ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلیفہ چہارم حضرت علی
المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم کے قریبی ساتھی ،مشہورشاعراورعربی صرف
ونحوکے ماہرتھے ۔آپ کے بارے میں یہ کہاجاتاہے کہ آپ نے عربی گرائمرپرایک
کتاب بھی لکھی تھی ۔اس کے علاوہ قرآن مجیدپرسب سے پہلے اعراب لگانے کاعظیم
کارنامہ بھی انہی سے منسوب کیاجاتاہے۔آپ کی ولادت ہجرت سے سولہ سال قبل مکہ
المکرمہ کے قریب حجازمقدس میں ہوئی روایات میں آتاہے کہ آپ نے جنگ جمل
اورجنگ صفین میں حضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم کے قافلے کی
طرف سے شرکت کی۔ قبیلہ بن کنانہ سے آپ کاتعلق تھا۔آپ کے دوبیٹے جن کے نام
عطااورابوحرب تھے۔69ہجری میں بصرہ میں طاعون کی وباء پھیلی۔جس کی وجہ سے
سینکڑوں لوگوں کے ساتھ ساتھ ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی
شہادت پائی۔عربی شاعری میں آپ کابہت بڑامقام ہے۔آپ نے اہلبیت کرام کی شان
میں بڑے پُراثرمرثیے بھی لکھے تھے۔
طبرانی اوربرزانے حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ،ترمذی اورحاکم
نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت کی ہے ۔کہ سرکارمدینہ
راحت قلب وسینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا’’میں علم کاشہرہوں
اورعلی اس کادروازہ ہے‘‘۔
سرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم جب علم کاشہر،حضرت علی المرتضیٰ
شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم اس کادروازہ ہیں تویقیناحضرت علی المرتضیٰ
شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم کے خادم بھی صاحب علم ہوں گے ۔
تاریخ اسلام کااگرہم مطالعہ کریں تویہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے
کہ جب قرآن مجیدفرقان حمید سرزمین عرب سے عجم گیا۔توعجمی لوگ قرآن
مجیدپڑھنے میں غلطیاں کرنے لگے۔حضرت علی المرتضی شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم
کواس بات کی فکرلاحق ہوئی کہ قرآن مجیدفرقان حمیدپراعراب کے حوالے سے کام
کیاجائے(یعنی اعراب لگائے جائیں)اگراعراب نہ لگائے گئے تولوگ زیادہ غلطیاں
کرنے لگ جائیں گے۔لیکن آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت کی ذمہ داریاں
اورنت نئے سراٹھاتے فتنوں نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوبلکل مہلت نہ دی
۔قربان جاؤں علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم پرکہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے پھربھی اپنے شاگردخاص ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوطلب کرکے
سارے علمی نکات ورموزسمجھادیے۔ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کام
کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عرب کے فصیح اللسان چالیس افرادکاانتخاب
کیا۔ان چالیس افرادکی تدریب کے بعدان کاجائزہ لیاپھرچالیس افرادمیں سے دس
آدمیوں کاانتخاب کیاگیا۔پھردس اشخاص کی اورمزیدخاص تربیت کرکے ان کاجائزہ
لیاگیا۔پھرا ن دس آدمیوں میں سے ’’بنی عبدقیس‘‘نامی شخص کاانتخاب
کیاگیااوراس سے کہاکہ’’جب کسی حرف کو اداکرنے میں میرامنہ کھلے توحرف کے
اوپرنقطہ لگانا(یعنی کہ انفتاح فم ہوتوفتحہ لگاؤاسی وجہ سے اسکوفتحہ کہتے
ہیں)۔اوراگرکسی حرف کے اداکرنے میں میرے ہونٹ گول ہوں تواس حرف کے ذراآگے
نقطہ لگانا(یعنی کہ انضمام شفتین ہوتوحرف کوضمہ لگائیں اسی وجہ سے اسکوضمہ
کہتے ہیں)۔اوراگرکسی حرف کے اداکرنے میں میری آوازپستی کی طرف جارہی ہوتواس
حرف کے نیچے ایک نقطہ لگاؤیعنی کے انخفاض وانکسارصوت ہوتوحرف کے نیچے کسرہ
دینااس لئے اسے کسرہ کہتے ہیں۔یہ کارنامہ ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کاہے۔یہی ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کامروجہ طریقہ وطرزِاعراب
لوگوں میں جاری رہا۔لوگ اس سے متعارف ہوگئے اوریہ سلسلہ تقریباًسوسال تک
چلتارہا۔اس کے بعدامام خلیل بن احمدالفراھیدی النحوی نے ان مذکورہ
ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ کے طریقے کوسامنے رکھ کراعراب کے مقام
کوتواسی حال پرقائم رکھا۔مگراعراب کی نئی شکل تجویزکی اوروہ اس طورپرکہ
تینوں حروف علت’ ’الف،واؤ،یا‘‘کومتعین کیا۔فتحے کے لئے الف کاانتخاب
کیا۔ضمے کے لئے واؤکااورکسرے کے لئے یاکاانتخاب کیا۔الف کوچھوٹاکیا تووہ
الف مقتصراًبناتویہ الف ثابتہ کیطرح الف مقتصرہ ،یہ تکرارسالگنے لگا۔
لہذااعراب کوفرق دیتے ہوئے اس کوترچھا (مطبوحۃ،مضطجعا)رکھا۔اس طرح فتحہ
یعنی زبروجودمیں آیااب اسے حرف کے اوپررکھا۔اسی طرح
واؤکومقتصراًچھوٹاکیاتواس طرح ضمہ یعنی کہ’’ پیش ‘‘وجودمیں آیا۔اسے حرف کے
اوپرہی رکھا۔آگے کی جانب نہیں رکھاکیونکہ وہاں یکساں نقطے دائرے کی شکل میں
لگے تھے۔اوراسی نقطے کے ذریعے زبراورزیرمیں فرق کرنامقصودتھا۔
لہذاابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے زبرکواوپراورپیش کوذراآگے کی
جانب رکھامگریہاں خود’’فتح وضم ‘‘اب بذاتہ ممتازہیں اپنی شکل سے تواب’’ فتح
وضم‘‘ اوپرہی آئے گا۔’’ضمہ ‘‘آگے نہیں آئے گا۔اسطرح یہ اعراب اولاًوجودمیں
آئے ۔نیزامام خلیل نے’’ علامت جزم‘‘ کے لئے ’’جزم‘‘ کی’’ ج ‘‘کاسراوضع
کیا۔نیزآپ نے’’ ش‘‘ کے دندانے وضع کیے۔’’مد‘‘کے لئے بھی آپ ہی نے ’’مد‘‘کے
کلمے کوممتدیعنی دارزکرکے اسکی درازشدہ شکل وضع کی۔آپ نے ہمزہ وصلی کے لئے
’’الف‘‘ کے اوپر’’ہمزہ وصلی ‘‘کی ’’صاد‘‘لگائی۔امام خلیل نے ہی’’ ہمزہ قطعی
‘‘کی ’’ع ‘‘کاسراوضع کیا۔ہمزہ مفتوحہ اورمضمومہ کوالف کے اوپراورمکسورہ
کوالف کے نیچے لگایا۔نیزامام خلیل ہی نے علامت روم واشمام بھی وضع کیے۔ان
دونوں تاریخوں پرغورکرنے سے پتاچلاکہ مکمل سوسال تک لفظ اعراب چلتے
رہے۔پھرجب اسلام مزیدپھلنے پھولنے لگاتوابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
ہی کے دوشاگرنصربن عاصم اللیثی (سن ۹۰ہجری)،یحیٰ ابن یعمرالعدوانی قاضی من
خراسان (المتوفی سن ہجر۱۲۹)بنوامیہ کے پانچویں اوراخیری دورمیں خلیفہ
عبدالملک بن مروان نے اپنی تخت نشینی ہونیکے کچھ عرصہ کے بعدہی اس حال سے
باخبرہوکراپنے عراقی گورنر حجاج بن یوسف الثقفی(المتوفی سن۹۵ہجری)کوفرمان
جاری کیاکہ ابوالاسودالدولی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مجوزہ علامتیں ناکافی
ہورہی ہیں اس کے لئے یہ مشورہ علماء وفضلاء اوران میں مزیدترمیم وتعمیم کی
جائے۔لہذاحجاج نے اہل علم سے مشورہ کیاپھرحسب رائے نصربن عاصم ویحیٰ بن
یعمرکے نام تفویض کے گئے۔انہوں نے متشابہ حروف کی تمیزکے لئے ایک،دواورتین
نقطے تجویزکیے ۔البتہ اعرابی لفظوں کوبھی برقراررکھاگیامگردونوں میں فرق
یوں رکھاگیا۔کہ اعراب کے لئے ساہ نقطے اوراورحروف کی تشخیص کے لئے سرخ نقطے
لگائے گئے تھے۔
بیہقی نے شعب الایمان میں صعصعہ بن صوحان رحمہ اﷲ سے روایت کیا کہ ایک
دیہاتی حضرت علی المرتضیٰ شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا یہ
حرف کیسے ہیں آیت لَّا یَاْکُلُہٓ‘ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَاس کو نہیں کھاتے
مگر قدم اٹھانے والے یعنی کھائیے اﷲ تعالیٰ قدم کھولے ہوئے ہے تو علی
المرتضیٰ شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہنس پڑے اور فرمایا اے دیہاتی یہ الفاظ
اس طرح ہیں۔ لَّایَاْکُلُہٓ‘ اِلَّا الْخَاطِئُوْن خطا کاروں سے سوا اس کو
کوئی نہیں کھائے گا۔ دیہاتی نے کہا اے امیر المومنین! اﷲ کی قسم! آپ رضیٰ
اﷲ تعالی عنہ نے سچ فرمایا اور اﷲ تعالیٰ نہیں ہیں کہ وہ اپنے بندے کو اس
کے حوالے کردے۔ پھر حضرت علی المرتضیٰ شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو الاسود
کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ عجمی لوگ مکمل طور پر دین میں داخل ہوچکے
ہیں پس تو لوگوں کے لیے ایسی چیز وضع کردیجیے کہ جن کے ذریعہ وہ اپنی
زبانوں کی اصلاح اور درستگی پر دلیل پکڑ سکیں تو انہوں نے ان کے لیے پیش،
زبر اور زیر کی حرکات مقرر کردیں۔لا یاکلہ الا الخاطؤناسے صرف گناہگار ہی
کھائیں گے۔(شعب الایمان جلد۲،تفسیردرِمنثورجلدششم پارہ ۲۹تفسیرسورۃ الحاقہ)
ابوالقاسم زجاجی امالیہ میں چندراویوں سے روایت کرتے ہیں کہ ابواسوالدؤلی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک روزحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ
وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضرہوامیں آپ ؓ کونیچی گردن اورمتفکردیکھ کرعرض
کیاکہ آج آپ متفکرکیوں بیٹھے ہیں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ میں نے
سناہے کہ تمہارے شہرمیں لغات کے اندرتبدل شروع ہوگیاہے اس لئے میں نے ارادہ
کیاہے کہ عربیت کے اصول کے اندرکچھ قواعدمنضبط کردوں تاکہ زبان کی حیثیت
قائم رہے ۔میں نے کہاکہ اگرایساکریں گے توہم پربڑااحسان ہوگا۔اورآپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے بعدوہ اصول ہمیشہ باقی رہیں گے ۔تین روزکے بعدجب میں
پھرحاضرخدمت ہواتوآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک کاغذ نکال کرمیرے سامنے رکھ
دیا۔اس میں بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحیم کے بعدلکھاتھاکہ کلام کی
تین اقسام ہیں ۔اسم،فعل،حرف، اسم وہ ہے جواپنے مسمی کی خبردے اورفعل وہ ہے
جواپنے مسمی کی حرکت کی خبردے اورحرف وہ ہے جس میں یہ دونوں خاصیت نہ پائی
جائیں۔ جب میں یہ دیکھاچکاتوآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ اگرتمہارے
ذہن میں کچھ ہوتواسمیں زیادہ کردو۔پھرآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ
اشیاء تین قسم کی ہوتی ہیں۔ظاہر،مضمراورایک ظاہرنہ پوشیدہ ۔اس تیسری قسم
پرعلماء نے بڑی بڑی بحثیں کی ہیں۔ابوالاسودالدؤلی کہتے ہیں کہ میں
پھرچلاآیااورمیں نے بھی کچھ جمع کرکے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش
کیا۔منجملہ ان کے حروف ناصبہ بھی میں نے لکھے تھے جویہ تھے ۔اِنَّ
،اَنَّ،لَیْثَ،لَعَلَّ،کَاَنَّ ،آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ لٰکِنَّ
بھی توحرف ناصبہ ہے اس کوکیوں نہیں ذکرکیا۔میں نے عرض کیاکہ میں اسے حرف
ناصبہ نہیں سمجھتا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایانہیں وہ بھی حرف ناصبہ ہے
ان میں اضافہ کردو۔(تاریخ ِ خلفاء صفحہ۳۶۰،۳۵۹)
عرب لوگ اپنے حسب و نسب کے معاملے میں بہت حساس ہوتے تھے۔ان کے بچوں کی
ہونے والی ماں یا ان کی ہونے والی بہو رنگ روپ میں کم ہو تو ہو مگر شرافت و
عفت میں اس کا معیار بہت بلند کے طالب ہوتے تھے۔ایک مرتبہ ابوالاسود الدؤلی
نے اپنے بیٹوں سے کہا" میں نے تم پر احسان کیا جب تم چھوٹے تھے اور جب تم
بڑے ہوئے اور اس سے بھی پہلے کہ تم پیدا ہوتے "بیٹوں نے پوچھا آپ نے ہمارے
پیدا ہونے سے پہلے ایسا کونسا احسان ہم پر کیا ہے۔ جواب میں
ابوالاسودالدؤلی نے کہا میں نے تمہارے لیے ایسی ماؤں کا انتخاب کیا جن کی
وجہ سے تمہیں کوئی گالی نہیں نکال سکتا"۔(بحوالہ ضیاء القرآن جلدا)
خلفیہ چہارم سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم کی شہادت
پرمرثیہ
حضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اﷲ وجہہ الکریم کے وصال پرابوالاسوددئلی نے
جومرثیہ تحریرکیاتھا۔تاریخ کے اوراق میں اسے سنہری حروف میں لکھاگیاہے
۔حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی مشہورتصنیف تاریخ ِ
خلفاء میں اس مرثیہ کوقلمبندکیاہے۔’’اے آنکھ !خبردارافسوس ہے تجھ پرکہ
تومیری موافقت کیوں نہیں کرتی اورحضرت امیرالمومنین پرکیوں نہیں روتی ۔ان
کے اوپرام کلثوم روتی ہیں۔اوران پرآنسوبہاتی ہیں۔انہوں نے یقین کودیکھ
لیاخوارج جہاں کہیں ہوں ان سے کہہ دوکہ ہمارے حاسدوں کی آنکھ کبھی ٹھنڈی
نہیں ہوتی ۔کیارمضان المبارک کے ہی مہینہ میں ہمیں غم دیناتھا۔ایسے آدمی کی
جدائی کی وجہ سے جوسرتاپاخیرتھاتم نے اس آدمی کوقتل کردیاجوتیزاونٹی
پرسوارہوتاتھا۔اوراس کوذلیل کردیاجوکشتی پرسوارہوتاتھا۔اورجوجوتے
پہنتاتھااورمثانی اورمبین پڑھتاتھا۔تمام مناقب اس میں موجودتھے ۔اوررسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اس سے محبت رکھتے تھے ۔اہل قریش جہاں کہیں ہوں وہ
یادرکھیں کہ وہ دین ونسب میں ان کے بہترین آدمی تھے ۔جس وقت ابوالحسن
کاچہرہ سامنے آجاتاتھاتومعلوم ہوتاتھاکہ بدر(چاند)نکل آیاہے۔ہم ان کی شہادت
سے پہلے سمجھتے تھے کہ ہم اپنے اندررسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے دوست
کودیکھ رہے ہیں۔حق قائم رکھنے میں کوتاہی نہ کرتے تھے اوردوست دشمن کے ساتھ
برابرعدل کرتے تھے ۔وہ علم چھپانے والے نہیں تھے اورنہ وہ متکبرپیداہوئے
تھے ۔علی المرتضیٰ شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوکھوکرلوگ ایسے ہوگئے تھے جیسے
شترمرغ قحط سالی میں ماراماراپھرتاہے ۔معاویہ بن صخرکوبرانہ کہوکیونکہ
خلفاء کابقیہ اب بھی ہم میں موجودہے ۔(بحوالہ تاریخ خلفاء صفحہ۳۷۱)
اﷲ پاک ہمیں آ قاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی سچی اورپکی غلامی نصیب
فرمائے۔آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے اسوہ حسنہ پرچلنے اوراس کے مطابق
زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔وطنِ عزیز پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ
بنائے ۔ملک پاکستان میں نظام مصطفی صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم !برپا
کرنیوالاحکمران عطافرمائے ۔بروزقیامت آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی شفاعت
اوراپنی جنت کاحقداربنائے ۔مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحادنصیب فرمائے
۔آقاصلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے غلاموں کابول بالافرمائے ۔دشمنان ِ
اسلام،منافقین ،حاسدین کامنہ کالافرمائے ۔آمین ثم آمین |