جمہوریت کی بقا ء کے لیے عوام کا فیصلہ ماننا ہی
بہتر ہے۔ الیکشن ہوچکا ۔ یہ ریمارکس کلثوام نواز کے کاغذات نامزدگی کے خلاف
دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے جسٹس گلزار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے
ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی عدالت کا فیصلہ قبول کرنے کااظہار واقعی
قابل تحسین ہے ۔ ہمارے ہاں یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ جن کو عوام مسترد
کرتے ہیں وہ عمران اور شیخ رشید کی طرح عدالتوں میں پہنچ کر سازشوں میں
مصروف ہوجاتے ہیں ۔اس طرح عدالتوں کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور عوام
کے ووٹوں کی توہین بھی۔ تمام چیف جسٹس صاحبان کو ایسی فضول درخواستوں کی
سماعت کے حوالے سے ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنی چاہیئے تاکہ کھوٹے سکوں کی
وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہو۔ جو جمہوریت کی بقاء اور ملکی
استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ وہ شیخ رشید جو بمشکل قومی اسمبلی کی ایک
ہی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ اس نے عمران خان جیسے پیدائشی ضدی انسان کے
ساتھ مل کر سازشوں کے ایسے جال بچھائے کہ دو تہائی ووٹوں سے قائم ہونے والی
مسلم لیگی حکومت کو نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا بلکہ قومی اور بین
الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بنے ۔پانامالیکس کی سماعت کے دوران
ججز صاحبان کا یہ بیان بھی اخبارات میں محفوظ ہے کہ نواز شریف کے خلاف
کرپشن کے الزامات نہیں ہیں نیب کو ان کے تعاقب میں کیوں لگا دیاگیا ہے ۔یہ
سازش ایک ایسے مقبول عوامی لیڈر کے خلاف کی گئی جسے تمام قومی اور بین
الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان کا مقبول ترین عوامی لیڈر قرار دیاگیا۔
نواز شریف کی نااہلیت سے خالی ہونے والی نشست این اے 120 کی جب الیکشن مہم
شروع ہوئی تو عمران خان بار بار یہ کہتے سنائی دیئے کہ اس الیکشن میں عوام
نے کلثوم نواز کے خلاف ووٹ دے کر سپریم کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرنی ہے اور
یہ بتا نا ہے کہ ان کی رٹ پر نواز شریف کو مجرم قرار دے کر عدالت عظمی نے
جو فیصلہ کیا ہے ٗ عوام اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس مسلم لیگ
ن کی مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسلسل
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بار باریہ کہتی رہی کہ عوام اپنے ووٹ کے حق کو
نواز شریف کے حق میں استعمال کرکے یہ ثابت کردیں کہ سپریم کورٹ نے نواز
شریف کے خلاف جو فیصلہ دیاتھا ٗ وہ صحیح نہیں تھا ٗ عوام اس فیصلے کو قبول
نہیں کرتے۔ پاکستانی میڈیا نے سپریم کورٹ فیصلے کے حق اور مخالفت میں ہونے
والی تقریریوں کو براہ راست نشراور اخبارت نے شائع بھی کیااور پورے ملک میں
ایک ایسا ماحول بن گیا کہ یہ الیکشن صرف ایک حلقے کانہیں بلکہ نواز شریف کے
خلاف ہونے والے فیصلے کے حق اور مخالفت کا ہے ۔ عوام اپنا ووٹ فیصلے کے
خلاف استعمال کرتی ہے یا حق میں ۔ نتیجہ دیکھنے کے لیے 17 ستمبر 2017ء کادن
مقرر تھا ۔ مسلم لیگ ن کی امیداوار کلثوم نواز تھیں۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر
یاسمین راشد کے علاوہ 44 امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے ۔ 17 ستمبر کی شام جب
بکس کھلے تو سب نے دیکھا کہ ووٹروں کی اکثریت نے مسلم لیگی امیدوار کلثو م
نوازکے حق میں ووٹ ڈال کر مریم نواز کے موقف کی تائید کردی ۔ ڈاکٹر یاسمین
راشد کی ضمانت بچی ۔ باقی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام
امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ یہ نتائج ثابت کرتے ہیں عوامی اعتماد
حاصل کرنے والی جماعتوں کے خلاف مسلسل ہارنے والے میڈیا کا تعاون حاصل کرکے
پیالی میں طوفان پیدا کرنے کی ہمیشہ سازشیں کرتے ہیں۔افسوس تواس بات کا ہے
کہ پاکستانی عدالتوں میں زیادہ تر ایسے ہی ہارے ہوئے عناصر کی دائر کردہ
درخواستوں پر فوری طور پر لارجر بینچ تشکیل دے کر سماعت شروع کردی جاتی ہے
۔بلاشبہ یہ عوام اور ان کے ووٹوں کی توہین ہے ۔اگر سارے فیصلے عدالتوں میں
ہی ہونے ہیں تو پھر الیکشن کروانے کا کیا فائدہ ۔ حالیہ ضمنی الیکشن نے یہ
ثابت کردیاہے کہ نواز شریف عوام کے پہلے بھی مقبول ترین لیڈر تھے اور اب
بھی ہیں ۔ جس طرح جسٹس گلزار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل میر کی
درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ جب عوامی فیصلہ آگیا تو پھر کسی
اور فیصلے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اسی طرح عدالت عظمی کے اس لارجر بینچ جس نے
نواز شریف کونااہل قرار دیا ہے ٗعوامی عدالت کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے اپنے
دیئے ہوئے فیصلے پر ضرور غور کر تے ہوئے عوام کے پسندیدہ اور مقبول عوامی
رہنما نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے پر بحال کرنا چاہیئے یا ان کی
نااہلیت کا عرصہ چھ ماہ تک محدود کردیاجائے۔جمہوریت میں ایک ایک ووٹ سے
حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔اسے ہی جمہوریت کا حسن کہاجاتاہے ۔لارجر بینچ
کو یہ بات ضرور ملحوظ خاطر رکھنی چاہیئے کہ جس طرح جے آئی ٹی بنا کر نواز
شریف کے خلاف پے درپے تفتیش اور تحقیقات کاعمل جاری رکھا گیا ہے اس معیار
پر عمران سمیت کوئی پرشخص پارسا ثابت نہیں ہوسکتا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ
نواز شریف کے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک جگہ رک گیا ہے
۔ شاہداورکزئی ایڈووکیٹ نے نواز شریف کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں ایک
رٹ دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیاگیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی آئینی
ذمہ داری ہے کہ وہ وفاقی ڈھانچے کا تحفظ کریں لیکن پاناما کیس میں 28
جولائی کے فیصلے کے نتیجے میں آئین کی 40 شقیں معطل ہوئیں ۔ عدالت سے
استدعاہے کہ سپریم کورٹ کے برطرفی فیصلے پر عمل درآمد فوری طور پر روکا
جائے اور عارضی طور پر نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے پر بحال کرکے پانامہ
فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دیاجائے ۔ کوشش یہ کی جائے
کہ اس سات رکنی بینچ میں پہلے سماعت کرنے والے پانچ معزز جج صاحبان شامل نہ
کیے جائیں جو اپنا پہلے فیصلہ دے چکے ہیں۔ |