نواز شریف اگلے عام انتخابات سے قبل پاکستان واپس آجائیں گے۔۔۔؟

لندن سے خبر ٓائی ہے کہ نواز شریف فوری وطن واپس نہیں آئیں گے، اورنواز شریف اپنی فیملی کے دیگر افراد کے ہمراہ برطانیہ ،امریکا سمیت دیگر ممالک میں کچھ وقت گزاریں گے، یہ خبر مسلم لیگ نواز کے ایک اہم رہنما نے بتائی، اگر ملکی تاریخ پر نگاہ دالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اب تک جن شخصیات کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پرا انہوں نے اپنے دیس میں رہنے پر بیرون ملک قیام کرنے کو ترجیح دی، اپنے جنت نظیر دیس کی نسبت بیرون ملک میں رہنے کو اپنے لیے مفید قرار دینے والوں میں سیاستدان، بزنس مین، سرمایہ کار اور فوج سے وابستہ رہنے والے جرنیل شامل ہیں ، جو بھی بیرون ملک گیا اس نے علاج کے نام پر پاک وطن کو چھوڑا۔

عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اسے یہ باور کرایا گیا کہ وہ بہت جلد وطن واپس لوٹیں گئیں ، کہا گیا جب بھی ڈاکترز نے انہیں صحت مند اور سفر کرنے کے قابل قرار دیا تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عوام کے درمیان موجود ہوں گئے، بے نظیر بھٹو شہید،آصف علی زرداری۔ غلام مصطفی کھر ہوں ، علامہ طاہر القادری ،جام صادق علی اور ہمارے کمانڈر جری جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہوں سبھی علاج کے بہانے پاکستان کوالوداع کہہ کر بیرون ملک جا بسے گئے۔

بیرون ملک جانے والوں میں سے کسی ایک نے بھی پاکستان میں رہ کر اپنی دکھائی نہ دینے والی بیماری کا علاج کروانا مناسب نہیں سمجھا حالانکہ اپنے جری کمانڈر کا یہ دعوی رہا ہے کہ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ لیکن اس نے اپنا علاج بیرون ملک کروانے کا فیصلہ کرکے اپنے اس دعوے کی خود نفی کی اور ثابت کیا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ نہیں سب سے پہلے اپنی جان کو آزامائش و مصائب سے بچانا لازم ہے، وطن عزیز میں چلنے پھرنے سے قاصر اور بہت ہی سخت گیر ( جان لیوا)بیماریوں میں مبتلا یہ شخصیات جوں ہی دیار غیر میں قدم رکھتی ہیں تو ان کی چال ،گفتار اور فتار سے سب بیماریاں دفع دور ہوجاتی ہیں، یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے ہیں ،نائٹ کلبوں میں اپنی یا پرائی خواتین کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کرتے میڈیا پر نظر آتے ہیں لیکن جب ان سے وطن واپسی بارے سوال ہوتا ہے تو یہی کہتے ہیں کہ’’ صحتیاب ہوتے ہی وہ ایک لمحہ یہاں نہیں ٹھہریں گے۔ پھر کئی سال وہیں گزر جاتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف اور دیگر کے سمپل ہمارے روبرو موجود ہیں۔

اب داکٹر عاصم حسین بھی لندن پہنچ چکے ہیں، بیگم کلثوم نواز اور ان کے شوہر نامدار نواز شریف بھی وہاں موجود ہیں،جب کہ ان کے دونوں صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز بھی اپنی مادر گرامی کی تیمارداری کے لیے خدمات دینے کے لیے وہیں تشریف رکھتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا علاج جو خود بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور کراچی میں انکا ایک ہسپتال بھی پاکستانیوں خصوصا کراچی والوں کے علاج معالجہ کرنے میں شب و روز مصروف عمل ہے،لیکن ڈاکٹر عاصم حسین کا اپنا ہسپتال جو انہوں نے اپنے والد گرامی قدر ضیائدین کے نام پر قائم کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کا کا علاج کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی دوسرا مریض اسی ہسپتال میں اسی بیماری (جو ڈاکٹر عاصم حسین ) کو لاحق ہے کا علاج کروانے کی خواہش کا اظہار کرتا تو اسے یہ کہہ کر انکار نہ کیا جاتا کہ سوری سرہمارے ہسپتال میں اس بیماری کا علاج ممکن نہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو خود کو میڈ ان پاکستا ن کہتے نہیں تھکتے اور اپنے مخالفین (بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان) کو میڈ ان برٹش یا میڈ ان یوایس اے کے طعنے دیتے تھے اب خود دوسری بار دیار غیر جا بسے ہیں، پہلے بار وہ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف سے تحریری معاہدہ کرکے دس سال کے لیے سعودی عرب منتقل ہوگئے تھے، اور اب حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے کسی معافی نامے لکھ کر دینے کے تکلیف دہ امر سے بچنے کے لیے بیگم کلثوم نواز کے کینسر میں مبتلا ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں لندن روانہ کیا پھر بعد میں نواز شریف کود بھی وہاں پہنچ گئے۔

حلقہ این اے 120کی انتکابی مہم کا سارا بوجھ اپنی ناتجربہ کار دختر نیک اختر مریم نواز کے ناتواں کندھوں پر ڈالدیا گیا ہے، ماہرین انتخابی سیاست خصوصا لاہور کی انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے ، یہ انتخاب مسلم لیگ نواز جیت تو جائے گی لیکن بہت کم مارجن سے اس جیت کا کریڈٹ مریم نواز کی بجائے حکومتی مشینری کے سر ہوگا، الیکشن کمیشن ، ریٹرننگ آفیسر ،اور دیگر متعلقہ فورم بھی اس جیت کے کریدٹ کے حقدار ہوں گے، کیونکہ ان اداروں نے بیگم کلثوم نواز پر اعتراضات کو بروقت نبتانے کی بجائے انہیں انتخابات کی تاریخ کے بعد تک لٹکائے رکھنا مسلم لیگ نواز سے ان اداروں ،افراد کی وابستگی کی بہترین مثال ہے۔

سوال پوچھا جا رہا ہے کہ نواز شریف انتخاب سے قبل وطن واپس کیوں نہیں آ رہے؟ یہ باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ نواز شریف کا بیرون ملک قیام کتنے عرصہ پر محیط ہوگا؟ ادھر لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا فیصلہ جس میں اتفاق شوگر ملز، حسیب وقاص شوگر ملز اور چودہری شوگر ملز کی جنوبی پنجاب میں منتقلی کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے، نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے دوسرا بڑا دہچکا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ان تینوں شوگر ملز کوتین ماہ کے اندر ان کے اصل مقام پر منتقل کرنے کا بھی حکم صادر فرمایا ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود ان ملوں نے تعمیرات اور کام جاری رکھا،عدالت نے قرار دیا کہ عدالت نے ان ملوں کو سیل کرنے اور کام روکنے کے احکامات دیئے لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا،عدالتی فیصلے مین کہا گیا کہ اتفاق اور چودہری شوگر ملز نے عدالت عالیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے ۔لیکن عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں ثابت ہوا کہ پاور پلانٹ نہیں شوگر ملز لگائی گئیں،افسوس ناک بات یہ ہے کہ چودہری شوگر مل براہ راست سابق وزیر اعطم اور ان کے گھرانے کی ہے۔لاہورہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل پنجاب کی دیگر شوگر ملیں بھی مشکلات کا شکار ہیں لیکن ان تینوں ملوں نے جس لاقانونیت کا مظاہرہ کیا دیگر ملوں نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا۔

شریف خاندان کی نفسیات سے آگاہی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما فیصلہ اور اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شریف خاندان کی شوگرملوں کی جنوبی پنجاب منتقلی کو غیر قانونی قرار دیا جانا ثابت کرتا ہے کہ آنے والے ایام شریف خاندان کے لیے مذید پریشانیوں اور مشکلات لیکر اائیں گے، اس بات کا نواز شریف کو بکوبی ادراک ہے اس لیے اس بات امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف مستقبل قریب میں پاکستان واپسی کے امکانات مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی خیال ہے کہ نواز شریف اور ان کے بیٹے حالات میں بہتری آنے تک وطن واپس نہیں آئیں گے، میری اطلاعات کے مطابق نواز شریف اور ان کے بیٹے نیب عدالتوں میں حاضری سے بچنے کے لیے بیرون ملک ہی قیام کریں گے، اس قیام کی مدت کتنے عرصہ پر محیط ہوتی ہے، کیا نواز شریف اگلے عام انتخابات سے قبل وطن واپس آ جائیں گے؟ اس بات کا علم شریف خاندان کے بڑوں کو ہوگا۔
 

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144127 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.