حکومت کوابھی تک ان نامعلوم افراد کا کھوج لگانے میں
کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جنہوں نے اسلام آباد کی معروف شاہراہ ایکسپریس
ہائی وے پر واقع اقبال ٹاؤن کے قریب ایک پل پر کالعدم تنظیم داعش کے جھنڈے
لہرا کربرکس اعلامیہ میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبے کو
تقویت پہنچائی ہے،چین کے شہرمیں منعقدہ ا جلاس کے بعد جاری ہونے والے
اعلامیہ پر ہمارے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ نے بہت کچھ کہا، اسی اعلامیہ
میں پاکستان سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا
ہے، اور اس اعلامیہ کو لے کر ہماری اپوزیشن اور میڈیا نے شور مچایا کہ
بھارت پاکستان کے دیرینہ دوست چین کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گیا
ہے۔
داعش کی طرف اسلام آباد میں جھنڈا یا جھنڈے لہرانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی
ایرانی امریکا کے صدر ٹرمپ کی خواب گاہ میں گھس جائے، اربوں روپے کے سیف
سٹی پراجیکٹ کے طاق کیمروں کی کھلی آنکھوں کی موجودگی میں داعش کے جھنڈے
اسلام آباد کی شاہراہ پر فضا میں لہرانا کوئی معمولی واقعہ نہیں اور نہ ہی
اس سے در گزر اور عفو کرنا لائق تحسین سمجھا جائے گا۔
دولت اسلامیہ عراق و شام کے جھنڈے اسلام آباد میں لہرانے والوں نے سیف سٹی
پراجیکٹ کی عدم فعالیت یا بے بسی کا پردہ چاک کرکے حکومت کی کاکرکردگی پر
سوال اٹھایا ہے۔ خصوصا وزارت داخلہ اور دیگر خفیہ سراغ رساں اداروں کی
فعالیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔داعش کا جھنڈا لہرانے کا واقعہ پر وزیر
داخلہ نے محض آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرنے پر اکتفا کیا ہے، ان کے
چہرے پر کسی قسم کے پریشانی کے آثار دکھائی نہیں دئیے۔
سابق وزیر اعظم کی لندن سے واپسی کے موقعہ پر داعش کے اسلام آباد کے جھنڈوں
کا لہرایا جانا محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی مقصد کارفرما ہے؟ اس
کابات کاکھوج لگانا بھی جھنڈے لہرانے والے جنات کو تلاش کرنے والوں کا کام
ہے، بعض لوگ سابق وزیر اعطم کی آمد پر اسلام آباد میں داعش کے جھنڈے کا
منظر عام پ�آانا اتفاق قرار دینے آمادہ نہیں ہیں نکا موقف ہے کہ چونکہ سابق
وزیر اعظم نواز شریف اسلام پسندوں کے لیے اپنے سینہ میں سافٹ کارنر رکھتے
ہیں ،اس لیے ممکن ہے کہ داعش نے سابق وزیر اعظم کی آمد کے موقعہ پر جھنڈے
لہرا کر یہ پیغام دینا ہو کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘اس
حوالے سے مسلم لیگ نواز اور سابق وزیر اعظم کو اپنا موقف ضرور دینا چاہیے
تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،اس سے ہر گز ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چاہیے
کہ داعش اور مسلم لیگ نواز میں روابط موجود ہیں۔
جھنڈے لہرانے سے مراد یہ نہیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے لیکن اس بات
سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ منظم طور پر نہ سہی مگر غیر منظم یا
داعش کے ہم خیال لوگ پاکستان خصوصا اسلام آباد کے آس پاس موجود ہیں، جھنڈا
تیار کرنا، کسی ایک جنونی کے بس کی بات نہیں، یہ چند لوگوں کے مل کر کرنے
کا کام ہے۔
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام آباد کی پولیس تھانہ کھنہ کے علاقے
اقبال ٹاؤن کے قریب جھنڈلہرانے کے واقعہ کی رپورٹ وزیر داخلہ کو پیش نہیں
کی جا سکی اور نہ ہی ملزمان کی تلاش میں کسی قسم کی پیش رفت دیکھنے ،سننے
میں آئی ہے، لگتا ہے کہ معاملہ یوں ہی سرد خانے کی کسی الماری کے سپرد
ہوجائے گا۔
’’خلافت آرہی ہے‘‘ کے پیغام کے ساتھ منظر عام پر لائے جانے والے داعش کے
جھنڈے کا واقعہ ہمارے حکمرانوں کے لیے، خفیہ سراغ رساں اداروں کے لیے، آپس
میں دست و گریباں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، پاکستان
میں سرگرم دہشت گردوں کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے یا امریکا یا پھر کوئی
اور غیر ملکی تنظیمیں ان کی پشت پر کھڑی ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنے والی
ہے کہ باہر کے لوگ براہ راست کارروائی نہیں کرتے، کلبھوشن یادیو کے معاملے
کوہی لے لیں، اس اعترافی بیان کے مطابق اس کے مقامی لوگوں سے رابطے تھے اور
ان کے ذریعے ہی وہ رقوم اور اسلحے کی تقسیم کا کام پایہ تکمیل تک پہنچایا
کرتا تھا۔لہذا حکومت کو اور اس کے اداروں کو ’’جاگتے رہنا ‘‘چاہیے کسی قسم
کی سستی ،کاہلی کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ دشمن قیامت کی چال چل رہے
ہیں اور ایسے میں حکومت کا کچھ معاملات پر آنکھیں موندے رکھنے کا عمل زیادہ
دیر نہیں چلے گا۔
اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے میں داعش کا اپنی موجودگی کا احساس
دلانا، اور عسکری حلقوں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ پاکستان کے دارالحکومت
تک رسائی حاصل کرچکی ہے،داعش پاکستانی عوام کی توجہ اپنے دام توڑتے وجود کی
جانب مبذول کرنوانے میں بھی کامیاب رہی ہے، اس سب کے باوجود یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ داعش پاکستان میں کسی بڑی واردات کرنے کے قابل نہیں ،اس کا
مطلب یہ نہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر کے
بیٹھے رہیں،بلکہ پوری قوت کے ساتھ اسے کچلنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
اس سال جون کے مہینے میں پاکستانی فورسز نے داعش کی طرف سے بلوچستان کے ضلع
مستونگ کے ایک پہاڑی سلسلے میں اپنا مضبوط گڑھ قائم کرنے کے منصوبے کو
ناکام بنایا تھا، اس سے بی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ داعش پاکستان میں
غیر منظم طور پر ہی سہی بکھری پڑی موجود ہے جو گاہے بگاہے چھوٹی موٹی
کارروائیاں کرتی رہتی ہے اس کے علاوہ داعش بلوچستان اورسندھ کے شہری اور
دہی دونوں علاقوں میں اثر بڑھا رہی ہے اور جنوبی پنجاب کے متعلق بھی کہا
جاتا ہے کہ داعش کے حامیان موجود ہیں،، حکومت اور عسکری ادارے داعش سے آہنی
ہاتھوں سے نبٹیں اور اس مین کسی قسم کی رو رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔
|