بھارتی وزیر اعظم کے دلفریب پیغام اور ان کے وزیر
داخلہ کے وضاحتی بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ بھارت عالمی سطح
پر تسلیم شدہ تنازعہ کشمیر کو کسی صورت حل کرنے میں نا کبھی پہلے سنجیدہ
اور مخلص تھا اور نہ اب ہے ۔ یہ ایک عالمی سچ بھی ہے کہ ہندو مذہب کے لوگ
انتہائی ڈر پھوک اور بزدل ہوتے ہیں جو صرف منافقت کی پالیسی اپنانا جانتے
ہیں اسی لئے میں کہتا ہوں کہ مذہب کسی بھی قوم کے کردار کا عکس ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان ستر سال گزرنے کے بعد بھی گالی گولی کی پالیسی ترک
کر کے حق و انصاف اور ریاستی عوام کی خواہش و مرضی یعنی استصواب رائے سے اس
کا حل نکالنے میں پر عزم اور نیک نیت ہے ۔بھارتی وزیر اعظم کو یہ معلوم
ہونا چاہئے کہ تنازعہ کشمیر کی بنیاد بھارت نے ہی گالی گولی کی سیاست کاری
سے ڈالی ہے اور پھر گالی گولی کی پالیسی اختیار کر کے وہ آج تک اقوام متحدہ
کے منظور شدہ قراردادوں اور عالمی برادری کے بھر ے دربار میں کئے گئے اپنے
وعدوں سے انحراف کر کے اپنے ناجائز وغاصبانہ قبضے کو مقبوضہ کشمیر پر
برقرار رکھے ہوئے ہے۔حق و انصاف پر مبنی تحریک آزادی کو دہشت گرد قرار دینا
،حریت پسند عوام کو اس جائز و بر حق جمہوری عوامی تحریک کا تن ،من ،دھن سے
ساتھ دینے پر ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنانا ،مسلمہ حریت قیادت اور سر گرم
کارکنوں کو سالہا سال سے جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کرنے پر مجبور کرنا ،نہتی عوام پر بلٹ اور پیلٹ کی بارش برسا کر
انہیں نیم جان کر کے چھوڑ دینا اور جھوٹے الزامات کے تحت NIA کے ذریعے
مسلمہ حریت قیادت کو حراساں و پریشان کرنا اور پھر کسی ثبوت اور دلیل کے
بغیر تنازعہ کشمیر کے اہم فریق پاکستان پر الزام تراشی کرنا اور اقوام
متحدہ کے بھرے اجلاس میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ
انگ قرار دینا ۔ذرا بتائے تو سہی! یہ گالی اور گولی کی سیاست نہیں تو کیا
ہے ؟یہ صرف پاکستان اور کشمیر کی بات نہیں بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ
اور دوستی اور تعاون کی بھارتی تاریخ بھی مکرو فریب سے بھری پڑی ہے ۔کسی
ایک وعدے اور معاہدے کا پاس نہیں رکھا گیا بلکہ یہ خواب ہنوز تشنۂ تعبیر
ہے۔اس گالی اور گولی کی سیاست کے ساتھ اب ایک اور بھیانک قسم کی جنگ بھارت
نے شروع کر دی ہے ۔کشمیر ی مستقبل کو کمزور و نا اہل کرنے کی سازش ہے ۔کشمیر
کی نئی نسل کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ،انہیں وہاں اشیاء خوردو
نوش انتہائی درجے تک کم قیمتوں میں میسر ہیں ،بچوں کو من پسند تعلیمی نصاب
پڑھایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کی نئی نسل پاکستان مخالف ذہنیت
لیے ہوئے ہے۔ انہیں پاکستان کی بھیانک سے بھیانک تر شکل پیش کرنے کی کوشش
کی جاتی ہے۔ آج تک ہمارے لئے معمہ تھا کہ داعش جیسی دیگر دہشتگرد تنظیمیں
کس طرح معصوم و عیار دماغوں کو ہیپنا ٹائز کر کے انہیں خودکشی پر مجبور کر
دیتیں ہیں ،لیکن اس سب کے جاننے کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ان
دہشتگرد تنظیموں کو بھی بھارتی آشیر باد حاصل ہے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں
اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں بھارت میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کی نسبت آٹھ
گنا کم ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی آرمی انہیں پاکستان میں موجود
اشیا ء خوردو نوش کی قیمتیں بتا کر کہتی ہے کہ کیا تم اس پاکستان کے ساتھ
ملنے کی باتیں کرتے ہو ؟حالانکہ خود بھارت میں مہنگائی سے عوام سراپا
احتجاج بنی ہوئی ہے۔حال ہی میں جب راجناتھ سنگھ لفاظی کے ذریعے کشمیریوں کو
شاخ زیتون پیش کررہے تھے عین اسی وقت کشمیر کی اعلیٰ ترین قیادت نظر بندی
کا سامنا کر رہی تھی ۔کشمیر کی سڑکیں سنسان او ر ویران تھیں اور اس کے کئی
علاقوں میں نوجوانوں کے لاشے گر رہے تھے ، گھروں میں ماتمی بین ہو رہے تھے
۔ یہاں ہم دیکھیں تو بھارت کے رویے میں تبدیلی کے آثار ہویدا ہیں اس کی کئی
وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ تو واضح ہے کہ کشمیری نوجوان بھارت کی کسی
تدبیر کے سامنے جھکنے سے انکاری ہیں۔ بھارت کا ظلم ان کے جذبات کو بھڑکاتا
اور کشمیر کے حالات کیلئے آگ پر پٹرول کا کام دیتا ہے طاقت اور جبر کی
بھارتی پالیسی کشمیر میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اس کی دوسری صورت کشمیر
کی صورتحال کے باعث بھارت کی عالمی سطح پر بدنامی ہے ۔کشمیر میں ہونے والے
مظالم نے بھارت کی امن پسندی اور سیکولر روایات کے کھوکھلے پن کو زمانے پر
عیاں کر دیا ہے اس کی تیسری وجہ چین کا غیر معمولی دباؤ ہو سکتا ہے ۔پاک
بھارت تعلقات حد درجہ الجھے ہوئے ہیں اور کشمیر ان تعلقات کا نیو کلئس ہے
اس الجھے ہوئے معاملے کو سلجھانا کسی پراجیکٹ منیجر یا کوارڈینیٹر کا کام
نہیں بلکہ اس کیلئے اقوام متحدہ کو بطور ادارہ یا سلامتی کونسل کے مستقل
ارکان کو آگے آنا ہو گا۔لیکن یہاں ایک بات جو سب زیادہ غور طلب ہے وہ بھارت
کی اس نئی پالیسی کا جواب دینے کا اقدام ہے جو اس نے اب شروع کر رکھی ہے ۔جو
مقبوضہ جموں و کشمیر میں وہ نئی کشمیری نسل کو پاکستان کا مصنوعی چہرہ دکھا
کر انہیں پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ چونکہ اب عالمی دباؤ ان پر بڑھ چکا ہے تو اگر کسی صورت مقبوضہ کشمیر کا
تنازعہ کشمیری عوام کی مرضی سے حل ہو بھی جائے تو کم سے کم یہ پاکستان کا
حصہ نا بننے پائے اور اس طرح ہم دوبارہ سے جب جی چاہے اسے اپنے قبضے میں لے
سکتے ہیں اور اس طرح پاکستان جو اب تک ایک فریق بنا ہوا ہے وہ بھی نہیں رہے
گا۔مجھے افسوس ہے کہ پاکستانی میڈیا اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا
۔انہیں سیاست دانوں کے چوچلے دکھانے سے ہی فرصت نہیں،اگر کوئی حریت پسند
راہ نما پاکستان میں آ بھی جائے تو اسے میڈیا کوریج ہی نہیں دیتا اور نہ ہی
ان کی آہ و پکار پاکستانی عوام تک پہنچائی جاتی ہے ۔ہمیں بس اپنے کام کی
پہچان کرنے اور مقصد کے ساتھ مخلص ہونے کی ضرورت ہے۔
|