گزشتہ دنوں DHQہسپتال اوکاڑ امیں ایک مریض کی ہلاکت اور
ڈاکٹرز و عملہ کی طرف سے لواحقین پر تشدد جہاں پر بہت سے سوالات کو جنم
دیتا ہے وہاں انتظامیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور سوالیہ نشان بھی ہے کہ
ایسے واقعات آئے روز کیوں اورآخر کیوں کر پیش آتے ہی ہر سرکاری ہسپتال میں
مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا
ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جبکہ ہسپتال کے گارڈز اور ڈاکٹرز کا آئے
روز مریضوں کے لواحقین ساتھ مار پیٹ معمول بنتا جارہا ہے۔ لواحقین کا کہنا
ہوتا ہے کہ ہسپتال عملہ پیسے لئے بغیر اندر نہیں جانے دیتا اور ڈاکٹرز کی
توجہ مریضوں پر کم ہوتی ہے اگر انہیں کہا جائے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے
ہیں،سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا
مشورہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ
کارعملہ اور مشینری کی کمی ہے ،گذشتہ دنوں اپنے ایک مریض کے ساتھ سرکاری
ہسپتال / ایمر جنسی جانے کا اتفاق ہوا۔ہسپتال کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوا
تو ایسے محسوس ہوا جیسے کسی ٹیکسی سٹینڈ میں آیا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آرہا
تھا کہ کیسے گاڑی سے مریض کو اتاریں،تھوڑی بھاگ دوڑکے بعد ہم کو سٹریچر تو
مل گیا لیکن عملہ کا کوئی بندہ ہماری مدد کے لیے موجود نہ تھا اپنی مدد آپ
ک تحت ہم اپنے مریض کو اندر لے گئے اور کافی کوشش کے بعد پرچی حاصل کرنے
میں کامیاب ہوگئے اور ڈاکٹر کے پاس چلے گئے ہمارے مریض کوہارٹ اٹیک آیاتھا
اب ڈاکٹر صاحب اس بات میں الجھ پڑے کہاکہ اس کی کوئی رپورٹس تو دکھاؤ ہم نے
کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کبھی کوئی رپورٹ نہیں کروائی خیر اس کو کسی
طرح سمجھا بجھا کر مریض کا چیک اپ کروایا وہاں سے ECG کیلئے ریفر کر دیا
گیا ۔اس کے بعد فرسٹ ایڈ ٹریٹمنٹ کیلئے کچھ انجکشنز لکھے گئے جن میں سے بھی
بعض ہسپتال میں دستیاب نہیں تھے۔اس دوران ایک ایمرجنسی مریض کو لایا
گیاڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر صاحب کے ری ایکشن کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا گویا
وہ خود بلڈ پریشر کے مریض ہو اور معمولی باتوں پر اسکابلڈ پریشر بڑھ جاتا
ہوڈاکٹر نے موقع پر موجود سٹاف کو کہا کہ پہلے تمام لوگوں کو کمرے سے باہر
نکالو اس کے بعد مریض کا چیک اپ ہوگاہسپتال میں موجودگی کے دوران یہ بات
بھی سامنے آگئی کہ اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی میں بلڈ
پریشر چیک کرنے کیلئے صرف ایک سیٹ موجود ہے جو کہ ایک NGOکی ملکیت تھا اور
اس NGOکا سٹاف بلڈپریشر چیک کر رہا تھا ،ہسپتال میں مریضوں کا رش بڑھنے لگا
تو یہ بات بھی سامنے آگئی کہ پرچی کیلئے اس بڑھے ہسپتال میں صرف ایک ہی
کاونٹر ہے جس سے میل اور فی میل دونوں کو پرچی دی جاتی ہے،ہسپتال کا عملہ
اخلاقی لحاظ سے بھی نہایت کمزور تھا، خود بار بار ڈاکٹر صاحب بھی مریضوں کو
جانور اور گوارکا لقب دیتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے،اگر ہمارے ہسپتالوں کی
یہی حالت رہی تو غریب عوام کا کیا بنے گا؟ نہ تو علاج کیلئے حوصلہ دینے
والے ڈاکٹرز موجود ہے، نہ غریبوں کو میڈیسن دی جاتی ہیں اور نہ ہی صفائی کا
انتظام ہے۔ صحت کی بہتر سہولیات ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ خصوصا ہسپتال
جیسی جگہ میں مریض کیلئے یہ باتیں انتہائی ضروری ہیں۔ صفائی کا معقول
انتظام موجود ہو تاکہ مریض کے جسم میں مزید جراثیم داخل نہ ہو۔پرچی کیلئے
کم از کم تین کاونٹرز موجود ہو۔ ایک میل، ایک فی میل اور ایک انتہائی
ایمرجنسی کیلئے تاکہ مریضوں کو قطاروں میں کھڑا ہوکر مزید تکلیف نہ
پہنچے۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کیلئے خوش اخلاق ہونا بہت
ضروری ہے۔ کیونکہ اخلاق ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ مریض کا پچاس فیصد
علاج بغیر ادویات کے کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہسپتالوں کا تو قانون ہی
الگ ہے،ہسپتالوں کی راہداری اور گزرگاہوں میں لاچار اور شدید تکلیف میں
مبتلا مریضوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے، لیکن ڈاکٹروں کا اپنا شیڈول ہوتا ہے وہ
تو مرض کی نوعیت دیکھ کر مریض نہیں چیک کرتے،بلکہ اپنی سہولت اور دلچسپی سے
ہی کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی تعلق یا سفارش والا مریض آجائے تو وہ گھر سے بھی
اسے چیک کرنے آجائیں گے، لیکن اگر کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوا سے
دوسرے دن یا پرائیویٹ ہسپتال کا وقت دیتے ہیں۔ جس طرح سیاستدانوں او ر
بیوروکریسی میں ہمدردی، خلوص اور احساس کی کمی ہو گئی ہے ڈاکٹربھی اس میں
سرفہرست ہیں ہمارے معاشرے میں اسلامی جذبہ خدمت، اقداروروایات کی پاسداری
ماند پڑ چکی ہے ہر فرد اپنے لئے سب کچھ کرتا ہے دوسرے بھائی کی بھلائی اور
اس کی پریشانی کے سد باب سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہی قباحتیں ہمارے
ذہنوں میں گھر بنا چکی ہیں،جس کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی میں انحطاط اور زوال
بڑھ رہا ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔بعض معروف سرجن اور
ڈاکٹر سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ہسپتال بنا کر کاروبار کر رہے
ہیں انہیں غریب اور امیر کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ مریض مر رہا ہو تو اس کا
علاج شروع کرنے سے پہلے بھاری فیس کا مطالبہ کرتے ہیں اور انہیں ادویات کی
ایک لمبی فہرست ہاتھ میں تھما دیتے ہیں کہ وہ مرض کو بھول کر پیسوں کی فکر
میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ صورتحال ملک بھر کے ہسپتالو ں میں ہے لیکن حکومت
شائد اس اہم مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنی میٹرو جیسے منصوبوں پر
دے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ہیلتھ کے بجٹ میں
اضافے کے ساتھ ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے مریضوں کو عملے کے ناروا
سلوک سے بچانے کا بھی انتظام کرے۔ |