امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے رپبلکن چیئرمین
سینیٹر باب کروکرنے اتوارکوروزنامہ نیو یارک ٹائمزکے ساتھ ٹیلی فون پر
انٹرویومیں کہاکہ انہیں صدر کے رویے پرتشویش ہے کیونکہ امریکی صدرٹرمپ نے
ملک کوتیسری جنگِ عظیم کے راستے پرڈال دیاہے۔ میرے خیال میں ٹرمپ کواندازہ
ہی نہیں کہ جب امریکی صدرکچھ کہتایاکچھ کرتاہے تواس کے اثرات پوری
دنیاپردکھائی دیتے ہیں۔ٹرمپ صدارت کے عہدے کوکسی "ریئلیٹی شو"کی طرح
استعمال کررہے ہیں۔یادرہے کہ گزشتہ سال ٹرمپ باب کروکرکو وزیرخارجہ بنانے
پر غور کررہے تھے اس لئے سینیٹر باب کروکرکااپنی ہی پارٹی کی جانب سے
امریکی صدرٹرمپ کے بارے میں ایسابیان خاصی اہمیت کاحامل ہے۔ ٹرمپ امریکاکے
ایسے سربراہ ہیں جواس قدرتیزی کے ساتھ اپنی انتخابی وعدوں کے برعکس اپنے
خطرناک ایجنڈے پرعمل پیراہیں۔یہ جہاں شمالی کوریاکوصفحۂ ہستی سے مٹانے کی
دہمکیوں سے مرعوب کرنے میں مصروف ہیں وہاں افغانستان میں اپنی فوج کے
انخلاء کی بجائے وہاں ایک نئی خطرناک جنگ کی تیاری کیلئے ''داعش''جیسی
عالمی دہشتگردتنظیم کوجدیداسلحے سے لیس کرکے میدان میں اتاررہے ہیں۔ ان کے
اپنے کٹھ پتلی سابقہ افغان صدرحامدکرزئی بھی امریکی صحافی کو اپنے حالیہ
انٹرویومیں ٹرمپ پر''داعش''کی سرپرستی کابرملاالزام لگارہے تھے۔
خطے میں ٹرمپ کی بدلتی پالیسیوں کے مدنظراب افغان رہنماؤں نے بھی اپنی
سیاسی اورعسکری جدوجہدمیں اضافہ کردیا ہے۔حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین
حکمت یارنے افغانستان کے طو ل وعرض کے دورے شروع کردیئے ہیں اور کابل میں
اپنی تنظیم نواورقبائلی عمائدین سے ملنے کے بعدمحرم کے دوران افغانستان کے
مغربی شہرہرات کاتقریباً۳۳سال بعد دورۂ کیاجہاں سابق جہادیوں اورمقامی
عمائدین ،طلبا،علماء کے ساتھ ملاقاتیں کیں اوعرافغانستان میں قیام امن کے
حوالے سے بین الافغانی منصوبہ پیش کیاجسے بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ گلبدین
یارحکمت نے ہرات میں شیعہ علماء سے بھی اہم ملاقات کی اورافغانستان کے
اندرافہام وتفہیم پرزوردیااورفرقہ واریت پرقابوپانے کیلئے ان سے مدد کی بھی
درخواست کی۔اس دواران ایک شخص نے حکمت یارپر جوتا پھینکنے کی کوشش بھی کی
تھی جسے افغان حکومت نے گرفتار کرلیاتاہم حکمت یارنے اسے معاف کرکے فوری
رہاکرنے کی ہدائت جاری کردی۔
ہرات سے واپسی کے بعدحکمت یارنے افغانستان کے مشرقی صوبہ کنڑکادورۂ کرکے
وہاں موجودقبائلی عمائدین اوردیگر تمام طبقات کے افرادسے ملاقات کرکے
امریکی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے اہم مشاورت کی ۔گزشتہ دنوں ان تمام
عمائدین ،طلباء ،علماء کوکابل بلایاگیاتھاجہاں ان کے ساتھ انتخابات، طالبان
کے ساتھ مذاکرات،افغانستان میں کرپشن کی روک تھام اورافغانستان کومتحدکرنے
کیلئے ان سے طویل کامیاب نشستیں کیں ۔اس موقع پرحکمت یارنے شرکاء سے خطاب
میں افغان طالبان کے دفترکوامریکاکی جانب سے بندکرنے کے مطالبے
کوغیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے افغان حکومت سے کہاکہ طالبان کادفترطالبان سے
مذاکرات کاذریعہ ہے اوراس ذریعہ کوبندکرکے امریکی سازش کوکامیاب نہ کیا
جائے کیونکہ ہماری کوشش ہے کہ طالبان کومذاکرات کی میزپرلایاجائے لیکن
مسلسل امریکی دباؤ ،فوج میں اضافے اور دفتربندکرنے سے امریکااور افغانستان
میں طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرنے والی قوتوں کوفائدہ اورعام افغان
عوام کواس سے نقصان ہوگا جس پرتمام شرکاءنے حکمت یار کے فارمولے کی حمائت
کرتے ہوئے افغان حکومت کو نہ صرف امریکی ہدائت پرطالبان کے دفتر بندکرنے کی
شدید مخالفت کی بلکہ طالبان سے جلد ازجلدمذاکرات کامطالبہ کیاتاکہ دنیا
کویہ بتایاجائے کہ افغان حکومت ہر قسم کے مذاکرات کیلئے تیارہے اور قطرمیں
طالبان رہنماؤں سے مذاکراتی عمل کوکسی نتیجے پر پہنچانے کیلئے حکمت یارکے
پیش کردہ ٹھوس لائحہ عمل میں بھرپورتعاون کیاجائے۔
اہم اورمستندذرائع کے مطابق مختلف مکاتب فکرکے شرکاء کی جانب سے حکمت
یارکوقبائلی عمائدین اورسیاسی جماعتوں کے ساتھ گرینڈالائنس بنانے کی تجویز
دی گئی اورایک قومی حکومت کی تشکیل کیلئے حکمت یارکے اس منصوبے پر مکمل
اتفاق اور اعتماد کے ساتھ بھرپورتعاون کایقین دلایا جس میں ایسی قومی حکومت
تشکیل دی جائے جس میں طالبان سمیت تمام افغان قبائل کے نمائندے شامل ہوں
جوافغانستان میں ایک منصفانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموارکریں،لوگوں کی
زمینوں پر قبضوں کوختم کرانے میں مددکی جائے اورعام لوگوں کی دیگرمشکلات
کوختم کرنے کیلئے انقلابی عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔اس حوالے سے تمام
شرکاء نے حکمت یارکواتحادکی تشکیل کامکمل اختیاربھی دیا۔ذرائع کے مطابق ہر
مکتبہ فکرکے شرکاء کی ایک کثیرتعدادکی شرکت اوراتفاق سے ایسا لگ رہا ہے کہ
حزبِ اسلامی کوملنے والی سیاسی حمائت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس کی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف حزبِ اسلامی افغانستان میں ایک قومی حکومت کی
تشکیل کی کوشش کررہی ہے تودوسری جانب طالبان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے
ساتھ ساتھ امریکی فوجی اضافے کی خوفناک سازش کے خلاف ڈٹ کرکھڑی ہے۔
افغانستان میں تمام قوموں کے نمائندوں کے ساتھ کامیاب رابطے کے بعدحزبِ
اسلامی ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پرسامنے آئی ہے اوریہی وجہ ہے کہ
امریکااوراس کے کٹھ پتلی افرادحزبِ اسلامی اورافغان حکومت کے اتحادکوناکام
بنانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہے تاہم حکمت یارکی حمائت میں جواضافہ
ہورہاہے،اس کے پیش نظرانہوں نے اپنے حامیوں کوانتہائی صبروتحمل کامظاہرہ
کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے دنیابھرکے سفارتکاروں سے بھی رابطے شروع کر دیئے
ہیں جس کے جواب میں اہم ممالک چین،روس،بھارت اورامریکا کے سفارتکاروں
اوروفود نے حکمت یارکے ساتھ ان کے دفترمیں ان سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔
پاکستان اورایران کے علاوہ یورپی سفارتکاروں نے بھی خفیہ طورپر افغان
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے فارمولے اور منصوبے پر تبادلہ خیال
کیااورافغانستان سے تمام غیرملکی افواج کے انخلاءکے معاملے پربھی بات ہوئی۔
ذرائع کے مطابق اب حکمت یارافغانستان میں سیاسی طورپرانتہائی سرگرم نظر آ
رہے ہیں اورسابق افغان صدرحامدکرزئی اوران کے ساتھی بھی انتخابات سے قبل
ایک نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل کے بارے میں جلداعلان کرنے والے ہیں تاکہ
حکمت یارسے انتخابی اتحادکرکے حزبِ اسلامی کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کئے
جاسکیں تاکہ افغانستان میں ایک مستحکم سیاسی نظام کی بنیادرکھی جائے۔ اگر
حکمت یار طالبان کومذاکرات پرراضی کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ ان کی
بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ اس سے وہ ایک مشترکہ باہمی کوشش سے افغانستان سے
امریکی انخلاء کیلئے مغربی حکومتوں کے علاوہ اقوام عالم کا بھرپورتعاون
حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں امریکی سینیٹ کی خارجہ
امور کی کمیٹی کے رپبلکن چیئرمین سینیٹر باب کروکر کے ٹرمپ کے بارے میں
عالمی جنگ کے خدشات سے بھی نجات ملنے کی راہ ہموارہوجائے گی اورپچھلی
چاردہائیوں سے اس خطے میں امن کاخواب بھی شرمندۂ تعبیرہوسکے گا۔ |