| 
		خیبرپختونخوامیں عیدالاضحی ڈینگی کے خوف تلے گزرگئی تازہ ترین اطلاعات کے 
		مطابق صوبے میں سترہ افرادڈینگی کاشکارہوکرداعی اجل کولبیک کہہ چکے ہیں 
		جبکہ چھ ہزارسے زائدافرادمیں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے اس سلسلے میں 
		ٹیسٹ وغیرہ کی اہلیت پربھی سوالیہ نشان ثبت ہیں پشاورسمیت صوبے کے 
		دیگراضلاع بھی ڈینگی وائرس سے متاثرہورہے ہیں مگرحکومتی اقدامات محض اخباری 
		بیانات تک محدودہیں ناہی مچھرمارسپرئے کاکوئی خاطرخواہ اہتمام 
		کیاگیااورناہی ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہترین سہولیات مہیاکی گئیں 
		ایسے لگتاہے جیسے صوبائی حکومت کی ترجیحات کچھ اورہیں یہ ترجیحات خیبربینک 
		سکینڈل کودبانا ، بینک کے ایم ڈی کو (جو ایک تجربہ کار بینکارہیں )بے عزت 
		کرکے رخصت کرنااوراسے قربانی کابکرابناناہے حالانکہ انکی ریٹائرمنٹ میں بھی 
		اب گنتی کے چند دن رہ چکے ہیں ۔دوسری جانب صوبے کی آئندہ حکمرانی کے 
		دعویدارپارٹیوں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنے 
		اراکین سے آمدہ انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی درخواستیں طلب کرلی ہیں اب تک 
		دونوں جماعتوں کے حوالے سے صرف ضلع صوابی کے اعدادوشمارسامنے آچکے ہیں جن 
		میں جمعیت کو 36جبکہ اے این پی کو 100سے زائددرخواستیں موصول ہوچکی ہیں 
		دیگراضلاع کی بابت تفصیل آئندہ انہی صفحات پرپیش کرنیکی کوشش کی جائیگی فی 
		الحال اگرضلع صوابی کاسرسری جائزہ لیاجائے تو صوابی میں آئندہ الیکشن کے 
		دوران بہت بڑاانتخابی دنگل ہونے جارہاہے یہاں کی تمام پارٹیاں بڑھ چڑھ 
		کرکامیابی کے دعوے کرتی نظرآرہی ہیں صوبائی حکمران تحریک انصاف آئندہ یہاں 
		سے کامیابی کیلئے ضرورت سے زیادہ پرامیدہے صوبائی اسمبلی کے 
		سپیکراسدقیصراورصوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی کاتعلق صوابی سے ہے تین 
		سینیٹرزصوابی سے تعلق رکھتے ہیں صوابی سے قومی اسمبلی کی دوجبکہ صوبائی 
		اسمبلی کی پانچ نشستیں ہیں گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے ترکئی خاندان کی 
		سیاسی جماعت نے چارجبکہ آفتاب شیرپاؤکی قومی وطن پارٹی نے ایک نشست پرقبضہ 
		جمالیاہے صوابی بنیادی طورپراے این پی کاگڑھ تصورکیاجاتاہے 1997کے الیکشن 
		تک یہاں سے اے این پی ہی کامیابی سمیٹتی رہی ہے مگراسکے بعدترکئی خاندان کی 
		سیاست میں انٹری نے صوابی کواے این پی سے چھین لیاہے 2001کے بلدیاتی 
		انتخابات ،2002کے عام انتخابات ،2005کے بلدیاتی انتخابات،2008اور2013کے عام 
		انتخابات میں یہاں سے اے این پی کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی 
		2008کے عام انتخابات میں صوابی کے شہری حلقے این اے 12 سے اسفندیارولی خان 
		عثمان ترکئی کے ہاتھوں شکست سے دوچارہوگئے اگرچہ شکست کایہ مارجن تین سو 
		ووٹوں سے بھی کم تھا صوابی کے عوام خدائی خدمتگارتحریک سے دلی وابستگی 
		رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں باچاخان باباکے پیروکاروں کی ایک بڑی 
		تعدادموجودہے جن کے آباؤاجدادخدائی خدمتگارتحریک کے سپاہی رہے ہیں مگرگزشتہ 
		سولہ سترہ برس کااگرجائزہ لیاجائے تو یہاں سے اے این پی کے پاؤں اکھڑچکے 
		ہیں جس کاتمام ترسہراترکئی خاندان کے سرجاتاہے جنہوں نے یہاں کی سیاست میں 
		پیسے کے عمل دخل کی داغ بیل ڈالکراسکے بل بوتے پرکامیابی حاصل کی اورکرتے 
		چلے آرہے ہیں حالانکہ ترکئی خاندان کاصوابی کی تعمیروترقی میں کوئی 
		کردارنہیں انکے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ تمباکو کی صنعت سے وابستہ 
		ایک صنعتکارفیملی ہے جن کے پاس پیسے کی فراوانی ہے اورالیکشن میں پیسے کابے 
		دریغ استعمال کرکے یہ گزشتہ تین عام اوراتنے ہی بلدیاتی انتخابات میں 
		کامیابی حاصل کرچکی ہے انکے پاس نہ کوئی خاص سیاسی نظریہ ہے ، ناکوئی وژن 
		ہے اورناہی صوابی کی تعمیرو ترقی کیلئے کوئی پروگرام، اوریہ بات صوابی کے 
		اکثرنظریاتی سیاسی کارکنوں کوبھی بدرجہء اتم معلوم ہے صوابی کا شہری حلقہ 
		این اے 12 گزشتہ چودہ سالوں سے ترکئی خاندان کے قبضے میں ہے شہرام ترکئی 
		یہاں سے ضلعی ناظم بھی بن چکے ہیں انکے والد لیاقت ترکئی سینیٹر ، چچا 
		عثمان ترکئی ایم این اے اور یہ خود صوبائی وزیرصحت ہیں اسی طرح صوابی کے 
		دوسرے حلقے این اے 13سے سپیکراسدقیصر نے کامیابی حاصل کی تھی ضمنی الیکشن 
		میں اس نے اپنے بھائی کو کامیاب کرایا جس سے صوابی میں موروثی سیاست کی 
		جڑیں مضبوط ہوئیں میرے ایک دوست صاحب رائے سیاسی کارکن سے جب صوابی کے 
		حالات جاننے کیلئے رابطہ کیاتوان کاکہناتھاکہ بدقسمتی سے صوابی ایک سرمایہ 
		دارخاندان کے سیاسی چنگل میں پھنس چکاہے اس کامزیدکہناتھاکہ اگراے این پی 
		صوابی پربھرپورتوجہ دیتی یہاں سے نظریاتی اورمخلص کارکنوں کونظراندازنہ 
		کیاجاتا،یہاں کئے گئے ترقیاتی کاموں کی درست اندازمیں تشہیرہوتی تو صوابی 
		کبھی کسی سرمایہ دارکیلئے تجربہ گاہ نہ بنتاان کاکہناتھاکہ اب بھی کچھ 
		زیادہ نہیں بگڑااگرپارٹی نے ٹکٹس کی تقسیم کے وقت بہترین فیصلے کئے تو 
		صوابی میں ایک مرتبہ پھراے این پی کلین سویپ کرسکتی ہے گزشتہ بلدیاتی 
		انتخابات میں حکومتی دھونس دھاندلی کے باوجودپارٹی نے ضلعی ناظم بنوایا 
		ضلعی اسمبلی میں غیرمعروف اورنئے لوگ سامنے آئے ان میں اکثر وہی لوگ ہیں جن 
		کے باپ دادانے خدائی خدمتگارتحریک کاساتھ دیااس الیکشن سے یہ بات کھل کر 
		سامنے آگئی کہ صوابی اب بھی اے این پی کاگڑھ ہے این اے 12جہاں سے 
		اسفندیارولی خان معمولی ووٹوں سے ہارگئے تھے اس کیلئے ٹکٹ کے خواہشمند 
		جوقابل ذکر لوگ سامنے آئے ان میں سے موجودہ ڈسٹرکٹ ناظم امیررحمان ، 
		تمریزخان لالا، اول شیراورارشادخان شامل ہیں پارٹی کارکنوں کی اکثریت 
		تمریزخان لالا کوٹکٹ دینے کی حامی ہے ان کاکہناہے کہ اگرپارٹی حلقے کی 
		سیاست کارخ موڑناچاہتی ہے تو تمریزخان اس کیلئے بہترین چوائس ہیں وہ خدائی 
		خدمتگارخاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، نظریاتی نیشنلی ہیں ، منکسرالمزاج آدمی 
		ہیں اسی لئے کارکنوں میں مقبول ہیں ، غریب پرورشخص ہیں ،کارکنوں کے ساتھ 
		رابطے میں رہتے ہیں،اس سے پہلے مرحوم رحمان اﷲ خان کے ساتھ ضلعی جنرل 
		سیکرٹری کے عہدے پرکام کرچکے ہیں ، ہردلعزیزشخصیت کے مالک ہیں ، کارکن 
		انہیں بیحدپسندکرتے ہیں ، عوامی خدمت پریقین رکھتے ہیں ،سادہ دل اورسادہ 
		مزاج آدمی ہیں صوابی سے تعلق رکھنے والے جتنے کارکنوں سے بات ہوئی ان 
		کاکہناتھاکہ یہ شخص ترکئی خاندان کے آگے بند باندھنے کی صلاحیتوں سے 
		مالامال ہیں صوابی میں اے این پی کے پاس ووٹر زکی کمی نہیں بس اہل 
		امیدوارکی عدم دستیابی سے پارٹی ہارجاتی ہے اگرتمریزخان کوٹکٹ دیاجاتاہے تو 
		ان کاجوڑ پی ٹی آئی کے ضلعی صدرانورحقدادیامتوقع طورپرموجودہ وزیرصحت شہرام 
		ترکئی کے ساتھ پڑسکتاہے جن سے ہرلحاظ سے تمریزخان کاقداونچاہے وہ ایک پاک 
		صاف شہرت کے حامل سیاسی کارکن ہیں اے این پی کی تاریخ نظریاتی اورمتوسط 
		طبقے کے بے لوث کارکنوں کوپارٹی ٹکٹ دینے کی روایات سے بھری پڑی ہے اب 
		دیکھیں یہاں سابقہ روایت دہرائی جاتی ہے یا پھرکوئی غیرمقبول فیصلہ سامنے 
		آتاہے ؟
 |