خبر بہت چھوٹی ہے، مگر سوچنے والوں کے لئے بہت بڑی
۔ لندن میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی گاڑی ان کے اپنے فلیٹس کے باہر
کھڑی تھی کہ مقامی پولیس نے غلط پارکنگ کے جرم میں 65پاؤنڈ جرمانہ کردیا
اور رسید گاڑی کے وائیپر میں لگا دی۔ ذرا چشمِ تصور سے دیکھئے پاکستان میں
ہوتے ہوئے میاں نواز شریف کی گاڑیوں کی کیا کہانی ہوتی ہے، اوّل تو وہ عام
طور پر وزیراعظم ہی ہوتے تھے، اس لئے ان کے آگے پیچھے بیسیوں گاڑیوں کا
قافلہ ہوتا تھا، روٹ متعین ہوتے تھے، گھنٹوں سڑک بند رکھی جاتی تھیں،
ہزاروں پولیس اہلکار حفاظتی حصار بنائے سڑکوں پر تعینات ہوتے تھے، پروٹوکول
اور سکیورٹی کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں الجھے
رہتے تھے۔ حکمرانوں کی سکیورٹی پر بات کرنا اُن کی توہین کرنے کے مترادف ہے،
اسے آئینی ضرورت قرار دے کر قوم کی تذلیل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مگر یہاں تو سیاست کہ گنگا ہی الٹی بہتی ہے ۔ اب موصوف وزیراعظم نہیں رہے،
بلکہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں،ان پر نیب وغیرہ میں مقدمات درج
ہیں، وہ اب بھی پیشی پر جاتے ہیں تو وہی پروٹوکول ان کے ہمراہ ہوتا ہے،
بلکہ بسا اوقات تو دور دراز سے بھی بہت سے کارکن آتے اور عدالت جاتے ہوئے
اپنے قائد کے ساتھ ہولیتے ہیں۔پولیس بھی اسی طرح تعینات ہوتی ہے، یہ ساری
کارروائی انتقاماً کی جاتی ہے، عدلیہ اور سیاسی مخالفین کو بتایا جاتا ہے
کہ ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘۔ مگر یہی لوگ جب لندن جاتے ہیں، تو سڑک کے
کنارے کھڑے باتوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، پروٹوکول اور سکیورٹی جیسے
عارضے وہاں لاحق نہیں ہوتے، وہاں حفاظتی حصار کا کلچر بھی نہیں۔ مگر انگریز
کی طرح پاکستان آتے ہی مردم بیزاری شروع ہو جاتی ہے۔ کیا یہ پاکستانی عوام
کے لئے دہرا معیار نہیں؟ کیا یہاں آکر سادگی اختیار نہیں کی جاسکتی؟ آخر اس
بے حسی اور دو رُخی کی وجہ کیا ہے؟ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ان تمام رویوں
کے باجود عوام موجود پارٹی لیڈروں سے حد درجہ متاثر ہیں۔ قانون کی تذلیل
اور تحقیر جس قدر مقتدر طبقہ کرتا ہے، عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر
سکتا۔ عام آدمی سے ایسا کوئی فعل سرزد ہو جائے جس سے قانون پر حرف بھی آتا
ہو تو قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے، قانون شکن کو آہنی ہاتھوں سے جکڑ لیا
جاتا ہے اور پھر چل سو چل۔
منتخب نمائندوں کی بے حسی دیکھئے، گزشتہ روز تک گوشوارے جمع نہ کروانے پر
چھ وفاقی وزراء سمیت 261 معزز ارکانِ پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کردی گئی۔ ان
نمائندوں کے حلقہ انتخاب میں ان کے ووٹروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے نمائندہ سے
اس کی کارکردگی کے بارے میں معلوم کریں، ان کا راستہ روکیں، ان کا دامن
تھامیں، ان سے پوچھیں ، جناب! آپ کے مشاغل کیا ہیں؟ آپ کی مصروفیات کیا ہیں
؟ کہ آپ کو گوشوارے جمع کروانے کی بھی فرصت نہیں، جبکہ یہ کارِ خیر انہوں
نے خود سرانجام نہیں دینا ہوتا، یہ ان کے وکیل کی ذمہ داری ہے۔ نہ یہ لوگ
ایوانوں میں جاتے ہیں، نہ ایوان کے اجلاس سے ان کو کوئی دلچسپی ہے، کورم
آئے روز ٹوٹ جاتا ہے، اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہو جاتا ہے۔ اجلاس منعقد ہونے،
کورم ٹوٹنے اور اگلے روز پھر یہی چکر ایک روایت بن چکا ہے۔ یوں ایک سرکل ہے
جو چلتا رہتا ہے، اسی بے حسی اور غیر ذمہ داری کی ہی موٹی موٹی تنخواہیں لی
جاتی ہیں، قومی خزانے میں نقب لگایا جاتا ہے، عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکی جاتی ہے، اور بہت حد تک بدیانتی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ اُدھر پنجاب
اسمبلی کا اجلاس ایک عرصے کے بعد منعقد ہوا، گھنٹوں معزز ارکان کے انتظار
میں گھنٹیاں بجائی گئیں،مگر ارکان نے آنا تھا نہ آئے۔ چار گھنٹے بعد اجلاس
کا آغاز ہوا تو کورم کی نشاندہی کر دی گئی، جو آئے وہ بھی ناکام واپس لوٹ
گئے، کوئی آئے نہ آئے اس کی تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے وغیرہ کھرا ہے، کٹوتی
وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس بے حسی اور ظلم کا نہ ہمارے نمائندوں کو احساس
ہے، کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور نہ ہی ووٹر کو فکر ہے کہ ان کے
کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے والا نمائندہ
حقِ نمائندگی کیسے ادا کر رہا ہے؟ تضاد کی کہانی ہے، منافقت کا چلن ہے، ظلم
کا رجحان ہے، بے حسی کا دور دورہ ہے، جانے عوام کب بیدار ہوں گے، اور کب
ظالم کا ہاتھ روکیں گے؟ |