شام میں جاری خانہ جنگی

دھول اور مٹی سے اٹا ہوامعصوم چہرہ اپنے گھر کے ملبے میں سے زندہ بچ گیا تھا۔ہاں وہ شام میں مشرقی حلب میں قیامت کا دن تھا ۔قیامت کا دن تو ہوگا ہی کیونکہ اس گلی کے سارے مکان تباہ ہوگئے تھے جہاں وہ اپنے بھائی بہنوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔آج اُس کا مکان تباہ ہوگیا تھااور مکان کے ساتھ اُس کے ماں باپ بہن بھائی سب ہی لقمہ اجل بن چکے تھے لیکن وہ مسکرارہا تھا ۔اُس کی تصویر بول رہی تھی کہ وہ غم ذدہ کیوں نہیں ہے وہ سات آٹھ سال کا ننھا شیر حلب میں بشاالاسد کی فوج کی طرف سے کیے گئے ظلم میں بچ گیا تھا اور بڑے اعتمادسے مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو،دیکھو میں زندہ ہوں!دیکھو میں زندہ ہوں۔۔۔تمھارا خاتمہ کرنے کے لئے میں زندہ ہوں،باطل کو ختم کرنے کے لئے میں زندہ ہوں،کفر کو ختم کرنے کے لئے میں زندہ ہوں اور میں مر بھی گیا تو میرے بعد آنے والے میرے جیسے بہت سے ننھے شیر تمھارا مقابہ کریں گے۔ جیسے کہہ رہا ہو، میں قربان میر ی ماں قربان میرا باپ قربان لیکن شام کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لئے ہم آخری دَم تک لڑے گے۔ انشااﷲ میری منزل قریب ہے میں ہی فتح پاو ْ گا۔ میں ہی کامیاب ہونگا تم چاہے ہزار کوشیش کر لو فتح میرا مقدر ہے ہاں میں زندہ ہوں ہاں میں زندہ رہوں گا۔
آنکھ کو پانی اور دل کو خون کرتے یہ مناظر ’’شام‘‘ کی سرزمین پر جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں۔ جہاں کتنے ہی لوگ بے سروسامان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کتنے ہی بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوچکے ہیں۔جہاں سخت سردی سے بچنے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ماں باپ کا سہارا بھی نہیں۔کبھی یہ بھی سکون کی زندگی جیتے تھے کبھی اَن کے گھر بھی آباد تھے۔ لیکن آج شام بناکتبوں کا قبروستان بن چکا ہے۔
بشارالاسد کی آمریت کے خلاف جاری مزاحمت کچلنے کے لیے حکمراں ٹولہ ظلم وستم کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ملک کی اکثریت بشارالاسد کی مخالف ہے، اس لیے شامی فوج کو ’’دشمن‘‘ کی کھوج نہیں لگانی پڑتی۔ وہ عموماً ایک ہی طریقہ استعمال کرتی ہے۔کسی بستی پر ہلہ بولا جاتا ہے، سب باسیوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے اور پھر موت ان کا مقدر کردی جاتی ہے۔

یہ مناظر لکھتے ہوئے میری روح کانپ رہی ہے، قلم لرز رہا ہے۔ ہاتھوں سے جان نکلی جارہی ہے، تو سوچیے! جن پر یہ سب گزر رہی ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ دل کو دہلاتے یہ مناظر خبروں اور تصاویر کی صورت ہم تک پہنچ رہے ہیں مگر ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا یوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ یہ بے اعتنائی کس لیے؟ ظلم تو ظلم ہوتا ہے اس کا کوئی مذہب، فرقہ یا مسلک نہیں ہوتا۔

یہ کیسی لڑائی ہے، کیسی جنگ ہے، جس میں عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے اور ایک جگہ جمع کرکے ان پر فائر کھول دیا جاتا ہے۔ لوگوں پر بھیانک تشدد کرتے ہوئے ان کے اعضا الگ کردیے جاتے ہیں۔ آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کردیا جاتا ہے۔ زندہ جلادیا جاتا ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔

شام میں چھڑپیں پندرہ مارچ سن دو ہزار گیارہ میں حکومت مخالف مظاہروں کی صورت میں شروع ہوئی ۔جس میں حکومت ،مخالفین ،النصرہ محاز اور داعش اور وائے بی جی ملیشیا گروپ کے درمیان خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں اب تک ساڑے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پانچ ملین شامی مہاجرین نے ترکی، لبنان ،عراق ،اردن اور مصر میں پناہ لے رکھی ہے۔ترکی کی سرحد پر قائم امدادی کیمپ میں7ء2 ملین شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔

شام میں دنیا کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے، جہاں ظلم کا سلسلہ بوسنیا، فلسطین اور کشمیر سے کہیں آگے نکل گیا ہے، مگر ایک دو ممالک کو چھوڑ کر عالم اسلام خاموش ہے۔ شام میں قیامت برپا ہے، ایسی قیامت کہ جس پر امت کے ہر فرد کو کم از کم احتجاج توکرنا چاہیے، مگر سب لب بستہ ہیں۔رہی بات آل سعودکی تو مصلیحت کے تحت صلیبیوں سے دوستی کرنا دنیا کے لئے کو ئی اچنھبے کی بات نہیں۔آل سعود بیانات دینے میں بڑے قادر ہیں شام کے مسئلہ پر خاموشی ان کے مفادات کا حصہ ہے۔

دوسری طرف ترکی نے شام کے صوبے ادلب پرفوجی کاروائی کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ترکی کے صد ر رجب طیب اردوان کہتے ہیں کہ فوجی حملے کا مقصد ادلب کے علاقے میں جہادی کنٹرول کا خاتمہ کرنا ہے ادلب کا زیادہ تر علاقہ جہادی تحریر الشام اتحاد کے قبضے میں جیسے القاعدہ کے سابق کمانڈر شامل ہیں جس نے گزشتہ سال اپنا نام بدل کر النصرہ محاذ رکھا ہے۔اردوان کہتے ہیں کہ" ہمیں اپنے بھائیوں کی مدد کرنی ہے جو حلب سے بھاگ کر ادلب پہنچے ہیں ضروری اقدامات کیے گئے ہیں اور یہ جاری رہیں گے فری سیرئن آرمی اس کاروائی پر عمل درآمد کررہی ہے جبکہ ہمارے فوجی وہان نہیں ہیں"کئی ہفتوں سے تر ک فوج ادلب کی سرحد پر اپنی فوجیں اکٹھی کررہی تھی۔

ایران ،روس ،ترکی،امریکاسب ہی شام کی صورتحال کے فریق ہیں۔ایران کی بات کی جائے توایک طرف ایران ان گرہوں کی حمایت کررہا ہے جو افغانستان میں طالبان کے خلاف کام کررہے ہیں۔یہ ایران ہی ہے جس نے عراق جنگ میں امریکا کے ساتھ ہاتھ ملایا ۔یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے کہ ایران شام میں اہل سنت کے قتلِ عام میں بشار الاسد کا ساتھ دے رہا ہے۔ایران خطے میں اپنا جارحانہ انداز قائم کیے ہوئے ہے ساتھ ہی مغربی ممالک سے تجارت کے ذریعے اپنی جوہری ٹیکنالونی کو ترقی دینے میں مصروف ہے۔دوہزار پندرہ میں ایران چھ عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ جسے جوائن کمپری ہنسوپلان اُف ایکشن (JCPOA)بھی کہتے ہیں دستخط کرتا ہے۔اس معاہدے کی روسے جو کہ سن دوہزارہؤپچیس میں ختم ہوگا ایران کو مزائل کی تیاری اور مشرقِ وسطیـ میں شورش بڑھانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ٹرمپ جو اپنے جوش خطابت میں ہوش میں رہنے سے اکثر قاصر ہوتے ہیں اس معاہدے کو ایک بدترین معاہدے کہتے ہیں اور خود کو امن کا سب سے بڑا پیامبر سمجھتے ہیں۔لیکن ٹرمپ اسی امریکا کہ صدر ہیں جس امریکا نے چھ اور نو اگست انس سو پیتالیس میں دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جس سے ایک وقت میں تین لاکھ افراد کی جابحق ہوگئے یہ وہی امریکا ہے جو افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی اور لاکھوں جانوں کے ضایع ہونے کا ذمہ دار ہے وہ کیسے امن کی بات کر سکتا ہے۔بہرحال امریکا ایران کے لئے سخت گیر موقف رکھتا ہے۔جب کہ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ دس ٹرمپ مل کربھی جوہری ڈیل تبدیل نہیں کردسکتے۔ساتھ ہی دبے لفظوں میں اپنی جارحانہ پالیسی کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ امن کے خواہشمند ہیں لیکن اس کے ساتھ غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بھی تیار ہیں۔

بشارالاسد کے سرپرست ملک کی طرف سے اسلحے کی کھیپ کی کھیپ اور ’’رضاکاروں‘‘ کی بڑی تعداد میں شام آمد نے خوں ریزی کے عمل کے حجم اور شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اسلحے کی کھیپ عراق کی فضا سے ہوتی ہوئی اس کے ہمسائے شام پہنچتی ہے۔ دوسری طرف اسد حکومت سے برسرپیکار گروہوں کے پاس شامی فوج سے لوٹا ہوا اسلحہ ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی کسی فرقے کی جنگ نہیں، یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان معرکہ ہے، غاصب و جابر حکمراں اور عوام کے درمیان لڑائی ہے، جس میں نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا اور سفاکی کی نئی کہانیاں رقم کی جارہی ہیں۔ بشارالاسد کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی اس کا ساتھ دے رہا ہے، کوئی صرف مذمت کی رسم ادا کررہا ہے اور کوئی چپ چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ رہا ہے۔ یوں اس ظلم میں سب شریک ہیں۔۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.