مذہبی انتہا پسندی کب تک؟

دہشت گردی ہے تو ایک عالمی مسعلہ۔مگر اس کی جو قیمت پاکستان کو چکانا پڑی۔وہ بہت زیادہ ہے۔ستر سال سے زائد بر س کی اس ریاست میں ہمیشہ مائٹ از رائٹ کا اصول چلتا رہا۔اسی سبب یہاں کوئی مرکزی قانون اور اصول نہیں بن پایا۔یہاں ہر طبقہ اپنی منوارہا ہے۔ہر ادارہ اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں ہے۔اور ہر عہدے دار اپنا سکہ چلانے کے موڈمیں۔دہشت گردی کو اگر بدکردار حکمرانوں نے ہوا دی ہے۔تو مذہبی دھڑوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔حکمرانوں سے مایوس لوگ بھی خدائی فوجدار بنتے رہے۔اور مذہبی جماعتوں کی اشتعا ل انگیز تبلیغ بھی جہادیوں کو جنم دیتی رہی۔اس سلسلے کی ایک مثال لال مسجد کا واقعہ ہے۔مشرف دورمیں ہونے والے کمانڈو ایکشن سے زبردست تباہی لائی گئی۔جانے کتنے معصوم بچے اس کمانڈو اپریشن کی بھینٹ چڑھے خود یہاں کے امیر عبدالرشید غازی بھی اس حملے کی نذر ہوئے۔لال مسجد کا ایشو خالصتا تیکنیکی ایشوتھا۔مگر دونوں طرف سے اسے جزباتی مسئلہ بنا لیا گیا۔ضد بازی نے حالات بگاڑے اگر مشر ف اسے حکومتی رٹ کا معاملہ نہ تصور کرتے تو بات شاید نہ بگڑتی۔اسی طرح اگر غازی برادران لال مسجد کو اسلام بچاؤ ممبر قرار نہ دیتے تو معاملہ سدھارا جاسکتاتھا۔دونوں طرف سے غیر حقیقی رویہ اپنائے جانے کے باعث یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔غازی برادران معصوم طلبا و طالبات کے ذہن میں بارود بھرتے رہے۔او رمدرسہ کو جہاد کا محور قرار دے دیا۔دوسری طرف مشر ف دنیا کو اپنا لبرل امیج دکھانے کے لیے لال مسجد کے خلاف کاروائی پر تیار ہوئے۔

انتہا پسندی کا سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی انداز میں نظر آتارہتا ہے۔حلف نامے میں تبدیلی کے ایشوپر حکومت کے خلاف مظاہرون کا سلسلہ اسی کا ایک باب ہے۔تحریک لبیک یارسول اللہ کے زیر اہتمام یہ مظاہرے بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ان مظاہروں میں حکومت پر توہین رسالت کی مرتکب ہونے کاالزام لگایاجارہاہے۔کہا جارہاہے کہ حکومتی لوگوں نے حلف نامے میں ترمیم کرکے کفر کیاہے۔یہ اپنے قیام کا جواز کھوچکی۔دوسری طرف حکومت مصر ہے کہ اول تو کوئی ترمیم ہوئی ہی نہیں ایک آدھ ا لفظوں کا ہیر پھیر تھا۔جسے درست کرلیا گیا۔اس طرح کے احتجاج کی کوئی معقولیت نہیں ہے۔وہ اس احتجاج کو اپنے خلاف اس سازش کا ایک حصہ تصور کررہی ہے جو مخصوص حلقے مسلسل کررہے ہیں۔بہرحال حکومت اور مذہبی دھڑوں کے درمیان حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے پر محاز آرائی کشیدگی کو بڑھارہی ہے۔کوتاہیاں دونوں طرف سے ہورہی ہے۔مذہبی جماعتیں بالخصوص مولانا خادم حسین رضوی صاحب اس معاملے میں بال کی کھال اتارنے کی حد تک جانے کی کوشش میں ہیں۔جبکہ حکومت کی طرف سے بھی کچھ لوگ جوش خطابت میں کچھ نامناسب بول بولنے کی خطا کرچکے۔نواز شریف کواس معاملے پر فوری مداخلت کرنے کی ضروت ہے۔ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ان کی جماعت کی طرف سے حلف نامے میں الفاظ کے ہیر پھیر کی کاتاہی ہوئی بھی تو کیسے ہوگئی۔اس کے بعد یہ جو رانا ثنااللہ سمیت کچھ لوگ ایسے بیان دے رہے ہیں۔جن کی بعد میں معافی مانگنا پڑے کچھ درست حکمت عملی نہیں نوازشریف کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضروت ہے۔

مولانا خادم حسین رضوی صاحب نوازشریف پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہے۔اگر چہ کیپٹن صفدر کی جانب سے قادیانیوں کے خلا ف بیان پر پاک فوج سے بڑا سخت بیان آگیا۔مگر رضوی صاحب نے توجہ نہ دی۔جب یہی بات رانا ثناللہ سمیت کچھ لیگی لوگوں نے کی تو مولانا صاحب سڑکوں پر نکل آنے کی بات کررہے ہیں۔ان کی شعلہ بیانیاں سن کر غازی برادران کی یاد تازہ ہوری ہے۔تب بھی پرویز مشرف کے خلاف اس طرح کی شعلہ بیانیاں معصوم بچوں کو ریاست کا باغی بننے پر مجبور کرگئی۔او روہ سرکٹوانے پر آمادہ ہوگئے۔مذہب سے متعلق جزباتی خطابت پاکستانیون کو ہمیشہ سے مشتعل کرنے کا باعث بنی ہے۔یہ مولانا عبدلرشید غازی اور مولانا عبدالعزیز غازی ہی تھے۔جن کی شعلہ بیانیون نے لال مسجد کے طلبا ء و طالبات کو حکومت وقت سے ٹکر لینے پراکسایا۔آج جناب خادم حسین رضوی اسی اسلوب کو آزمارہے ہیں۔مگر بد قسمتی سے انہیں اب تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔حلقہ ایک سو بیس میں انہیں عبرت ناک شکست کا سامنا رہا۔ان کی جماعت کی ضمانت ضبط ہوگئی۔اس حلقے میں بھی انہوں نے نوازشریف کے خلاف عوا م کو بدظن کرنے کے لیے بڑی شعلہ بیانیان کی تھیں۔مجھے کیوں نکالا کی جو تشریخ تحریک لبیک یارسول اللہ کی طر ف سے عوام کو بتائی گئی۔وہ بڑی تضحیک آمیز تھی۔مولانا کی یہ تشریح حلقہ کے عوام نے مسترد کردی۔نوازشریف کو وہاں سے قریبا باسٹھ ہزار ووٹ ملے اور ان کی جماعت صرف سات ہزا رووٹ لے پائی۔ا ب رضوی صاھب حلف نامے میں تبدیلی کے مدعے پر عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں مصروف ہیں۔لگتانہیں کہ وہ اس معاملہ پر بھی عوام کو قائل کرپائیں گے۔نوازشریف عوام میں ایک سافٹ امیج رکھتے ہیں۔ان کی شہرت پرویز مشر ف جیسی نہیں۔رضوی صاحب کی جانب سے حکمرانوں کو کافر قراردینے کی بے وزن باتیں عوام کے سرکے اوپر سے گزررہی ہیں۔رضوی صاحب اپنی نوزائدہ سیاست کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کب تک مذہب کو اپنی مقبولیت اور سیاست کے لیے استعمال کرتے رہے گے۔وقتی اشتعال سے کچھ لوگ اکٹھے تو کرلیے جاتے ہیں۔مگر بعد میں کوئی سمت اور آسرا نہ ہونے کے باعث یہی لوگ بجائے کسی بہتر یا بھلائی لانے کے معاشرے میں نئے بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.