لفظوں کو بیچتا ہوں پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے کچھ تو اجالے خرید لو
مجھ سے امیر شہر کا ہوگا نہ احترام
میری زباں کے واسطے تالے خرید لو
گزشتہ دن بذریعہ ” واٹس اپ “ یہ اطلاع موصول ہوئی کہ پروفیسر نسیم حیدر خان شہانی،
سائرہ ممتاز درانی سمیت بھکر کے چار پرنسپلز کو سرکاری احکامات کی خلاف ورزی اور
بھرتیوں کا بہانہ بنا کر تبدیل کردیا۔ پنجاب حکومت کے اس اقدام پر حیرت ہوئی کیونکہ
بھکر اور 47 ٹی ڈی اے میں ہونے والی بھرتیوں کو میں نے قریب سے مانیٹر کیا ، ان
کالجز کی بھرتیوں میں کون لوگ بھرتی ہوئے، اور ان بھرتیوں میں کون اور کس حد تک
مداخلت کرتے رہے، کس ممبر اسمبلی کے کوٹہ میں کتنے امیدوار بھرتی ہوئے۔ چند قبل
حکومت پنجاب نے کالج ونگ میں درجہ چہارم کی بھرتیوں کے سلسلہ میں ایک گائیڈلائن
جاری کی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بھرتیوں میں میرٹ کا خاص خیال رکھا جائے۔
مقررہ پیریڈ میں بھرتیوں کا عمل شفافیت سے مکمل ہوا ، غریب، بے سہارا اور پسے طبقات
کے نوجوانوں کو آرڈرز دے دیے گئے، سیاستدانوں کا کوٹہ بھی پورا کردیا گیا، سارا دن
مزدوری کرنے والے ، چھابڑی لگانے والوں کے چولہے جل اٹھے، چہروں پر مسکراہٹ بکھر
گئی، غریبوں کے جلتے چولہے اور خوشیاں ن لیگی حکومت اور بھکر کے صوبائی ممبران
اسمبلی کو ایک آنکھ نہ بھائیں ، غریبوں کے جلتے چولہوں سے اٹھنے والا خوشی کا یہ
دھواں سیاسی محلات میں بیٹھی ” ڈمیوں “ کو زہر لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح
ایماندار آفیسر محمد زمان وٹو کو تبدیل کروانے کے لیے سیاستدانوں کی ایک کھیپ لاہور
یاتر پہنچ گئی تھی، اسی طرح قوم کے معماروں کے خلاف بھی ایک لابی وزیر اعلیٰ
سیکرٹریٹ جاپہنچی،
بہت کم ظرف تھا محفلوں کو کر گیا ویراں
نہ پوچھوحال یاراں شام کوجب سائے ڈھلتے ہیں
وہ جسکی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
اگست کا مہینہ بھکر کی تاریخ میں ہمیشہ سوگوار رہا ، زمان وٹو کے تبادلہ سے لے کر
سانحہ کوٹلہ جام جیسے بڑے واقعات بھی اسی ماہ رونما ہوئے، اب کی بار پھر ماہ اگست
میں قوم کے معماروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لاہور کے سرکاری درباروں میں ممبران
اسمبلی کی طرف سے پیش کردہ مطالبات کی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ کون سا
سیاستدان کب کس بیوروکریٹ سے ملاقات کرتا رہا اور کس کی تبدیلی اور ” سبق سکھانے “
کے مطالبات پیش کیے جاتے رہے، اگر ان ملاقاتوں کی تفصیل صفحہ قرطاس پر بکھیر دی
جائے تو ضلع میں طوفان برپا ہوجائے گا۔ ذرائع کے مطابق صوبائی ممبران اسمبلی نے قوم
کے معماروں کو سبق سکھانے کے لیے مبینہ طور پر آٹھ نکاتی مطالبات پیش کیے ۔
1۔ فی الفور تبادلہ
2 ۔ بھکر سے بہت دور تعیناتی
3۔ پیڈا ایکٹ کی کارروائی
4۔ ذہنی اذیت
5۔ انکوائریاں
6۔ بھرتی کینسل
7۔ غلام بن جائیں
8۔ تعلیم میں سیاسی مداخلت جائز قرار دینے جیسی معصوم خواہشات کا اظہار کیا جاتا
رہا۔ ان مطالبات میں بظاہر اساتذہ کی بے توقیری کے اور کچھ نہیں۔
جو قوم اپنے اساتذہ کی عزت نہیں کرتی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی، اُستاد قوم کا
معمار ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے اور رسالت مآب کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے”
میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ ۔ حضرت سیدنا علی ؓ نے ارشاد فرمایا” جس نے مجھے
ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے
رکھے“ ۔ایک اور موقع پر سیدنا علی کا فرمان ہے ”عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ
بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لیے تیار ہوجاو ¿“۔یہ الفاظ
کن ہستیوں کے ہیں شاید ان کی شرح کی ضرورت نہیں۔تاریخ کا ایک باب یہ ہے کہ حضرت
امام ابو حنیفہ ؒ اور آپ کے استاد امام حماد بن سلیمانؓ کے گھر کے درمیان سات گلیوں
کا فاصلہ تھا لیکن آپ کبھی ان کے گھر کی طرف پاو ¿ں کرکے نہیں سوئے۔ دوران درس اپنے
استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ امام حمادکی ہمشیرہ عاتکہ کہتی
تھیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ہمارے گھر کی روئی دھنتے، دودھ اور ترکاری خرید کر
لاتے اور بہت سے کام کرتے تھے۔ ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتا تو
بادشاہ ان کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رعب
جاتا رہتا ہے، تو جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو
جانے ہی کے قابل ہے۔
تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ ایک طاقتور خلیفہ کے بیٹے اپنے معلم کو جوتا پہنانے
کے لیے جھگڑتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹے تھے، امین اور مامون جو کہ امام
کسائی کے شاگرد تھے۔ایک مرتبہ استاد اپنی مجلس سے ا ±ٹھے تو دونوں بھائی جلدی سے
استاد کو جوتے پکڑانے کے لیے لپکے۔دونوں میں تکرار ہو گئی کہ کون استاد کو جوتے پیش
کرے۔بالآخر دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا پیش کر دیں۔جب
ہارون الرشید کو اس قصے کا پتہ چلا تو اس نے امام کسائی کو بلایا۔جب وہ آئے تو
ہارون رشید نے کہا”لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟۔امام کسائی نے کہا”میری
رائے میں امیر المومنین سے زیادہ عزت والا کون ہو سکتا ہے”،خلیفہ نے کہا،عزت والا
تو وہ ہے کہ جب وہ اپنی مجلس سے اٹھے تو خلیفہ کے دونوں صاحب زادوں میں اس بات پر
جھگڑا ہو کہ ان میں سے کون استاد کو جوتے پہنائے۔امام کسائی نے سوچا کہ شاید خلیفہ
اس بات پر ناراض ہوا ہے، لہذ اپنی صفائی پیش کر نے لگے۔ہارون رشید نے کہا سنیے!اگر
آپ نے میرے بیٹوں کو اس ادب واحترام سے روکا تو میں آپ سے سخت ناراض ہو جاو ¿ں گا۔
اس کام سے ان کی عزت ووقار میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے
اندر چھپی ہوئی فراست کا اظہار ہوا ہے کہ وہ کتنے عقلمند اور دانا ہیں۔سنیے! خواہ
کوئی شحص کتنا ہی عمر، علم یا مرتبے میں بڑا کیوں نہ ہو ، تین افرد کے سامنے بڑا
نہیں ہوتا،”قاضی ، استاد اور اپنے والدین کے سامنے”،تاریخ کا ایک اور باب یہ بھی ہے
کہ سکندر اعظم اپنے معلم کے بارے میںکہتا ہے کہ ”ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر
تیار ہو جائیں گے مگر ہزاروں سکندر مل کر ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔“ وہ مزید
کہتا تھا! ”میر اباپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر میرا استاد وہ
عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا“۔
اور اب تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ انگریز دور کی میراث یعنی ہماری بیوروکریسی
سیاستدانوں کی ایما پر ایک معلم کوکٹہرے میں کھڑے ہونے کا حکم دیتی ہے۔ ہماری اعلی
بیوروکریسی شاید بھول گئی کہ یہ ایک معلم ہے جس کی بدولت وہ اس عہدے پر پہنچے، وہ
کیا بلکہ اس ملک کے وزیر اعظم تک سبھی انہی اساتذہ کا اعجاز ہے کہ وہ اس مقام پر
کھڑے ہیں۔کیا بیوروکریسی اور سیاستدان شریفوں اور حاجیوں کا ٹولہ ہے؟ کیا پولیس کا
محکمہ دودھ سے دھل گیا ہے؟ کیا صحت کے محکمے کا قبلہ درست ہو گیا ہے؟ کیا انصاف کے
محکمے میں سبھی ایماندار اکٹھے ہیں ؟ کیا سبھی سیاست دان ہاتھوں میں تسبیح لیے گھوم
رہے ہیں؟؟؟ مان لیا اساتذہ کی کوتاہیاں ہوں گی، مان لیا ان میں کام سے کترانے والے
بھی شامل ہوں گے، مان لیا وہ اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہے؟ مگر کیا تعلیم کا
پورا شعبہ ہی خراب ہے؟؟ ان میں کتنے ہی ایسے ہیں جو محض ایک منٹ اس لیے ضائع نہیں
کرتے کہ یہ بچے قوم کا اثاثہ ہیں کہ ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان میں سے کتنے
ہی ایسے ہیں جنہوں نے کئی نسلوں کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان
میں کتنے ہی ایسے ہیں جو روزانہ موسم کی صعوبتوں کو جھیل کر کئی میل سفر کرتے ہیں
کہ ان کے فرائض منصبی میں کوتاہی نہ ہو۔ستائیس سال تک دن رات ایک کرکے زیور تعلیم
سے آراستہ کرنے والوں کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا ؟؟ لوگ ورطہ حیرت میں ہیں۔
آج معاشرتی انحطا ط کا جو عالم ہے کیا کبھی اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی
ہے؟ مگر نہیں یہ کوئی ما بعد الطبیات کا سوال نہیں ہے بلکہ محض ایک سادہ سا نکتہ ہے
کہ امام ابو حنیفہ ،ہارون الرشید اور سکندر اعظم جیسے لوگ تاریخ میں کیوں زندہ ہیں؟
کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے اساتذہ کی بے توقیری نہیں کی تھی بلکہ ان کے جوتے اٹھانے
میں فخر محسوس کیا تھا اور ہمارے معاشرتی زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معلم کو
اچھوت بنا دیا ہے اور جو معاشرے اپنے معلموں کی عزت نہیں کرتے رسوائی اور ذلت ہی ان
کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
قارئیں تمہیدی کلمات سے لے کر تاریخی واقعات بیان کرنے کا مقصد عام فہم لوگوں کو
اصل حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔ قوم کے معماروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آپ
اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی سوچ اور وژ ن کیا ہے ؟ تعلیم دوستی اور
میرٹ کی رٹ لگانے والی پنجاب حکومت اور اس کے ممبران اسمبلی دراصل خود تعلیم اور
میرٹ کی بے توقیری کررہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے وژن اور
میرٹ پالیسی کی کس طرح سیاستدان دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور ان کے نام پر کس کس کو
کیسے مبینہ طور پر بلیک میل کررہے ہیں اس کا ثبوت حالیہ تبدیلیوں سے لگایا جاسکتا
ہے۔ ہزاروں لاکھوں طلبا ¾کو زیور تعلیم دینے والے اساتذہ آج انکوائریوں اور تبادلوں
کی زد میں ہیں، قوم کے معماروں کی بے توقیری کی جارہی ہے، اُن پر ایسے ایسے گھٹیا
الزامات لگا کر بلیک میل کیا جارہا ہے جو عام انسان کی سوچ اور فہم سے بھی ماورا
ہیں اور انہیں عقل تسلیم بھی نہیں کرتی۔ بقول حبیب جالب
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچا ہے
کھوتا گاڑی والا کیوں مانے
جب بھوکا اس کا بچہ ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
|