برماکی درندہ صفت فوج اورامن کے درس کالبادہ اوڑھے بدھ مت
کے بھکشوؤں کے ہاتھوں ایک مرتبہ پھرمیانمار (برما)سے بیکس روہنگیا مسلمانوں
کے بہیمانہ اجتماعی قتل وغارت کے مناظرنے دلوں کودہلاکررکھ دیاہے
اورانسانیت بھی شرم کے مارے اپنامنہ چھپائے اقوام عالم کے ضمیروں کو جگانے
میں ناکام نظرآرہی ہے۔اب تک تین لاکھ سے زائد بدنصیب روہنگیا کے مسلمان
اپنی جان بچانے کیلئے بنگلہ دیش کی سرحدپرمدد کیلئے سرحدی محافظوں کی منت
سماجت کررہے ہیں۔بالآخر ترکی کے صدرطیب اردگان اورانڈونیشیاکی خصوصی مداخلت
پر تقریباًروہنگیاکے مسلمانوں کوبنگلہ دیش میں عارضی طورپرداخلے کی اجازت
دے دی گئی ہے لیکن اب شنیدیہ ہے کہ اب بنگلہ دیش کی حکومت نے مزید
روہنگیاکے مسلمانوں کوروکنے کیلئے سرحدوں پربارودی سرنگوں کوبچھادیاہے
گویاموت کے خوف سے بھاگنے والوں کیلئے اب یہاں بھی موت استقبال کیلئے
تیارہے۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی میڈیاکے نمائندے نے حسینہ واجدکی جب ان
اقدامات کی طرف توجہ دلائی توانہوں نے انتہائی بے رخی اورسفاکی سے اپنی
موجودہ پالیسیوں کی حمائت کرتے ہوئے روہنگیاکے مظلوم مسلمانوں کوملک میں
داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکارکردیاجبکہ ترکی کے صدرنے ان تمام مہاجرین
کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ضمانت بھی دی ہے۔بنگلہ دیش میں
موجودروہنگیاکے مسلمانوں کیلئے ترکی نے فوری طورپردس ہزار ٹن خوراک بھی
پہنچا دی ہے اورانڈونیشیابھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہاہے۔ پچھلی تین
دہائیوں سے زائدڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیاکے مسلمان پاکستان کے بڑے
شہرکراچی میں پرامن زندگی گزاررہے ہیں اورایک مرتبہ پھر پاکستان نے ترکی
اورانڈونیشیاکے ساتھ اس رفاہی کام میں ہاتھ بٹانے کی یقین دہانی بھی کروائی
ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے میانمارسے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی
کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیاہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائدنوبل انعام
یافتگان نے اقوام متحدہ سے روہنگیاکے مسلمانوں کی مؤثرامداداورمیانمارحکومت
کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ میانمارکی سرکاری فوج اوربدھ
ملیشیامظلوم،مقہوراورنہتے مسلمانوں پرحملوں،بوڑھے،بچے،مردوزن میں کسی کا
امتیاز روانہیں رکھ رہی،جوسامنے آتا ہے اسے بہیمانہ طور پر موت کے گھاٹ
اتار دیا جاتا ہے۔روہنگیامسلمانوں کے گھروں کو جلانے کاکام بھی اب تھوک کے
حساب سے اب تک جاری ہے،اس پر مستزادبھارتی وزیراعظم مودی نے بھی مسلمانوں
کے زخموں پرنمک چھڑکتے ہوئے میانمار کے اس عمل کی حمائت کرتے ہوئے
روہنگیاکے مسلمانوں کومجرم ٹھہرادیاہے ۔
اقوام متحدہ کے ایک ادارے یواین ایچ سی آرکے مطابق ہرطرف ہلاک شدگان کے جسم،
دھڑ، بازو اور سر نظر آرہے ہیں ۔ظلم تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا۔برما کی
بدنصیب اقلیت کے یہ لوگ سرکاری فوج اوربودھ ملیشیاکے حملوں سے بچ کرپناہ کی
تلاش میں خلیج بنگال عبورکرنے کیلئے جن کشتیوں کاسہارالے رہی ہے ،ان میں سے
زیادہ تعدادکے نصیب میں کوئی کنارہ ہی نہیں اوروہ سمندرمیں ہی غرق ہوجاتی
ہیں اوربے شمارلاشیں بے گوروکفن کناروں پردفن ہونے کی منتظرہیں۔ جاں بحق
ہونے والوں میں زیادہ تعدادبچوں اوربوڑھے مرداور خواتین کی ہیں۔اب سمندکے
انہی کناروں پران کواجتماعی قبروں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ میں
سعودی عرب کے وفدکاکہناہے کہ برمی فوج کی طرف سے روہنگیاکے مسلمانوں
پرڈھائے جانے والے مظالم،ان کے قتل عام اوران کی مساجدکی بے حرمتی
پرقراردادپیش کی جائے گی۔ سعودی وفدنے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے
ملاقات کرکے قراردادکے بارے میں آگاہ بھی کیا۔
سعودی وفدنے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سامنے بھی روہنگیامسلمانوں کی
مظلومیت کامعاملہ بھی پیش کیا۔ برطانیہ نے روہنگیاکے مسلمانوں پر ظلم وستم
ختم کرانے کیلئے آنگ سان سوچی سے مثبت کرداراداکرنے کامطالبہ کیاہے ۔
برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا: روہنگیا
مسلمانوں پرمظالم میانمارکی ساکھ خاک میں ملارہے ہیں۔انڈونیشیاکے صدرجوکو
جدودونے کہا:حیرت ہے میانمارکی حکومت کومسلمانوں پر ڈھایاگیاظلم نظر نہیں
آتا،اس بہیمت پرحکومت کی خاموشی بے حدافسوسناک ہے۔ ترک صدراردوگان نے
روہنگیامسلمانوں پرمظالم کونسل کشی قراردیتے ہوئے کہاکہ میانمارکے ہمسایہ
ممالک کی خاموشی انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔جن لوگوں نے جمہوریت کی
آڑمیں اس نسل کشی پرآنکھیں بند کرلی ہیںوہ بھی شریک جرم ہیں۔پوپ فرانس نے
روہنگیامیں مسلمانوں پرظلم وستم کی مذمت کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں کوان کے
گھروں سے نکال باہر پھینک دیاگیاجبکہ وہ سب اچھے اورامن پسندلوگ ہیں۔وہ
ہمارے بھائی ہیں۔
سوشل میڈیاپرحکمران جماعت کی لیڈراورامن کانوبل انعام حاصل کرنے والی خاتون
آنگ سان سوچی پرشدیدتنقیدکی جارہی ہے۔انسانی حقوق کے لئے سرگرم حلقوں
کاکہناہے کہ سوچی اپنی مجرمانہ خاموشی کی بناء پرانعام کی حقدارنہیں رہیں
اوراب تک انٹرنیٹ پرجاری اس مہم میں تین لاکھ سے زائدافراد نے ان سے یہ
انعام واپس لیناکامطالبہ کیاہے اور ہر آئے دن اس تعدادمیں اضافہ ہوتاجارہا
ہے ۔برطانوی جریدے'' گارجین'' سے گفتگوکے دوران روہنگیامسلم خواتین نے اپنی
جو بپتاسنائی وہ ہردردمندبالخصوص صاحب اولاد کیلئے رنج والم کی ناقابل
فراموش داستان ہے۔ستم رسیدہ خاتون نور عائشہ نے بتایا:میری آنکھوں کے سامنے
میرے شوہراورمیرے سات لخت جگروں کے ٹکڑے کردیئے گئے اورمجھے رونے اور چیخنے
کی بھی اجازت نہیں تھی۔بنگلہ دیش کے پانیوں میں کشتی پرسواراپنی آخری زندہ
بچ جانے والی بیٹی کوسینے سے لپٹائے نورعائشہ بتارہی تھی کہ وہ اپنے پیچھے
ایک جلا ہواگھر،بیدردی سے قتل کیاگیاشوہراورسفاکی سے قتل کئے گئے سات بیٹے
اوراپنی حرمت پامال کرنے والے فوجی چھوڑکرآرہی ہے۔
ایک اورچالیس سالہ مظلوم مسلم خاتون نے بتایا:میرے گھرپربیس فوجیوں نے حملہ
کیااورہم سب کوصحن میں جمع کرلیا ۔ظالم حملہ آورفوجیوں نے میرے پانچ بیٹے
ایک کمرے میں بند کرکے اس کمرے پربم پھینک کرآگ لگادی ،میرے پانچوں بیٹے
زندہ جل گئے اوراس کے بعدفوجیوں نے مجھے سامنے ستون سے باندھ دیااورمیری
آنکھوں کے سامنے میری دو بیٹیوں کواپنی ہوس کانشانہ بنایا اوربعدمیں قتل
کردیا۔آخرمیں انہوں نے میرے شوہرکوقتل کردیا۔میری صرف پانچ سالہ بیٹی
دلنوازبیگم زندہ بچی جوفوجیوں کے حملے کے باعث ہمسایوں کے گھر جاچھپی
تھی۔ایک اوربتیس سالہ مظلوم سعیدہ خاتون نے بتایاکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ
ہے اوران کے گاؤں پرحملہ کرنے والے فوجی اسے گن پوائنٹ پرایک میدان میں لے
گئے۔انہوں نے وہاں تقریباًتیس خواتین کوجمع کررکھا تھا۔ان میں سے پندرہ خوش
شکل لڑکیوں کوفوجیوں نے الگ کیا اورنامعلوم مقام پرلے گئے جبکہ باقی پندرہ
خواتین کواسی صحن میں زیادتی کانشانہ بناکرگولیوں سے بھون دیااورخوش قسمتی
سے میں ان خواتین کی لاشوں کے ڈھیرکے نیچے آنے سے بچ گئی۔ ایک اورمظلوم
عورت نورحسین نے بتایا:برما کے فوجیوں نے بدھ دہشتگردوں کے ساتھ مل کراس کے
گاؤں پرحملہ کیااور سوسے زائد خواتین کواپنی ہوس کا نشانہ بنایاجس کے
بعدپچیس خواتین کوقتل کردیاگیا۔ان کے ۸۵۰گھروں اور چالیس مردوں کے چھریوں
سے گلے کاٹ کرزندہ جلادیا۔
برطانوی اخبار''انڈی پنڈنٹ''کے مطابق ۴۱سالہ عبدالرحمن نے بتایاکہ اس کے
گاؤں کے مردوں کوگھیرکرایک جھونپڑی میں بندکرکے تیل چھڑک کرآگ لگا دی گئی
جس میں میر ا نوجوان بھائی بھی شامل تھا۔ان سب کی آسمان سے چھوتی ہوئی
دردناک چیخیں آج بھی میراتعاقب کررہی ہیں اورمجھے سونے نہیں دیتی۔ میرے
دوبھتیجوں جن کی عمریں چھ اورنوبرس تھیں ،ان کوہمارے سامنے ذبح کرکے سرکاٹ
دیئے گئے،میری خواہرنسبتی ان کوبچانے کیلئے جونہی آگے بڑھی تواس کوگولی
مارکرہلاک کردیا۔ہم نے بہت سے جلی کٹی سوختہ لاشیں دیکھیں جنہیں انتہائی
بیدردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاراگیاتھا۔۲۷سالہ سلطان نے بتایامیں اپنی جان
بچانے کیلئے اپنے گھرکے پچھلے کمرہ میں چھپ گیاتھا، وہاں میں نے اپنی
آنکھوں سے اپنے بعض بھائیوں کے سرقلم ہوئے دیکھے جن کودیکھ کرمیں بیہوش
ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کتنی دیروہاں رہا،آنکھ کھلنے پرچھپتے چھپاتے
یہاں پہنچاہوں۔
بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ وپاسداری کاآج پوری دنیامیں ہمیشہ سے زیادہ
غلغلہ ہے مگرنت نئے روزانسانی قوت ہی نہیں انسانی جانوں اوراموال کے اتلاف
کی دل دہلادینے والی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ایسے روح فرسامناظردیکھ کر
کلیجہ منہ کوآنے لگتاہے۔یقیناًروہنگیاکے مسلمان دنیاکے مظلوم ترین مخلوق
ہیں جوبدھوں کےغیرانسانی مظالم کاشکارہوئے ہیں۔غیرملکی میڈیاکے مطابق
میانمار کے صوبے رخائن میں گزشتہ چندہفتوں سے ایک بارپھر جو مسلمانوں کی
نسل کشی شروع ہوئی ہے،اس میں کم وبیش بیش تیس ہزارافرادکے لقمۂ اجل بننے
کی تصدیق ہوچکی ہے۔اب دنیابھرکے مسلمان سوچ رہے ہیں کہ کیاآج پوری امت
مسلمہ میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسانہیں جومسلمانوں کوکھویاہوا کردار
واپس دلاسکے؟ |