اسگند ناگوری (Withania somnifera)
(جنسنک کا بہترین اور سستا متبادل ----- دیسی جنسنک)
تعارف : اسگند کو اردو میں "اسگند" ، ہندی میں" اسگندھ" اور سنسکرت میں"
اشوگندھا" ، عربی میں" عبعب منوم" ، فارسی میں "کاکنج ہندی" ، پنجابی میں
"آکسن" اور انگریزی میں"وتھانیا" (Withania) کہا جاتا ہے ۔ اسے" انڈین جن
سینگ" بھی کہا جاتا ہے۔اسگند کا نباتی نام (Withania somnifera (L) Dunal)
ہے ۔ " وتھانیا " (Withania) اس کی نوع (Genus) ہے ۔اس نوع کا تعلق پودوں
کے ایک مشہور خاندان "سولین ایسی" (Solanaceae) سے ہے ۔ اس خاندان میں 84
انواع اور تقریبا 3000 اصناف(Species) پائی جاتی ہیں۔ اس کی دو انواع
"وتھانیا" (Withania) اور"فائسالس" (Physalis) اہم ہیں جو طبی افادیت رکھتی
ہیں۔نوع "وتھانیا" کی 23 اصناف (Species) دنیا کے گرم خشک علاقوں
جزائرکناری ، بحرروم کے کنارے کے ممالک،شمالی افریقہ اور جنوب مغربی
ایشیامیں پائی جاتی ہیں ۔ ان میں صرف دو اصناف "وتھانیا سومنیفرا "
(Withania somnifera (L) Dunal) اور
"وتھانیا کواگولینز" (Withania coagulans) اہم ہیں جو طبی افادیت کی حامل
ہیں اور طبی طور استعمال اور کاشت کی جاتی ہیں ۔ برصغیر میں
"وتھانیاسومنیفرا" (Withania somnifera) اسگند کے نام سے معروف
ہے۔سومنیفرا(somnifera) لاطینی لفظ ہے جس کے معنی نیند کے ہیں یہ اس پودے
کی ایک اہم خصوصیت "منوم" یعنی نیند لانے والی دوا کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
Physalis somnifera L، Withania kansuensis Kuang & A. M. Lu ، Withania
microphysalis Suess. اس کے متبادل سائنسی یا نباتی نام ہیں ۔ برصغیر کے
حوالےسے یونانی طبی لٹریچر میں اس کی دو اقسام کا ذکر ملتا ہے ۔ایک
اسگندناگوری ، دوسرے اسگند دکنی ۔اسگند ناگوری کو بہتر اور میعاری مانا
جاتاہے ۔یہ بھارت کی ریاست راجھستان کے شہر "ناگور" میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی
لئے اس کے ساتھ ناگوری کا لاحقہ عموما لگایا جاتا ہے۔اسگندناگوری (Withania
somnifera) اور "فائسالس الکی کنجی" (Physalis alkekengi) دونوں کو انگریزی
میں "ونڑ چیری" (winter cherry) کہا جاتا ہے۔یہ دونوں مختلف پودے ہیں اس
لئےمشترکہ نام سے کنفیوز نہ ہوں۔اس کا سنسکرت نام اشوگندھا (گھوڑے کی بو
والی) اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس کی تازہ جڑ سے یا خشک جڑ کو پانی میں
بھگونے سے گھوڑے جیسی بو آتی ہے ۔ اس کی جڑوں ، پتوں اور پھل میں طبی اوصاف
پائے جاتے ہیں لیکن اس کی جڑوں کا استعمال روایتی طبوں (ایوویدک اور یونانی
طب) بہت زیادہ ہے ۔ یہ جڑیں خشک حالت میں پنساری کے ہاں با آسانی دستیاب
ہوتی ہیں ۔ اس کے پتے اور پھل نسبتا کم استعمال ہوتے ہیں ۔اس کے طبی اوصاف
جڑوں کے حوالے ہی سے مشہور ہیں ۔ جنسنگ کے ساتھ اس کے طبی اوصاف کا موازنہ
بھی اس کی جڑوں کے حوالے سے ہی کیا جاتا ہے۔انہی اوصاف کی وجہ سے اسے
"انڈین جنسنگ" کہا جاتا ہے ۔یہ جنسنگ کا سستا اور بہترین متبادل ہے ۔یاد
رہے کہ جنسنگ کی جڑیں ہی بطور دوا استعمال ہوتی ہیں۔
تخم حیات یا پنیرڈوڈی (Withania coagulans)
"وتھانیا " (Withania) نوع کی دوسر ی اہم صنف جو طبی طور پر معروف ہیں جس
کا نباتی نام"وتھانیا کواگولینز"
(Withania Coagulans) ہے۔ اسے طبی زبان میں "تخم حیات"کہا جاتا ہے ۔ اس کے
دیگر نام "پنیربوٹی"، "پنیرڈوڈی " یا
"پنیر ڈوڈا" ہیں ۔ پنجابی میں اسے "خم زیرا " یا " خم جیرا" ، ہندی میں
"اکری" سندھی میں "پنیربند" ، فارسی میں "پنیر باد" اور انگریزی میں "ویجی
ٹیبل رینٹ "کہا جاتاہے ، پنیر ڈودی یا تخم حیات کا پودا پاکستان (سندھ ،
بلوچستان،میانوالی ، ڈیرہ غازی خان، کوہاٹ اور پشاور) ، مشرقی بھارت ،
افغانستان اور ایران میں عام پایا جاتا ہے ۔اس کے بیج اسگند کے بیجوں کی
طرح گول گول لیکن ذرا بڑے ہوتے ہیں ۔اس کے پودے کا قد رس بھری سے نصف ہوتا
ہے۔ان پر رس بھری کی طرح سفیدغلاف ہوتا ہے غلاف کے اندر باریک لیس دار بیج
ایک دوسرے سے چپکے ہوتے ہیں۔ذائقہ قدرے تلخ ترشی مائل اور بو میں بساندھ
ہوتی ہے۔ روایتی طب میں اس کا استعمال بھی عام ہے ۔اسے نباتی خمیربھی کہا
جاتا ہے ۔برصغیر کے لوگ پنیر بنانے کے لئے اسے دودھ پھاڑنے کے لئے اسے
صدیوں سے استعمال کرتےآرہے ہیں ۔ چارپانچ دانے پوٹلی میں باندھ کرآدھ سیر
ٹھنڈے دودھ میں بھگو دیں یا ان کو پانی یا دودھ میں رگڑ کر دودھ میں ڈال
دیں تو آدھے گھنٹے کے بعد اعلیٰ قسم کا دہی تیا ر ہوجاتا ہے پنیر ڈوڈی سے
جما ہوادہی کھانڈ ملاکر کھلانا جریان احتلام سیلان الرحم کے اکثر مریضوں کو
نافع ہے۔ یہ بیج ہاضم اور کاسرریاح (گیس ختم کرنے والے) ہیں۔ ایک دودانے
پانی میں بھگو کر رس نکا ل کر شیرخورا بچوں کو پلانے سے بد ہضمی نفخ دردشکم
دور ہوجاتے ہیں۔ ۔پیٹ میں ریاحی درد ہو تو چند دانے ہمراہ نیم گرم پانی
کھلانے سے فوراًتسکین ہوتی ہے۔اجوائن، پنیر ڈوڈی ، سفیدپودینہ ہم وزن لے کر
کوٹ چھان لیں اوربعد میں اس میں حسب ضرورت کالانمک ملا کر استعمال
کریں۔آدھا چمچ چائے والا کھانے کے بعد صبح و شام کھانے سے گیس کے ساتھ قبض
بھی ختم ہوجائے ۔
ذیابیطس مریضوں میں خون میں شوگر کی سطح کو نارمل رکھنے میں اس کی افادیت
مسلم ہے۔اس کے استعمال سے لبلبہ کے بیٹا خلیات کی مرمت ہوتی ہے خون میں بڑی
ہوئی شکر (گلوکوز) کوتیزی سے کم ہوتی ہے۔گلوکوز کے استعمال میں بہتری آتی
ہے ۔ نشائیات (کاربوہائیڈریٹ ) کے استحالہ میں بہتری پیدا ہوتی ہے ۔ اس
مقصد کے لئے 5 سے 8 بعد میں 9 تا 10 پھول چوتھائی شیشے کے گلاس پانی میں
رات کو بھگو دیں ،صبح مل چھان کو نہار منہ پی لیں۔ناشتہ آدھے گھنٹہ بعد
کریں ۔شروع میں اسے اکٹھا پینا مشکل ہوتا ہے، ایسے میں اسے تھوڑا تھوڑا کر
کے پی لیں۔اس خیساندہ کو فریج میں نہ رکھیں ۔
اسگند ناگوری بنیادی طور پر یہ خودرو پودا ہے جو باغوں ، کھیتوں اور
جنگلوں، سڑکوں کے کنارے اور خالی جگہوں میں خودرو پیدا ہوتا ہے۔یہ برصغیر
کے خشک اور معتدل علاقوں میں عام پایا جاتا ہے۔پاکستان اور مغربی ہند کے
تمام علاقوں عام ملتا ہے لیکن آسام اور بنگال میں نہیں پایا جاتا۔ بہت سے
علاقوں مثلا پنجاب ، سندھ ، راجھستان ، کیرالہ اور، گجرات میں اسے کاشت بھی
کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اورعمدہ اسگند ناگور میں پیدا ہوتی ہے۔ ناگور کی
اسگند طبی طور پرمعیاری بھی سمجھی جاتی ہے اور اسگند ناگوری کے نام سے
معروف ہے۔اسگند کا پودا بحر روم کے کنارے کے ممالک میں بھی عام پایا جاتا
ہے۔اس کے علاوہ اس کا پودا نیپال ، چین ، افریقہ، ترکی ، عراق ، شام اور
جنوبی ایران ، فلسطین اور یمن میں بھی ملتا ہے۔یمن میں اسے "عبعب" کہا جاتا
ہے۔اب اسے یورپ میں بھی کاشت کیا جارہا ہے۔ اس کا پودا 40 ڈگری سینٹی گریڈ
سے لے کر 10 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے
۔ یہ سطح سمندر سے 1500 میٹر بلندی تک پھلتا پھولتا ہے۔ اس کا پودا تقریبا
ڈیڑھ میٹر تک بلند ہوتا ہے ۔شاخیں باریک ہوتی ہیں اورپتے ، بیضوی ، موٹے
اور ان کی رگیں شفاف ہوتی ہیں یہ سرے پر آکر یک لخت نرکدار ہو جاتے ہیں۔ 5
سے 10 سنٹی میٹر لمبے، 2.5 سے 5 سینٹی میٹر چوڑے اور پھول سبزی مائل یا
ہلکے زرد رنگ کے اورگھنٹی کی شکل کے ہوتے ہیں ۔اس کے پتوں اور شاخوں پر
رواں ہوتاہے اس کی وجہ سے ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے ان پر گرد جمی ہوئی ہے۔اس
کا پھل چھوٹا اور نارنجی سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔اسے پنیر کی تیاری میں استعمال
کیا جا سکتا ہے۔ طب میں عام طور پراس کی جڑیں بطور دوا استعمال ہوتی ہیں
اور یہی جڑیں اسگند کے نام سے بازار میں دستیاب ہوتی ہیں ۔ان کی ظاہری سطح
ہلکے بادامی رنگ اور اندر سے سفیدی مائل ہوتی ہے۔یہ جڑیں نازک ہوتی ہیں اور
توڑنے پر جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ان کی بو تیز اور مزہ تلخ (کڑوا) ہوتا ہے۔ان
جڑوں کو جنوری سے مارچ کے درمیان اکٹھاکرکے سایہ میں خشک کیا جاتا ہے ۔ ان
جڑوں کی قوت اور تاثیر دو سال تک قائم رہتی ہے۔ اس کے بعدا ن کی افادیت ختم
ہوجاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بھرپور فوائد حاصل کرنے کے لئے تازہ
جڑوں یا ایسی جڑیں جنہیں خشک کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو ، کا استعمال
کیا جائے ۔یہ جلد خراب ہونے کا رجحان رکھتی ہے اس لئے اس بات کااطمینان
کرلیا جائے کہ یہ کرم خورہ (کیڑا لگی) اور بوسیدہ نہ ہو کیونکہ کرم خورہ
جڑیں زہریلا اثر رکھتی ہیں۔ اسگند صدیوں سے ہر عمر کے لوگوں ، عورتوں اور
مردوں حتی کہ حاملہ عورتوں میں بغیر کسی ضمنی اثرات کے استعمال کی جارہی
ہے۔
برصغیر میں پاک وہند میں خودرو پیدا ہونے والا انتہائی اہمیت کا حامل یہ
پودا، اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے ویدک طب میں اس کا استعمال ہزاروں
سال سے کیا جارہا ہے ۔ یونانی اطباء طبی لٹریچر میں بھی اس کا تذکرہ صدیوں
پرانا ہے ۔ آج کل یہ ایلوپیتھی طریقہ علاج کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔مسکن
(اعصاب سکون دینےوالی) ، منوم ( نیند لانے والی ) بالخصوص دردوں کو رفع
کرنے والی نقصان دہ اثرات کی حامل جدید کیمیائی ادویات کے مقابلے میں اسگند
ایک محفوظ دوا کے طور پر متعارف ہورہی ہے۔اسی لئے اسےیورپ میں بڑی محنت سے
کا شت کیا جارہا ہے اور اس کا جوہر نکال کر مختلف مسکن اعصاب اور دافع درد
جدید دواؤں میں استعمال کیا جارہا ہے۔دردوں کے علاج میں اس کی اہمیت اس لئے
بڑھ گئی ہے کہ جدید کیمیائی ادویات دردوں کو رفع کرنے کے ساتھ انتہائی مضر
اثرات بھی مرتب کرتی ہیں نیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدن اس کا عادی ہوتا
چلا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کی مقدار خوراک میں اضافہ کرنا پڑتا ہے
بڑھتی ہوئی خوراک سےمزید پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں علاوہ ازیں انہیں ترک کرنے
سے تکا لیف دوبارہ لوٹ آتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اسگند ازالہ درد ،
اعصاب کو سکون دینے کے ساتھ بدن پر منفی کی بجائے مثبت اثر ڈالتی ہے ۔
اسگند دافع درد ہونے کے ساتھ پیشاب آور بھی ہے اس لئے درد پیدا کرنے والے
مادوں کو بدن سے خارج کردیتی ہے اس لئے جدید ادویات کے مقابلے میں اس کا
اثر وقتی نہیں ہوتا بلکہ اس کے متواتر استعمال سے یہ تکالیف بفضل ربی مستقل
طور پر رفع ہوجاتی ہیں۔
مسکن اعصاب اور کسی حد تک منشی ہونے کی وجہ سے اعصابی دردوں ، اعصاب کے
کچھاؤ ، بے خوابی میں اس کا استعمال ان علامات میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ
متواتر استعمال سے ان سے مستقل نجات مل جاتی ہے، اعصابی کچھاؤ ، عصبی دروں
کا مریض نہ صرف سکون محسوس کرتا ہے بلکہ اس تقویت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ اس
لئے عصبی بے چینی اور حافظہ کو تیز کرنے کے لئے اعتماد کے ساتھ استعمال کیا
جا سکتا ہے۔
مسکن درد ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دافع سوزش بھی ہے نیز اس کے استعمال سے
ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اس لئے یہ وجع المفاصل(جوڑوں کے درد— polyarthritis)،
گنٹھیا ، درد کمر-- lumbago) (مہروں کا ہل جانا اور ان وجہ سے ہونے والے
درد) میں وقتی فائدہ کے ساتھ مستقل فائدہ کا باعث بھی ہے۔ ویدک اورطب
یونانی میں اسے مقوی اعصاب ، مقوی باہ ، مولد کرم منی ، دافع جریان و سیلان
، مقوی رحم و محافظ حمل ، مولد خون (خون پیدا کرنے والی) ، صحت بخش یعنی
بطور مقوی عام (جنرل ٹانک) ،اور تسہیل ولادت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اسگند ، اولاد کے خواہشمند لوگوں کے لئے خوشی کی نویدہے۔اس کے استعمال
عورتوں اور مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔قدرت نے
اس میں مرد و زن دونوں کے تناسلی اعضاء کے نقائص دور کرنے کی صلاحیت رکھی
ہے ۔ اس کے استعمال سے مردوں میں کرم منی صحت مند ہوجاتے ہیں اور ان کی
پیدائش میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے علاوہ ازیں قوت باہ پر بھی اس کے اچھے
اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔چونکہ مقوی رحم و محافظ حمل ہے اس لئے یہ رحم کے
عضلات کو طاقت دے کر اسقاط حمل روکنے میں معاون ہے۔ اس کے مسلسل استعمال سے
اسقاط کا اندیشہ نہیں رہتا ۔دافع جریان اور سیلان ہونے کی وجہ سے اس کا
استعمال پیشاب کے ساتھ لیسدار رطوبات کے اخراج روک دیتا ہے۔مادہ منویہ
گاڑھا اور نقائص پاک ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح عورتوں میں اس کے استعمال سے
سیلان الرحم (لیکوریا) کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سفوف چار ماشہ روزانہ
صبح شکر اور دودھ کے ہمراہ کھلانا معین حمل ہے۔ بعد وضع حمل کے عورتوں کو
بالخصوص دینا چاہیے
اسگند آئرن (لوہا) سے بھرپور مقوی عام (جنرل ٹانک) اور خون پیداکرنے والی
ایسی دوا ہے جو نظام ہضم کی اصلاح کر کے غذا کر جزو بدن میں انتہائی معاون
ہے۔اس کے استعمال سے نہ صرف عام صحت بہتر ہوجاتی ہے بلکہ خون کی کمی کا
ازالہ ہوکر چہرے پر سرخی آجاتی ہے چہرہ بارونق اور جاذب نظر ہوجاتا ہے ،
کمر مضبوط ہوتی ہے، بدن فربہ ہوتا ہے ، دبلے پتلے اور لاغر ونحیف جسم کو
ایک نئی زندگی ملتی ہے ۔اسی لئے بیماری کے بعدکمزوری کے ازالہ کے لئے ،
ضعیف حضرات ، سوکڑہ ( مراسمس) میں مبتلا لاغر اورسوکھے ہوئے بچے یا ایسے
بچے جن کی جن کی نشوونما نہ ہورہی ہو کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔پست ہمت اور
جلد تھک جانے والے کمزور صحت والےحضرات بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ یہ
بچوں اور عمررسیدہ افراد کے لئے زبردست ٹانک ، جوانوں کے لئے مقوی باہ دوا
ہے۔
خون میں بڑھی ہوئی شکر کو کم کرنے والے اجزاء بھی اس میں موجود ہيں ۔ تپ دق
(ٹی بی) میں مبتلا لوگوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ بدہضمی ، بھوک کی
کمی جیسے امراض کے لئے بھی بہت مفید ہے ۔اس کی جڑ کے جوشاندہ سے پیٹ اور
آنتیں صاف ہوجاتی ہیں۔قروح معدہ (معدہ کا السر) میں، تبخیر معدہ ، بواسیر
کے علاج میں بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس کی جڑ کا جوشاندہ پیٹ اور آنتوں کو صاف کرتا ہے۔ اس کے پتے سخت تلخ اور
مصفی خون ہوتے میں اور جوشاندے کی شکل میں بخاروں کے علاج میں استعمال ہوتے
ہیں۔اسگند کا سفوف س کی تازہ جڑ یا تازہ پتوں کالیپ ایسے پھوڑوں کو نرم
کرنے اور مواد خارج کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں جو سخت ہو گئے ہوں ۔
خلاصہ :
ویدک میں اسے رسائن(ایسی دوا جو بڑھتی عمر کے اثرات کو زائل کرکے جوانی کی
طرف لوٹائے) کہا جاتا ہے اس لئے اعادہ شباب کے لئے استعمال ہونے والی
ادویات میں اسے ممتاز حیثیت اور خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس کو باقاعدہ استعمال
کرنے والوں میں بڑھاپے کی علامات دیر سے شروع ہوتی ہیں ۔ اس کے استعمال سے
جسمانی کمزوری دور ہوتی ہے ، تھکاوٹ کا خاتمہ ہوتا ہے ۔خون اور دوسرے اہم
سیالات بد ن کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ قوت مدافعت بڑھتی ہے ، قوت باہ میں
اضافہ ہوتاہے ،مادہ منویہ کی پیدائش اور کرم منی کی تعداد اور صحت میں
اضافہ ہوتاہے ، عورتوں اور مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں بہتری
آتی ہے ۔ حاملہ خواتین کی صحت بہترہوتی ہے ۔اداسی ، خوف ، تشویش ، ڈیپریشن
، ٹینشن، جو بڑھاپا آنے کا اہم سبب ہیں ، کا خاتمہ ہوتا ہے۔ نظام ہضم کی
اصلاح ہوتی ہے، جگر کا فعل درست ہوتا ہے، کھایا پیا جزو بدن بنتا ہے ۔بالوں
کی سیاہی واپس آنا شروع ہوجاتی ہے ، ہڈیاں اور عضلات قوت پکڑتے ہیں، ہلتے
دانت مضبوط ہوتے ہيں، لاغری (دبلاپن) دور ہوکر وزن بڑھتا ہے ، جھریو ں کا
خاتمہ ہوتا ہے ، اعصاب کو تقویت ملتی ہے، یاداشت بہتر ہو جاتی ہے ، دماغی
کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ غرض کہ ڈھلتا شباب واپس لوٹ آتا ہے ۔اس حوالے
اس کے خواص کوریائی / چینی جنسنگ( پینکس جنسنگ) سے مشابہ ہیں اسی وجہ سے
اسے انڈین جنسنگ بھی کہاجاتا ہے ۔ جنسنگ ایک مہنگی بوٹی ہے اور عام دستیاب
بھی نہیں ۔ اسگند اس کا بہترین بدل ہے جو عام دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ
ارزاں (سستی) بھی ہے۔
جدید تحقیقات ان تما م خواص کی تائید کرتی ہیں۔جدیدتحقیقات کے نتیجے میں اس
کے نئے خواص بھی سامنے آئے ہیں ۔ یہ دافع سرطان خصوصیات کی بھی حامل ہے۔یہ
دافع سوزش ہے اور مدافعتی نظام کو تقویت دیتی ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
کیمیائی اجزاء :
اسگند (Withania somnifera) میں 80 سے زائد کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں
جو کہ الکلائیڈز) (alkaloids ،سٹوآئینوسائیڈز اور سٹرائیڈز (steroids)
جنہیں وتھانولائیڈز (withanolides) اور وتھافیرنز (withaferins) کہا جاتا
ہے ۔یہ زیادہ تر اس کے پتوں اور جڑوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی جڑوں میں 35
سے زائد کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ یہ کیمیائی اجزاء الکلائیڈز
،(آئسوپیلرٹائرائن ، اینفرائن) سٹیرائیڈل لیکٹونز(وتھانولائیڈز ،
وتھافیرنز) سیپوننزوغیرہ ہیں ۔ اسگند ناگوری میں لوہا(آئرن) بھی وافرمقدار
میں پایا جاتا ہے۔
وتھانولائیڈز کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی مرکب اسگند کی بیشتر طبی
خصوصیات کا باعث ہے۔یہ مرکب ایشیائی (کوریائی) جنسینک میں موجود
جینسنوسائیڈز کے ساتھ شکل وشبہاب اور افعال بہت مماثلت رکھتاہے۔ یہ سٹریس
کو ختم کرتا ہیں ، طاقتور دافع تکسید (اینٹی آکسیڈینٹ) ہے اور بدن کو سرطان
جیسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مطالعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں
موجود سٹرائیڈز دافع سرطان اور دافع سوزش خصوصیات کے حامل ہیں اور یہ سفید
ذرات خون لمفوسائیڈز، فیگوسائیڈ اور نیوٹروفل کی پیدائش کو بڑھا کر مدافعتی
نظام کو تقویت فراہم کرتے ہیں ۔ سٹوآئینوسائیڈز بھی مدافعتی نظام کی تقویت
کا باعث ہے ۔
الکلائیڈز مسکن اور دافع تشنج ہیں یہ فشارخون کو کم کرتے ہیں ۔ اختلاج قلب
کو کم کرتے ہیں۔خون کے سرخ ، سفید ذرات اور پلیٹیلیٹ کی پیدائش بڑھاتے خون
میں کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں۔ان مرکبات کے علاوہ اس میں غذائی اجزاء بھی
پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی جڑیں بچوں اور بڑوں میں جسمانی کمزوری
اور غذائیت کی کمی دور کرنے کے لئے مشہور ہیں۔
وتھافیرن ایک طاقتور دافع نقرس دافع سوزش خصوصیات کا حامل ہے۔ دافع سوزش
خصوصیت اسگند میں موجود سٹرائیڈز کی طرف منسوب ہے جو کہ وتھافیرن کا بڑا
جزو ہے۔ یہ ہائیڈروکارٹیسون سوڈیم سسینیٹ کی طرح کام کرتا ہے۔یہ وجع
المفاصل (جوڑوں کا درد) میں کسی قسم کے سمی (زہریلے) اثر کے بغیر کافی مؤثر
ہے ۔یہ ہائیڈرو کارٹیسون کی نسبت زیادہ طاقتور اور مؤثر نظرآتا ہے۔ وجع
المفاصل میں ہائیڈرو کارٹی سون کے استعمال سے وزن میں کمی ہوتی ہے جبکہ
وتھافیرن کے استعمال سے مریض وزن میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک جنرل
ٹانک بھی ہے۔
اسگند بدن پرعمررسیدگی (اینٹی ایجنگ) کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے بھی
بہترین ہے ۔50 سے 59 سال کے 101 عمررسیدہ افراد کو 3 گرام اسگند کا سفوف
روزانہ ایک سال تک بطور دوادیاگیا۔ اس کے استعمال سے ان کے ہیموگلوبن میں
واضع طور پر بہتری آئی ، خون کے سرخ ذرات میں اضافہ ہوا، بالوں کی رنگت
سیاہی مائل ہوئی ۔جسمانی ڈیل ڈول اچھا ہوا۔ سیرم کولیسٹرول میں کمی واقع
ہوئی اور ناخنوں کا کیلشیم محفوظ ہوا۔70 فیصد افرادکی جنسی کارکردگی میں
بہتری آئی ۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اسگند واضع طور پر اینٹی سٹریس اور دافع تشویش
اثرات رکھتی ہے۔ یہ جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کوبہتر کرتی ہے۔ یا داشت پر
اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہیجان ، بے چینی اور ذہنی دباؤ ، اداسی‘
دل برداشتہ ہونا‘ تفریح میں کمی‘ فیصلے کرنے میں مشکلات‘جسمانی تھکن‘بے
چینی ‘چڑچڑاپن‘بھوک میں کمی ‘وزن کا گھٹنا ‘نیند میں کمی‘ جنسی دلچسپی میں
کمی‘خود اعتمادی کی قلت‘ خود کشی کے خیالات وغیرہ ڈیپریشن کی علامات ہیں
۔اسگند ناگوری ڈیپریشن میں خصوصیت سے مفید ہے ، طبیعت میں سکون پیدا کرتی
ہے۔ ڈپریشن کی علامات میں سے متاثرہ افراد کو یادداشت ختم کر دینے والی
بیماری الزائمر لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ الزائمر ایک دماغی
بیماری ہے جس سے بہت آہستگی کے ساتھ متاثرہ فرد اپنی یادداشت کھودیتا ہے۔اس
طرح اسگند ایلزائمرعلاج بھی ہے اور تحفظ کا ایک ذریعہ بھی۔اسگند برصغیر میں
ایک محفوظ نیند آور دوا کے طور پرجانی جاتی ہے۔ یہ ایسی منوم (نیند آور)
دوا ہے جس میں دواؤں کے مضر اثرات زائل کرنے والی خصوصیات بھی پائی جاتی
ہیں یہ خصوصیت سے نظام عصبی اور تناسلی اعضاء پر اثرانداز ہوتی ہے۔ محافظ
ومقوی اعصاب خصوصیات کی وجہ سے اعصاب کے انحطاط کوبھی کم کرتی ہے اس لئے
عصبی انحطاط سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلا پارکنسن ، مرگی ، ایلزائمر،
پراگندہ ذہنی (شیزوفیرنیا) ، ڈیمنیشیا، یاداشت کا ضیاع ، سٹریس ،تشویش خوف
وغیرہ میں انتہائی مفید ہے ۔ اس کا لمبے عرصے تک استعمال فالج سے تحفظ
ذریعہ بھی ہے ۔
اسگند کے استعمال سے خون کے سرخ اور سفید ذرات کی پیدائش بڑھ جاتی ہے اس
لئے اسگند خون کی کمی (انیمیا) کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔جسمانی کمزوری اس
کے استعمال سے دور ہو جاتی ہے اور عام صحت بہتر ہو جاتی ہے اور وزن میں
اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی یہ حیثیت اور اہمیت بالکل ایسے ہی ہے جیسے چین میں
جنسنگ کی ہے۔ سرخ ذرات کے ساتھ اس کے استعمال سے خون کے سفید ذرات
،لمفوسائیڈز، فیگوسائیڈ ، نیوٹروفل اور پلیٹیلس کی تعداد بھی پیدائش بڑھتی
ہے اس لئے قوت مدافعت (ایمیونٹی) مضبوط ہوتی ہے۔
اسگندکے استعمال سے خون میں موجود چرپیلے اجزاء ( ٹوٹل لیپڈز----کولیسٹرول
اور ٹرائی گلیسرائیڈ) کی سطح کم ہوتی ہے اورکثیف کولیسٹرول (ہائی ڈینسٹی
کولیسٹرول) کی سطح بلند ہوتی ہے۔اس کےساتھ ساتھ دافع سٹریس ،دافع سوزش ،
دافع تکسید ، خصوصیات کی وجہ سے یہ قلبی امراض سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔
اسگند بہت اچھی دافع تکسید ہے جو استحالہ کے دوران پیدا ہونے والے فری
ریڈیکل کو معتدل بناتی ہے اور بدن سے نکالتی ہے۔یہی فری ریڈیکل سرطان کا
باعث بنتے ہیں اس طرح یہ سرطان سے تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ اسگند سرطان کے
علاج میں کیموتھراپی اور ریڈی ایشین کے ہمراہ ایک متبادل کے طور پر متعارف
ہو رہی ہے۔ یہ کیموتھراپی اور ریڈی ایشن کے مضر اثرات کو بھی کم کرتی ہے۔
اسے پراسٹیٹ کینسر اور پھیپھڑوں کے کینسرکی آخری سٹیج میں بھی فائدہ مند
پایا گیا ہے۔
دافع درد اور دافع سوزش ہونے کی وجہ سے وجع المفاصل ، نقرس اور عام دردوں
کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ عضلاتی استخوانی مسائل مثلا وجع المفاصل اور
نقرس میں بہت فائدہ مند ہے۔ اسگند سائیکلوآکجسنیٹ انہیبیٹر کی طرح کام کرتے
ہوئے سوزش اور درد کم کرتی ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کی یہ خصوصیات اس میں
موجود الکلائیڈز ، سیپوننز اور سٹرائیڈل لیکٹونز کی وجہ سے ہے۔ اسے ہڈیوں
بھربھرے پن (آسٹیوپوروسس) میں معاون دوا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
۔یاد رہے کہ اگر کیلشیم کی ضرورت ہوتو میڈیکیٹڈ کیلشیم کی بجائے قدرتی
کیلشیم استعمال کریں یعنی کشتہ بیضہ مرغ ، کشتہ صدف مروارید، کشتہ مرجان
وغیرہ استعمال کریں۔
اسگند میں جراثیم کش خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں اسی وجہ سے یہ معدہ و
امعاء، بولی تناسلی اعضاء اور پھیپھڑوں کی سوزش کو ختم کرنے میں اسے
استعمال کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ تپ دق وغیرہ میں بھی مفید ہے۔اسگند ذیابیطس
میں بھی مفید ہے ۔ اس کے استعمال سے خون میں شوگر لیول کھانے سے پہلے اور
بعد میں نمایاں طور پر کم ہوجاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اسگند غدہ درقیہ کو
تحریک دیتی ہے اس کی وجہ سے تھائیرائیڈ ہارمون کا افراز بڑھ جاتا ہے ۔
ہائیپوتھائریڈازم میں اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے استعمال سے بدن کے
نچلے حصے عضلات مضبوط ہوتے ہیں اس کے علاوہ اس کی وجہ سے عصبی عضلاتی ہم
آہنگی پرمثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مقدار خوراک : ایک گرام سفوف دودھ کے ساتھ
مزاج : گرم تر (غدی اعصابی)
نفع خاص : مقوی عام اور رسائن ہے اعادہ شباب کے لئے اس کی خاص اہمیت ہے۔
توجہ : اسگند سے حاصل ہونے والےمؤثر کیمیائی اجزاء کو جب استعمال کیا جاتا
ہے تو اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے ضمنی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں اور یہ
کہا جاتا ہے کہ انہیں لمبے عرصہ تک استعمال نہ کی جائے یا یہ کہ حاملہ
خواتین یا دودھ پلانے والی عورتیں انہیں استعمال نہ کریں کیونکہ حمل کے
دوران انہیں استعمال کرنے سے اسقاط خطرہ ہوتاہے ۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے
ہیں کہ روایتی طریقہ علاج (طب یونانی اور ایورویدک) میں اسگند کو لمبے عرصے
تک استعمال کیا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لئے دوران حمل اس کا استعمال
محافظ حمل کے طور پراور حاملہ کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے کیاجاتا ہےاسی
طرح وضع حمل کے بعد دودھ پلانے کے عرصہ میں اسگند کا استعمال کسی برے ضمنی
اثر کے بغیرعام ہےاورفائدہ مند ہے ۔اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کسی بھی
جڑی بوٹی کے اجزائے مؤثرہ کی بجائے اسے قدرتی حالت میں استعمال کرنا بہتر
اورمحفوظ طریقہ ہے کیونکہ قدرت اس میں فائدہ مند اجزاءکے ساتھ ساتھ ایسے
اجزاء بھی رکھے ہوتے ہیں جوان کے مضر اثرات کو زائل کرتے ہیں ۔
انتباہ : اسگند کے ساتھ ایلوپیتھی ادویات استعمال نہ کریں یا اگر ایلوپیتھی
ادویات استعمال کررہے ہوں تو اسگند استعمال نہ کریں کیونکہ ان ادویات کے
ساتھ تعامل نقصان کا باعث ہوسکتا ہے ------ ایک ہی وقت میں زیادہ مقدار میں
اس کے استعمال سے اسہال ، معدہ کی خرابی یا متلی وغیرہ ہوسکتی ہے
نسخہ جات :
(1) اسگند کا ایک بہترین نسخہ درج ذیل ہے۔
ہوالشافی : اسگندھ ناگوری‘ بیخ بدھارا اور ستاور تینوں ہم وزن لے کر الگ
الگ سفوف کرکے باہم ملالیں‘ سب کے برابر وزن مصری ملا کر خوب اچھی طرح
ملالیں اور شیشی میں محفوظ کرلیں۔ شوگر کے مریض مصری نہ ڈالیں ۔
مقدار خوراک: چھ ماشہ ، بچوں کو ایک سے تین ماشہ صبح وشام ہمراہ دودھ گائے
(اگر گائے کا نہ ملے تو بھینس کا دودھ) نیم گرم کھاتے رہنے سےمادہ تولید سے
متعلقہ تمام عوارض مثلا جریان‘ احتلام‘سرعت انزال ‘ وغیرہ رفع ہوجاتے ہیں۔
مادہ منویہ کی پیدائش اضافہ ہو کر خزانہ منی پر ہو جاتا ہے ۔ کرم منی کی
تعداد اور صحت میں اضافہ ہوتاہے اور ان کے نقائص دور ہو جاتے ہیں۔ عورتوں
اور مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے۔ مادہ تولید کی
رقت (پتلاپن) دور ہو جاتی ہے ،پانی کی طرح بہتا ہوا مادہ تولید مکھن کی طرح
گاڑھا ہوجائےگا۔ اس کے مسلسل استعمال سے بے پناہ قوت شہوانی پیدا ہوتی
ہےاگر جماع سے پرہیز کیا جائے تو چہرے کی جھریاں اور بیاض شعری (بال سفید
ہونا) دور ہو جاتے ہیں۔ جوانوں کو قبل ازوقت بوڑھا ہونے سے بچاتی ہے۔ کمی
حرارت دور کرنے اور حرارت اصلیہ اور رطوبت اصلیہ کی پیدائش میں معاون ہے
۔اس کےمسلسل استعمال سے بڑھاپے کی کمزوریاں غائب ہو جاتی ہیں ۔ اس
کااستعمال کمزوری ہاضمہ کوبھی درست کرتا ہے ۔ اگر پرسوت (بچے کی پیدائش )کے
بعد عورت میں دودھ کی کمی ہوجائےتو اس سے دور ہوتی ہے۔ لاغر‘ نحیف زندگیوں
کیلئے یہ عجیب الاثر ٹانک ہے۔ دبلے پتلے اور لاغر بچوں کو فربہ کرنے کے لئے
اس کا استعمال بہترین ہے ۔(یہ نسخہ ستاور کے بغیر بھی تیار کی جا سکتا ہے
یعنی اسگند ناگوری اور بیخ بدھارا دونوں ہم وزن لے کر سفوف بنا لیں)
(2) اسگند کا مفرد استعمال قوت باہ کیلئے
ھوالشافی: اسگند ناگوری 8 ماشہ لیں‘ آدھ کلو دودھ میں خوب ابالیں جب دودھ
ڈیڑھ پاؤ رہ جائے مصری ملا کر پی لیں۔ شوگر کے مریض مصری کے بغیر پئیں
۔دنوں میں چہرہ سرخ کردیتا ہے، عام صحت بہتر ہوجاتی ہے اور قوت باہ اس قدر
کہ طبیعت پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ صبح کے وقت پئیں اور ڈیڑھ ماہ تک
استعمال کریں۔
(3) "اسگند پاک " ایک ویدک نسخہ ہے اور بڑے فوائد کا حامل ہے ۔نسخہ کےاجزاء
درج ذیل ہیں۔
ہوالشافی : اسگندھ ناگوری۔ 40 تولہ ۔سونٹھ۔ 20 تولہ ۔مگھاں (فلفل دراز)
10تولہ مرچ سیاہ۔ 10 تولہ یہ سب ادویہ الگ الگ کوٹ کر سفوف بنائیں پھر
ملالیں۔ بعد ازاں پپلامول۔ زیرہ سفید۔ گلو۔ تگر۔ جائفل۔ خس۔ نیتربالا۔ صندل
سفید۔ گری ناریل۔ ناگرموتھا۔ خشک دھنیا۔ گل دھاوا۔ طباشیر۔ آملہ۔ کافور
بھیم سینی۔ جڑسانٹھ۔ کتھ سفید۔ چترک۔ ستارہ۔ بیخ نیشکر ۔ اجمود ہرایک۔ چھ
چھ ماشے ۔ یہ سب چیزیں کوٹ کر سفوف بنالیں اور درج بالا آمیزے میں شامل
کریں۔ "اسگندھ پاک " تیار ہے۔ اسے چینی کے مرتبان میں رکھیں۔
ترکیب استعمال: روزانہ علی الصباح مریض کو یہ دوا دوتولہ گائے یا بھینس کے
آدھ کلو دودھ کے ساتھ بطور ناشتہ کھلائیں۔
فوائد: یہ دوابدن کے کئی امراض کے لیے اکسیر ہے۔ جن بچوں‘ عورتوں یا مردوں
کا جسم سوکھا سڑا ہو اور وہ کمزوری اور لاغری محسوس کرتے ہوں‘ اس کے
استعمال سے ان کا جسم فربہ ہو جاتا ہے۔ چہرے کی بے رونقی وپژ مردگی دور کر
کے اسے بارونق اور جاذب نظر بناتی اور چہرے کی رنگت نکھارتی ہے۔ کھانسی اور
دمے کی لاجواب دوا ہے۔ معدے اور جگر کے امراض کے لیے اکسیر سے بڑھ کر ہے۔
خاص طور پر دونوں اعضا کی کمزوری رفع کرتا ہے۔ خون کی شدید کمی اور یرقان
کا قلع قمع کرتا ہے۔ تاپ تلی اور تلی کے ورم کے لیے مفید ہے۔ پیٹ کے درد کے
لیے لاجواب ہے۔ دوماہ کے استعمال سے خونی یا بادی بواسیر‘ سنگرہنی اور باؤ
گولہ رفع ہو جاتے ہیں۔ خواتین کی تقریباً تمام بیماریوں کے لیے مفید ہے۔
امراض رحم کے لیے بے حد مؤثر اور مفید ہے۔ کثرت حیض‘ ایام خاص کے علاوہ
دیگر دنوں میں خون آنا اور لیکوریا وغیرہ کو اس کے استعمال سے فائدہ ہوتا
ہے۔ یوں کمزور اور نحیف بچہ بھی تندرست ہو جاتا ہے۔ مردوں کے لیے بھی بے حد
مفید ہے۔ اس دوا کے مسلسل استعمال سے بڑھاپے کی کمزوریاں غائب ہو جاتی ہیں۔
جریان‘ احتلام وغیرہ دور کرنے کے لیے عجیب الاثر دوا ہے۔ جوانوں کو قبل
ازوقت بوڑھا ہونے سے بچاتی ہے۔ قبض کشائی کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر
کوئی دوا نہیں۔ یہ دوا اعضائے رئیسہ وشریفہ کو توانائی بخشتی اور مجلوق کے
افعال بدن کو باقاعدہ بناتی ہے۔ایک بزرگ کی بینائی جاتی رہی ۔تشخیص پر
معلوم ہوا آنکھ کی طرف جانے والے اعصاب سوکھ گئے ہیں اور اس کا کوئی علاج
نہیں ۔انہوں نے اسگند پاک چار ماہ تک باقاعدگی سے استعمال کی۔ اللہ تعالی
کے فضل وکرم سے ان کی بینائی بحال ہوگئی۔
(4) جوڑوں ، گھٹنوں ، مہروں اور درد کمر کے لئے :
درج ذیل نسخہ استعمال کریں ۔ یہ بوڑھے حضرات کے لئے بہت بہترین چیز ہے عمر
بڑھنے کی وجہ سے درد ہو یاجوڑوں میں خشکی ہوتو یہ نسخہ بہترین ہے اسے مستقل
تین ماہ تک استعمال کریں انشاء اللہ بالکل تندرست ہو جائیں گے ۔
ہوالشافی : اسگند ناگوری 100 گرام ،گوند کیکر 100 گرام ،گوند کتیرا 100
گرام تینوں کا سفوف بنا لیں ۔روزانہ ایک چمچ صبح و شام دودھ کے ساتھ لیں ۔
دودھ نہ ملے تو پانی کے ساتھ لیں ۔ کسی دافع درد روغن مثلا روغن مالکنگنی
یا روغن اوجاع کی دن میں ایک مرتبہ مالش بھی کریں ۔ ضمنی اثرات سے مبرا
بہترین اور مجرب نسخہ ہے ۔
(5) مہروں کے ہلنے اوران کی وجہ سے ہونے والے دردوں کے لئے یہ نسخہ جات بھی
بہترین ہے ۔
(ا) ہوالشافی : گوکھرو (بکھڑا) ، اسگند ناگوری ، سونٹھ تینوں ہم وزن کوٹ
پیس کر سفوف تیار کریں۔ اگر مرض زیادہ ہو تو دن میں تین بارایک چمچ استعمال
کریں کم ازکم ایک ماہ اور اس سے زیادہ عرصہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔علاوہ
ازیں یہ نسخہ بھی مہروں کے ہلنے میں مفید ہے۔
(ب) ہوالشافی : اسگندناگوری 80 گرام ، مغز بنولہ 20 گرام سفوف بنالیں دن
میں دو سےتین مرتبہ ایک چمچ دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔یہ نسخہ ذیابیطس کے
مریض شوگر کنٹرول کرنے کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
(6) ڈیپریش کے لئے :
ہوالشافی : اسگند ناگوری اور جنسنگ دونوں جڑی بوٹیاں ہم وزن لیکر سفوف
بنائیں اور 500ملی گرام کے کیپسول بھر لیں دو کیپسول صبح و شام استعمال
کریں۔یہ ڈپریشن کا بہترین علاج ہے۔
(7) کمزور او ربوسیدہ ہڈیوں(آسٹیوپورسس) کے لئے درج ذیل نسخہ استعمال کریں
۔
ہوالشافی : اسگند ناگوری کا سفوف روزانہ دو چمچ صبح دو شام پانی سے لیں
انشاء اللہ ایک ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے مگر تین ماہ جاری رکھیں تاکہ
بیماری واپس حملہ نہ کرے۔بالکل بے ضرر ہے۔ اس مقصد کے لئے عام طور پر
میڈیکیٹڈ کیلشیم استعمال کرتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اس کا
زیادہ تر حصہ بذریعہ پیشاب خارج ہوجاتا ہے اور اس کا بیشتر حصہ گردوں میں
جاکر پتھری کا باعث بنتا ہے۔ |