الٹی چال

کبھی کبھی انسان کی ساری کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اپنی تدبیر الٹی پڑ جاتی ہے۔سوچا تو یہ ہوگا کہ جو بندوبست کیا گیا ہے ۔کڑے وقت میں آسرا بنے گا۔مگر ہوایوں ہے کہ وقت آنے پر کٹھن حالات میں یہی بندوبست کسی اضافی بوجھ کی طرح چبھنے لگا۔کبھی تو یہ چبھن اس قدر ہوتی ہے کہ بجائے نئی مصیبت پر غور کرنے کے سب سے پہلے اسی چبھن سے جان چھڑانے کی پڑ جاتی ہے۔سابق صدر پرویز مشر ف کے لیے ق لیگ بھی ایک ایسا ہی بندوبست تھی۔جو نوازشریف کی سیاسی قوت کم کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔سابق صدر کو اس سلسلے میں چوہدری برادران پر خاصی محنت کرنا پڑی ۔ان کا بیک گراؤنڈ سیاسی تو تھا۔مگرایک محدود سوچ اور ذہنیت کی سیاست کرنے کے باعث زیادہ قابل قبول نہ تھے۔تب لوگوں کو چوہدری برادران کی پیروی پر مجبورکرنا آسان نہ تھا۔دھکے شاہی سے لوگ ادھر آتو گئے۔مگر ان کی نظروں کا محور نہ چوہدری شجاعت حسین رہے ۔نہ چوہدری پرویز الہی ۔جب بھی کوئی مدعا ہوا۔براہ راست یا تو مشرف صاحب کے گوش گوار کیا گیا۔یا ان کے کسی قریبی شخص کو ۔بالخصوص جب کسی بڑے اور اہم ایشو کی بات آئی ۔تب ق لیگ کو یکسر نظر اندازکر کے براہ راست اوپر بات کی گئی۔مشر ف صاحب کو خود بھی اپنے انتخاب پر جلد ہی پچھتاوہ ہونے لگا۔کبھی پنجاب سے کسی بڑے دھڑے کی چوہدریوں کے خلاف شکایت ۔کبھی سندھ میں متحدہ کا واویلہ ۔مشرف صاحب بس کبھی ادھر کی نبٹاتے کبھی ادھر کی۔ایک لمبا چوڑا سیٹ اپ رکھنے کے باوجود ق لیگ کی قیادت معاملات سنبھالنے میں ناکام رہتی۔بجائے وہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے جب اس طرح کے مسائل کا سبب بن گئی۔تو سابق صدر نے انہیں ایک اضافی بوجھ تصور کرلیا۔یہ جو جمالی صاحب کی چھٹی ہوئی وہ بھی مشر ف کی طرف سے ق لیگ پر عدم اعتماد تھا۔اور اس بد اعتمادی کی سب سے بڑی مثال این آر او ررہا ۔جب انہوں کسی بھی قیمت پر اس بوجھ سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا۔

حلقہ این اے ایک سو بیس میں کلثوم نواز کی جیت ایک بار پھر یہ بات ثابت کرگئی کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہے۔سپریم کورٹ میں محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کروانے کی درخواست بھی رد کردی گئی۔فاضل عدالت کا کہنا تھاکہ عوا می رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔سپریم کورٹ کی طرف سے بھی محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی کے خلاف درخواستیں مستر د کیے جانے کے بعد کچھ لوگوں کا کھیل احتتام کو پہنچا۔یہ لوگ ایک عرصہ سے کسی گریٹ گیم پر کام کررہے ہیں۔نوازشریف کو ہٹانا اس گیم کا ایک اہم باب تھا۔اور بیگم نوازشریف کو مقابلے سے پہلے ہی میدان سے آؤٹ کروانا ان کی تمنا۔انہوں نے ہر فورم پر اس تمنا کی تکمیل کے جتن کیے مگر بالاخر انہیں ناکامی ہوئی ۔سپریم کورٹ سے قبل وہ ہائی کورٹ اور اس سے ذیلی عدالتوں میں بھی دھکے کھاچکے ہیں۔ایک عدالت نے ان کے اعتراضات مسترد کیے تو وہ اس سے اوپر پہنچ گئے۔وہاں بات نہ بنی تو اس سے آگے جا پہنچے۔سپریم کورٹ سے انہیں کورا جواب ملنے کے بعد یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔محترمہ موجودہ اسمبلی کی معیاد تک کے لیے ایم این شپ کی اہل تسلیم کرلی گئی۔اس اہلیت کے حق میں عوامی حمایت کا ٹھپہ بھی لگ چکا۔

نوازشریف نااہل تو ہوچکے مگر بظاہر ان کی سیاسی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ان کے مخالفین کی چالیں الٹی پڑ رہی ہیں۔وہ انہیں نشان عبرت اور بے بس بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہے تھے ۔مگر نوازشریف کی نہ مقبولیت کم ہوئی ۔نہ وہ کمزور ہوئے۔ایک ثبوت ان کی پارٹی کا یکجا رہنا ہے۔اوردوجا ثبوت محترمہ کلثوم نواز کی کامیابی ہے۔اس الیکشن میں ٹاپ لیڈر شپ ایک منصوبہ کے تحت وطن سے باہر چلی گئی۔غالبا یہ ؂جتانا مقصود تھا۔کہ ہمارمی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ہمیں کچھ لوگوں کی طرف ڈھونگ ڈرامے کیے بغیر بھی عوامی حمایت حاصل ہے۔دوسرے لوگ خوب پراپیگنڈہ کرتے رہے ۔مگر عوام نے خالصتا پرفارمنس کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کوووٹ دیا۔مخالفین کے عارضی اکٹھ اور مشترکہ منصوبہ بندیاں کچھ کاآمد نہ ہوسکیں۔نوازشریف کی جماعت اگر یہ الیکشن جیتی ہے تو اس میں ایک کردار تو نوازشریف کی شخصیت کا ہے ۔دوجے میڈیا نے اس کامیابی کے لیے کلیدی کردار اداکیا۔لیگی حلقے میڈیا کی بے ایمانی کے شاکی ہیں۔انہیں بعض میڈیا گروپس کی جانب سے بدنیتی پر مبنی رویہ اپنانے کا گلہ ہے۔وہ سمجھتے ہیں۔کہ پانامہ کیس میں میڈیا نے ان کے خلاف سازش میں ہراول دستے کا کردار اداکیا۔جس طرح اولین ریزلٹس اناؤنس کیے گئے۔لیگی حلقے میڈیا کی اس مخصوص ترتیب سے ناخوش ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کے کچھ گروپس کی ڈوریاں ہلانے والوں نے اس مخصوص ترتیب پر مجبور کیا۔لیگی حلقوں کی باتیں اپنی جگہ مگر وقت ثابت کرے گا۔کہ محترمہ کلثوم نوازکی کامیابی میں میڈیا نے کلیدی رول ادا کیا۔آ ج لیگی لوگ نہیں مان رہے ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ میڈیا اس جیت کا ایک سبب بنا۔ذرا تصور کریں اگر میڈیا بال ٹو بال کمنٹر ی نہ کررہا ہوتا۔تو محترمہ کلثوم نواز کا کیا بنتا۔یہ حلقہ بہ حلقہ نتائج کی آمد ہی تھی ۔جس نے نوازشریف کی لاج رکھ لی۔مسلم لیگ ن کو میڈیا کا شکرگذار ہونا چاہیے ۔اگر آج میڈیا اتنا وسیع اور مضبوط نہ ہوتا۔تو میاں صاحب رات کے گیارہ ۔بارہ بچے صرف ایک چھوٹی سی خبر ہی سنتے کہ تحریک انصاف کی یاسمین راشتہ ڈیڑھ لاکھ ووٹ لیکر جیت گئیں۔ان کی مد مقابل محترمہ کلثوم نواز نے ساڑھے سات ہزار ووٹ لیے۔وغیرہ وغیر ہ۔میڈیا نے اندھیرے میں خبریں بھجوانے والا دور ختم کردیا۔پانچ بجے الیکشن کا وقت ختم ہوا۔اور چھ بجے پہلا ریزلٹ اناؤنس ہوگیا۔اس کے بعد آخری ریزلٹ آنے تک قوم کو باخبر رکھنا میڈیا کا ایک ایسا کارنامہ تھاجس نے کلثوم نواز کی کامیابی ممکن بنائی۔جو لوگ اپنی مرضی کے اعلان کروانے کے عادی ہیں۔میڈیا کی تیزیوں اور وسعت کے آگے بے بس ہوگئے۔لیگیوں کی میڈیا سے ناراضگی اپنی جگہ مگر نواز شریف کی لک دیکھیے کہ جو میڈیا انہیں پاکستان کاکھل نائیک ثابت کرنے پر تلاہوا تھا۔وہی ان کی کامیابی کاسبب بن گیا۔اس کی طاقت کو استعمال کسی اور کام کے لیے کیے جانے کا منصوبہ تھا۔مگر نتیجہ کچھ اور نکل آیا۔سب چالیں الٹی پڑ گئیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.