روہنگیا (برما) کے مسلمان ظلم و ستم کا شکار

مَیں 12ستمبر کو حج کی ادائیگی کے بعد واپس آیا، ارادہ یہی تھا کہ واپس آکردورانِ حج میں گزرے خوبصورت لمحات ، دل رباودل کش نظاروں، دل آرا وودلبَراحساسات ، دِلکَش اور دل شاد روحانی احساسات اور جسم و جان میں سراعیت کر جانے والے مناظر و احساسات کو قلم کرونگا۔ گویا حج کا سفر نامہ لکھا جائے گا۔ جیسا کہ حج کرنے والے جانتے ہیں کہ حج سے واپسی پر حاجیوں کو کھانسی، نزلہ ، ذکام کا تحفہ ساتھ لانا ہوتا ہے، تھکاوٹ بھی کچھ عرصہ طاری رہتی ہے ۔ چند دن اسی صورت حال میں گزرے کمپیوٹر سنھبالا تو خیال آیا کہ حج کی روداد تو لکھی ہی جائے گی لیکن دنیامیں روہنگیا مسلمانوں پر برما اور وہاں کے بودھ مت انتہا پسند وں نے جو انسانیت سو مظالم ڈھائے ہوئے ہیں ۔ ان بے کس ومظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کردی ہے ۔ ایسی صورت حال میں روہنگیا کے مسلمانوں کے دکھ درد اور مصیبت میں شریک نہ ہونا زیادتی ہوگی۔ سلیم صافی نے درست کہا کہ ایمان اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ جس کا جتنا بس چلے ، ان مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانے کی کوشش کرے۔ کہا گیا ہے کہ برائی کو روکنے کی سعی کرو اگر طاقت سے نہیں روک سکتے توزبان سے سمجھانے کی کوشش کرو اگر یہی بھی نہیں کرسکتے تو دل میں اسے برا جانا۔ ایک لکھاری کی طاقت اس کا قلم ہے ، اس کی سوچ ہے ، اپنی تحریر کے ذریعہ ظلم کو ظلم، زیادتی کو زیادتی لکھ کر ہم اپنی آوازدنیا کی دیگر آواز اٹھانے والوں کے ساتھ شامل کر سکتے ہیں۔ نتیجہ اللہ پر چھوڑدیا جاے ، اللہ مظلوم کی فریاد خوب سنتا ہے۔ کوئی بھی زیادتی کرنے والا خواہ عام شہری دوسرے شہرے پر ظلم کرے ، بڑا آدمی خواہ وزیر ، سفیر، حاکم وقت اپنی قوم پر کسی بھی انداز سے ظلم و زیادتی کرے ، اللہ کی لاٹھی ایک نہ ایک دن اپنا کام دکھاتی ہے۔ بڑے بڑے سورماؤں ، شہنشاہوں، حاکموں، ڈکٹیروں، سربراہوں کا انجام وقت نے دکھایا ہے کہ وہ طاقت ور کس طرح ریت کی زرات کی طرح زمیں بوس ہوہے۔ ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹہری، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے لیے زمین کو اس قدر تنگ کردیا کہ بادشاہ سلامت کو کسی ملک کی زمین پر دو گز زمین مشکل سے میسر آئی۔ آپ لاکھ کہیں کہ’ مجھے کیوں نکالا‘ ،یہ بھی اللہ کا نظام ہے کہ چند لمحوں میں بادشاہ سلامت ہیرو سے زیرو ہوگئے۔ روہنگیا (برما) کی موجودہ حاکمہ کو ہیرو سے زیرو ہوجانے والے فرعونوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ روہنگیا کے مظلوموں کی آہ خالی نہیں جائے گی۔برما کی ملکہ آنگ سان سوچی جو نوبل انعام یافتہ بھی ہیں نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ روہنگیا مسلمان برما کے شہری نہیں بلکہ یہ برما کے لیے مشکلات کا باعث ہیں ۔حکومت برطانیہ 15 لاکھ ر وہنگیا کے مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے اس کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے آباؤاجداد دور برطانیہ سے پہلے یہاں آباد نہیں تھے۔ جب کہ روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤاجداد برطانوی حکومت کے دور سے ہی یہاںآباد تھے۔ برما کی یہ عجیب منطق ہے کہ اگر ان کے آباؤں اجداد یہاں آباد نہیں بھی تھے تو اب ان کے اولادیں یہاں کی شہری قرار نہیں پارہیں۔

روہنگیا کے مسلمان میانمار (برما) کے صوبے رکھاٹن(ارکان ) کے شہری ہیں ۔ یہی وہ رکھاٹن ہے جسے پہلے ارکان کہا جاتا تھا۔برما کی حکومت نے روہنگیا کے مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی۔ سرکاری نوکریوں سے نکال دیاہے، ملازمت اور تعلیمی اداروں کے دروازے ان کے لیے بند کردئے گئے ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی بود و باش، رہن سہن ، زبان ، طرز زندگی بنگالی مسلمانوں اور برمیوں کے بہت قریب ہے۔ روہنگیا اور برما کے درمیان ایک پہاڑ ہے جو اسے جدا کرتا ہے۔ روہنگیا کی ایک قدیم تاریخ ہے ۔ برما کی حکومت وقت کے ساتھ روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے مختلف قسم کے قوانین نافذ کرتی رہی ہے جس کا مقصد روہنگیوں کو برما سے دور رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بات قوانین کے نفاذ تک نہیں رہی بلکہ اس علاقے میں بربا کی حکومت نے متعدد بار فوجی آپریش بھی کیے جس کا مقصد روہنگیاکے مسلمانوں کی نسل کشی کرنا مقصود تھا۔ برما سے جڑے روہنگیا کے شہری عرصہ دراز سے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ اس جدوجہد میں انہوں نے یہ کوشش بھی کہ انہیں مشرقی پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے اس وقت تک بنگلہ بیش وجود میں نہیں آیا تھا۔ لیکن ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکتی۔ البتہ بہت سے برمی پاکستان منتقل ہوئے وہ کیوں کہ بنگالیوں سے مشابہت رکھتے تھے، زبان بھی بنگلہ بولتے، لباس ، رہن سہن بھی بنگلالیوں جیسا ہی تھا۔ کراچی کے بعض علاقوں میں برمی کالونی کے نام سے آبادیاں بھی قائم تھیں، لیاری میں مچھر کالونی برمی مسلمانوں کی بڑی آبادی تھی۔ بنگلہ دیش ، برما کیونکہ روہنگیا کے ارد گرد آباد ہیں اس لیے یہ لوگ انہی ممالک میں ہجرت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ برما کی سابق آمرانہ حکومتوں کی طرح روہنگنی مسلمانوں کو بنگالی تصور کرتی ہیں جس کے باعث روہنگنی مسلمان ان کے شہری نہیں ہوسکتے ۔ موجودہ برما کی حکومت نے بھی روہنگیوں کو بنگالی تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف ظالمانہ کاروئی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں روہنگی مسلمانوں نے بنگلہ دیش ، بھارت ،ملائشیا، تھائی لینڈ میں پناہ لی۔ نریندر مودی کو بھلا یہ کب برداشت ہوسکتا ہے کہ بھارت میں مسلمان خواہ کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتے ہوں بھارت کی سرزمین پر آباد ہوسکیں، چنانچہ بھارت نے اپنی ریاستی حکومت کو حکم جاری کردیا کہ روہنگیا کے مہاجروں کی شناخت کر کے ان سے بھارت کی سرزمین خالی کرنے کا حکم جاری کردیا جائے۔ سب سے زیادہ روہنگیا مسلمان نے بنگلہ دیش ہجرت کی۔روہنگیا مہاجرین کی تعداد ساڑے چھ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سرحد کا ملنا اور بنگلہ دیشیوں سے مشابہت ، زبان، کلچر کا ایک ہونا ہے۔ بنگلہ دیش بھی روہنگیا مسلمانوں کی آمد سے خوش نہیں ، ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ بنگلہ دیش کی اپنی معیشت قابل ذکر نہیں، مہاجرین کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اس قسم کی ہجرت ہوئی تو مہاجرین کی بہت بڑی تعداد واپس اپنے ملک نہیں جاتی۔ واضح مثال پاکستان میں افغان مہاجرین کی دی جاسکتی ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں جو افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے وہ تیسری دیہائی گزرجانے کے بعد بھی پاکستان میں آباد ہیں۔ بلکہ ان کی بھاری اکثریت پاکستانی بن چکی ہے۔ ان کی بستیاں ان کے ناموں سے آباد ہیں جہاں وہ بہت ہی شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں، انہیں ملازمتیں مل چکی ہیں، کاروبار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ واپس جانے کا سوچتے بھی نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ پاکستان میں بھی آیا ان کے تعداد دو لاکھ بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں بھی کچھ روہنگیا مسلمانوں نے ہجرت کی۔ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو روہنگیا کے مسلمانوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد کر مدد کرنی چاہیے تھے لیکن ہر جانب خاموشی ہی خاموشی دکھائی دے رہی تھی۔ روہنگیا مسلمانوں کو خون میں نہلایا جارہا تھا، انہیں برما سے فرار ہونے پر مجبور کیا جارہا تھا ، جب وہ کسی بھی ملک میں داخل ہوتے تو وہ ملک ان سے ہمدری تو کجا انہیں واپس دھکیلنے کے اقدامات کررہا تھا۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ’ ایک بار مہاجرین جس ملک میں رجسٹرڈ ہوجائیں وہاں سے ا نہیں انہیں ان ملک مین واپس نہیں بھیجا جاسکتا جہاں انہیں جان و مال کا خطرہ ہو ‘ ۔ وہ ممالک جہاں جہاں روہنگیا مسلمانوں نے ہجرت کی ان ممالک کی حکومت کو چاہیے کہ وہ عارضی طور پر ان مہاجرین کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش ، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کریں۔

ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے روہنگیا مسلمانوں کے دکھ اور غم میں سب سے پہلے آواز بلند کی۔ ترکی کے صدر کی خاتون اول نے روہنگیا کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا، ان کی مشکلات معلوم کیں، وہ مظلوموں کی گریا و زاری کو سن کر ان کی حالت زار کو دیکھ کرب محسوس کیا۔ ترکی کے صدر نے اعلان کیا کہ روہنگیا کے مہاجرین جس قدر بھی بنگلہ دیش میں ہیں ان کے تمام تر رہنے، کھانے پینے کے اخراجات ترکی برداشت کرے گا۔ ترکی کے صدر اردگار کی جانب سے مسلمانوں کے لیے اس قسم کی پیش کش دیگر ممالک کے سربراہان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ عام طور پر سعودی عرب اس قسم کی صورت حال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں سر فہرست رہا کرتا تھا لیکن اب سعودع عرب کے حالات اسے اس قسم کے اقدامات سے روک رہے ہیں یا اس کے مالی حالات اب وہ نہیں رہے ۔ بہر کیف ترکی اور ترکی کے صدر اس سلسلے میں قابل تعریف اور ستائش کے مستحق ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک بساط بھر روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کریں۔ ضروری نہیں وہ امداد اربوں کھربوں میں ہو ، بنگلہ دیش کوئی بہت امیر کبیر ملک نہیں ۔ روہنگیا مسلمانوں کا بوجھ اس کی معیشت پر یقیناًبوجھ ہوگا اس لیے ا سلامی مملک کو خاص طور پر بنگلہ دیش کی مالی امداد وقت کی ضرورت ہے۔عالمی دنیا کو روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کا نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کو بیانات سے آگے آکر عملی اقدامات کرنا چاہیں۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261213 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More