ٹکٹ عہده مراعات دے تو پارٹی لیڈر سب اچھے ہیں۔
عائشہ گلالئ کو دیکھ لو۔ پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر عمران خان پر کس قدر کیچڑ
اچھالی۔ اب کوئی عائشہ گلالئ سے پوچھے کہ عمران خان غلط ہیں۔ تو محترمہ
آپکو پی ٹی آئی کو اسی وقت چھوڑ دینا چاہیئے تھا۔ اتنا عرصہ پی ٹی آئی میں
عائشہ لئی کا رہنا سمجھ سے بلاتر ہے۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما مصطفی کمال
جو بیس سال تک الطاف حسین کو اپنا سیاسی قائد مانتے رہنے کے بعد پارٹی کو
چھوڑ کر الطاف حسین کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی۔ اب خود اپنی الگ پارٹی پاک
سر زمین بنا بیٹھے ہیں۔ اب کوئی مصطفی کمال سے پوچھے کہ ایم کیو ایم قاتل
پارٹی ہیں تو پھر آپ بیس سال ایم کیو ایم میں کیوں رہے۔
آپکو مشرف دور میں کراچی کا ناظم بناکر شہرت کی بلندی پر پہنچانے والی
جماعت ایم کیو ایم ہی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے مصطفی کمال کی سوائے ایک عام
شہری کے کوئی شناخت نہیں تھی۔
کسی بھی پارٹی کو جوائن کرنا پھر اسے چھوڑ دینا رہنما کا حق ہے۔ لیکن پارٹی
چھوڑ کر لیڈر کی شخصیت کو اچھال کر سیاسی حمایت حاصل کرنا دانشمندی نہیں
ہوتی۔ ایسے لوگ سیاسی لوٹے کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ بس آجکل مراعات دھن دولت
کے لیے سیاسی پارٹیاں تبدیل کرتے پھررہے ہیں۔ ملک اور عوام کی کسی کو کوئی
فکر نہیں۔
میں آپکو بتاتا چلو کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں میں ایک
نیوٹرل بندہ اور اناڑی لکھاری ہو۔ ملک کے حالات دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا
ہے۔ملک و عوام کی کسی کو پروا نہیں۔ حکمران لوگوں نے پانامہ سے بچنے کے لیے
دن رات ایک کیا ہوا ہے۔
ملک اور عوام کی کسی کو فکر نہیں
امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی پر بھی موجودہ حکومت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر
ہے۔ موجودہ حکومت کو امریکی دھمکی کی بھی کوئی فکر نہیں۔ نا اہل نواز شریف
کو بس ایک ہی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ وہ سب کچھ جانتے ہوئے
بھی سڑکوں چوراہوں پر ایک ہی بات کہتے پھررہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔
تو میاں صاحب آپ نے بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت گرائی تھی۔ آپ نے اکتوبر
1999 میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ جسکے نتیجے میں
قدرت نے آپکو ہی اقتدار سے نکال دیا۔ پیپزپارٹی اور ہر آنے والی حکومتوں کے
خلاف آپ نے بھرپور سازیش کیں۔
اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو بنادیا جن میں
خارجہ کے امور چلانے کی صلاحيت ہی نہیں ہے۔ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد ن
لیگی کو پہلے سے اور اچھی وزارتوں سے نواز دیا گیا ہیں۔ چودھری نثار کو نظر
انداز کردیا گیا۔
ٹرمپ کی دھمکی کے بعد اپوزیشن نے امریکہ کو للکارا کہ امریکہ پاکستان کو
قربانی کا بکرا نہ سمجھے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ مطلب نکل
جانے پر پاکستان کو آنکھیں دیکھاتا ہے۔ اور اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر
ڈال دیتا ہے۔ امریکہ جتنے ڈالرز ایڈ پاکستان کو دیتا ہے۔ پاکستان اس سے کئی
گناہ زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ جنگ امریکہ کی تھی نقصان پاکستان اور قوم نے
اٹھایا۔ چین پاکستان کو کھربوں ڈالرز دینے کے ساتھ ہر شعبے میں پاکستان کو
ترقیاتی منصوبوں پر گامزن کررہا ہے۔ آج تک کوئی ڈکٹیشن نہیں دی۔ امریکہ کو
درد دہشت گردی کا نہیں بلکہ اصل درد امریکہ کو سی پیک منصوبوں کا ہیں۔
امریکہ کی پالیسی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوغلانا رہی ہیں۔ دہشت گردی کے
خلاف پاکستان نے جتنا نقصان اٹھایا ہیں۔ امریکہ کی امداد پاکستان کے
نقصانات کا ازالہ کبھی نہیں کرسکے گی۔ ایک طرف ملک کے اندر انارکی انتشار
کی فضاء تو دوسری طرف بیرونی انتشار کی فضاء سے انا اقتدار اور اختیارات کی
اس جنگ میں نقصان کس کا ہوگا۔ |