سراپاشرافت، شجرہ نبوی کی اساس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
لختِ جگر، خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت حسین رضی
اللہ عنہ کی زندگی پر لکھیں بھی تو آخر زندگی کے کس پہلوپر؟ جنہیں خود ہی ایسی
فضیلت اور برتری حاصل کہ اس کے سامنے دنیا کے تمام حسب و نسب والے ہیچ،جو پیدائش سے
ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر۔ جن کی پیدائش پہ خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے لعاب ِدہن ان کے منہ میں ڈالا، برکت کی دعا فرمائی۔ جن کی پرورش اسلامی ماحول
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ ہوئی۔
جن کے رونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان اور جدائی سے بے تاب ہوجاتے۔ جن کی
پیاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے قرار ہوجاتے۔جو کبھی نانا کے کندھے پر تو کبھی
پیٹھ پر سوارہوجاتے۔ ناناجی جب حالت سجدہ میں ہوتے، اسی دوران پیارے نواسے پیٹھ
پرسوار ہوجاتے تو آپ سجدہ لمبافرمادیتے۔
بلاشبہ آپ اصحاب محمدﷺ کے مخدوم ومکرم، قریش کے بہادر، جرنیل، متقی، محاسن وفضائل
کا عنوان اور پُروجاہت سردارتھے۔ کائنات کے سب سے عظیم رشتے جنہیں نصیب تھے۔ والد
علی، والدہ فاطمہ، نانارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ام المومنین خدیجہ آپ کی
نانی، چچا جعفر ، پھوپھی ہالہ بنت ابی طالب، ماموں قاسم بن محمداور خالہ زینب بنت
محمد(رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عشق و محبت کے دعوے دارکے لیے ان کا ذکر خیر کسی آب حیات سے
کم نہیں۔ محرم کی مناسبت سے آج ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ذکرخیر کرکے سعادت
مندی کے ذرات چننے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت6 شعبان، 4ہجری میں ہوئی۔ولادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر پیش کیے گئے۔آپ ﷺنے کان میں اذان کہی ۔ ساتویں
روز سر کے بال مونڈ کر ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کی گئی ۔ آپ کا نام پہلے ”حرب“
رکھاگیاتھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام تبدیل کرکے” حسین“ رکھا۔
آپ کی قدرومنزلت کے سب صحابہ قائل تھے۔ آپ نے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کی صحبت
پائی، انہیں ان کے ہاں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ ابن عمر رضی
اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”محمدصلی اللہ علیہ
وسلم کے اہل بیت کاخیال رکھنا۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرات حسنین رضی اللہ
عنہماکو ان کے والد کے وظیفے کی بقدر وظیفہ عطافرماتے تھے۔ ایک مرتبہ یمن سے کچھ
لباس آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ سب بچوں میں تقسیم فرمادیے، حضرات حسنین رضی
اللہ عنہ کو ان میں سے کچھ نہ دیااور فرمایا کہ ان کے شایان شان کوئی لباس نہیں جو
انہیں دیاجائے۔ اس کے بعد یمن کے گورنر کے نام پیغام بھیجا اور ان کے لیے عمدہ جوڑے
منگوائے۔
ابن ہزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں شریک تھے، اتنے میں دیکھتے
ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے ساتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے
پاؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے آرہے ہیں۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے
سایہ میں تشریف فرماتھے، اسی اثنا میں سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھاتو
فرمایا:”یہ نوجوان آسمان والوں کی نگاہ میں تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہے۔“
حضرت حسین رضی اللہ عنہ تمام اوصاف و کمالات کے جامع اور ہرلحاظ سے کامل و مکمل
تھے۔نانا سے تو کم عمری کی وجہ سے براہ راست استفاد ے کا موقع بہت کم ملا، لیکن
حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے والد کی تربیت نے یہ کمی پوری کردی۔ آپ نے بیٹے کی
تربیت اس انداز سے کی کہ وہ علم وعمل، زہد وتقوٰی، جود وسخا، ہمت وشجاعت، اخلاق
ومروت، صبروشکر، حلم وحیا، احسان شناسی، حسن تدبیر، بے مثال دانش مندی، مہمان نوازی
اورغریب پروری میں شہرہ آفاق تھے ۔
ہرسورج کے مقدر میں غروب ضرور لکھا ہوتا ہے۔ سورج ہرروز اپنی کرنیں بکھیرتا مشرق سے
سفر شروع کرتاہے اور مغرب میں جاکر ہم سے چھپ جاتاہے۔حضرت حسین کے بارے میں آپ ﷺکو
بتادیا گیا تھاکہ آپﷺ کی امت کے لوگ آپ ﷺکے جگرگوشہ کو قتل کردیں گے۔ چنانچہ تاریخ
انسانی نے وہ منظر بھی دیکھا جب کائنات کی عظیم ترین ہستی کے عزیز ترین نواسے میدان
کربلامیں ظلم کے آگے سیسہ پلائی دیواربن گئے۔ اس کڑے وقت میں بھی آپ ظالم، جابر
بادشاہ کے آگے کلمہ حق کہنے پر ڈٹ گئے۔ ظالم اپنی تمام تر مذموم کوششوں کے باوجود
آپ کو اپنے حق میں رام نہ کرسکا۔ پھروہی ہوا جو ظالم سماج شروع سے کرتاآیا ہے۔ نانا
کی یہ پیشگوئی:”میں دیکھ رہاہوں کہ ایک چتکبرا کتا میرے اہل بیت کے خون سے اپنا منہ
رنگین کیے ہوئے ہے“ پوری ہوگئی۔آپ کو بروزجمعہ دس محرم 61ہجری کوشہیدکردیا گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ تو دنیا سے چلے گئے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو بعد میں
ایک لمحہ بھی سکون کا میسر نہ آیا۔شمرذی الجوشن جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے
میں سب سے زیادہ بدبخت اور متشدد تھا، اس کو قتل کرکے اس کی لاش کتوں کے سامنے ڈال
دی گئی۔حکیم بن طفیل نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے تیر ماراتھا، اس کا بدن
تیروں سے چھلنی کردیا گیا اور اسی میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔
میدان کربلامیں آپ رضی اللہ عنہ کو پیاس لگی۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے لگے تو ایک
بے رحم و بے وقعت حصین بن نمیر نامی بدبخت نے تیر مارا جو سیدھا آپ کے گلے میں جاکے
لگااور خون کا فوارہ ابل پڑا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خون اپنے ہاتھوں میں لے کر آسمان
کی طرف اچھالااوریہ دعاکی:”اے اللہ ان سب کو گھیرلے، ایک ایک کرکے قتل کراور کسی کو
بھی زمین پر زندہ مت چھوڑ۔“ فوراً ہی تیر مارنے والے پر اللہ پاک نے پیا س مسلط
کردی، اسے ٹھنڈاپانی پلایا جاتامگر پیاس نہ بجھتی حتٰی کہ دودھ اور پانی ملاکر
پلایا جاتامگر کارآمد نہ ہوتا۔یہ شخص بری طرح چلاتا، تمہاراناس ہو! پیاس نے مجھے
مارڈالا، مجھے پانی پلاؤ، چنانچہ پانی پی پی کر اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھول
گیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمارے لیے پیغام ہے کہ جب طاغوت کا سامنا ہو تو
خود اپنی جان تو کیا، اپنے اہل وعیال کی جان کی پروا بھی نہیں کرناچاہیے۔ پھر کسی
ملامت کرنے والے کی ملامت کے ڈرکو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ آگے بڑھ کر اپنی جان
راہ حق میں قربان کردینا چاہیے کہ آخرت تو پھر شہداءکے لیے ہی ہے۔
حضرت حسین کاجہاد اور بے مثال قربانی اپنے اقتدار کے لیے نہ تھی، بلکہ ان کا مقصد
دوٹوک اور واضح تھا۔وہ چاہتے تھے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کانظام ہو، کتاب وسنت کے
قانون کا صحیح معنی میں نفاذ ہو۔اسلام کانظام عدل اپنی اصل روح کے ساتھ پھر سے قائم
ہو۔
آج عزم واستقلال کے عظیم پیکر کی بے مثال قربانی منتظر ہے اس روح کی، جو اس شہید
کربلاکی پکار کو سنے اور ان کے مشن کو انجام دینا اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔کوئی ہے
ایسا؟
|