بھارت میں ماحول دشمن زرعی زہروں کا بے دریغ استعمال
ہزاروں کسانوں کی موت اور حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں ایک
دہائی میں ڈیڑھ لاکھ کسانوں کی خودکشیاں چمکتے بھارت کا بھیانک روپ بے نقاب
کررہی ہے۔ کسانوں کے پاس پہننے کے لئے جوتے نہیں اور زرعی زہروں سپرے کرنے
کے وقت حفاظتی سامان خریدنے کی بھی استطاعت نہیں ہے۔
کسانوں کی ہلاکت کے واقعات بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا میں مختلف اوقات
میں پیش آئے جو کہ زراعت کے حوالے سے اہم ترین ریاست ہے۔ بھارتی حکام کے
مطابق کسانوں کی ہلاکت کی وجہ حفاظتی اقدامات نہ اٹھانا اور کیڑے مار ادویہ
کے اسپرے کے دوران معیاری ماسک کا استعمال نہ کرنا ہے۔کسانوں کی مدد کے لیے
قائم کی جانے والی حکومتی ٹاسک فورس کے ترجمان کشور تیواری کے مطابق اگست
سے اب تک 20 کسان ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں زخمی ہیں جن میں سے 50 کی
حالت تشویش ناک ہے اور ان کی آنکھوں کو نقصان پہنچا ہے۔کسانوں کے حقوق کے
لیے کام کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ کیڑے مار ادویات کے حوالے سے
قوائد و ضوابط کی عدم موجودگی اور غریب کسانوں کو ان کی حفاظت کے لیے سامان
فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ کشور تیواری کے مطابق
متاثرہ کسانوں کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ جب وہ کھیتوں میں اسپرے کررہے
تھے تو نہ ہی انہوں نے جوتے پہنے تھے نہ دستانے اور نہ ہی ماسک لگایا
تھا۔کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس حفاظتی کٹس خریدنے
کے پیسے نہیں لہذا وہ بغیر ماسک کے ہی اسپرے کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بمبئی
ہائیکورٹ نے مہاراشٹرا حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ متاثرہ علاقوں میں کیڑے
مار ادویات کی فروخت پر عارضی طور پر پابندی عائد کرے۔خیال رہے کہ بھارت
میں تقریبا 26 کروڑ افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں تاہم خشک سالی کی
وجہ سے ہر سال ان کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور کسانوں کی مالی حالت
انتہائی ابتر ہے۔ غربت سے تنگ آکر 2016 میں مہاراشٹرا میں 1417 کسانوں نے
خود کشی کرلی تھی۔ رواں برس جون میں حکومت نے کسانوں کے قرضے معاف کرنے پر
آمادگی ظاہر کی ہے جو مجموعی طور پر 5 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔
بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں کسانوں کی خودکشیوں کے ایک ہزار اٹھاسی کیسز
رپورٹ ہوئے۔ بھارتی ریاست اڑیسہ میں پریشانیوں اور قرضوں کے بوجھ کے باعث
گذشتہ 11 سال میں کسانوں سمیت 48631 افراد نے خود کشی کی۔ 1997 سے 2008 کے
دوران خود کشی کرنے والے افراد میں کسانوں کی تعداد 3509 ہے۔ ریاست اڑیسہ
بھارت کا غریب ترین علاقہ ہے جہاں ما ؤ باغی گروپ فعال ہیں۔ ایک رپورٹ کے
مطابق صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں 2015 کے پہلے پانچ ماہ میں خودکشی کے
کیسز سامنے آئے اور یہ تعداد گزشتہ دو ماہ کے مقابلے میں چھہترفیصد زیادہ
ہے۔ جنوری سے مارچ میں خودکشی کے چھ سو ایک کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ خودکشی کے
ان کیسز میں گزشتہ سال کے قحط اور اس کے بعد ہونے والی خشک سالی اور فصلوں
کی تباہی کے بعد اضافہ ہوا۔جب اسٹیٹ ریونیو منسٹر ایکناتھ کھاڈسے سے
خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے گراف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ
کر دامن چھڑالیا کہ وہ جتنا کرسکتے ہیں ، کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ برسوں سے چل
رہا ہے، راتوں رات تو ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ تو یہ ہے، ذمہ دار بھارت۔کسانوں
میں خودکشیوں کا سب سے زیادہ رجحان بھارتی ریاست کرناٹکا میں دیکھا جارہا
ہے اور ریاست کے مختلف علاقوں میں صرف 24 گھنٹوں کے دوران کسانوں کی خود
کشی کے 7 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ جو رپورٹ نہیں ہوئے اس کی تعداد اس
کے علاوہ ہے۔دوسری جانب بھارتی ریاست مہاراشٹر میں بھی صرف 7 ماہ کے دوران
کسانوں کی خود کشی کے اب تک 1300 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں جو 1981
میں پورے سال ہونے والے واقعات سے بھی زیادہ ہیں۔ مہاراشٹر میں 2013 میں
کسانوں کی خود کشی کے 1296 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ بھی کرناٹکا
میں 16 کسانوں نے خود کشی کی تھی جب کہ گزشتہ برس بھارت میں 12 ہزار سے
زائد کسانوں نے خودکشی کی تھی۔بھارت میں کسان طبقے میں خودکشی کا رجحان
تیزی سے بڑھ رہا ہے جہاں گزشتہ 2 برس میں کئی کسان خودکشی کرچکے ہیں جس میں
ایک اعدادو شمار کے مطابق بھارت میں ہر 8 گھنٹے میں ایک کسان موت کو گلے
لگا لیتا ہے۔ بھارت میں کسانوں کی تنظیم وداربہ جان اندولن سمیتی (وی جے اے
ایس) کے مطابق سال 2013 سے اب تک ریاست مہاراشٹرا میں 2900 کسان خود کشی
کرچکے ہیں جب کہ رواں سال 500 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے جن میں
اکثر کسان کپاس کاشت کرتے تھے۔ کسانوں کی نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ
کسانوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کی وجہ انہیں ان کی محنت کا
معقول معاوضہ نہ ملنا ہے جس کے باعث کسان اپنا وہ قرض ادا کرنے سے بھی قاصر
ہیں جو وہ کپاس کی کاشت کے لیے لیتے ہیں۔تنظیم کے مطابق کپاس کے لیے بہت سی
کیڑے مار ادویات استعمال ہوتی ہیں اور بھارت میں ان ادویات کی قیمتوں میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے کسان کو اس کی فصل کی آدھی قیمت ملتی ہے جب
کہ حکومت بھی اس حوالے سے کسانوں کی کوئی مدد نہیں کررہی۔دوسری جانب مودی
حکومت نے کسانوں کی مدد کے لیے بڑے منصوبے شروع کرنے کے دعوے کیے ہیں تاہم
دہلی میں کسانوں کا حکومت کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ ان دعوں کی نفی ہے۔
کسانوں نے مظاہرے کے دوران مودی حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں پر شدید تنقید
کی جب کہ انہوں نے بینکوں سے قرضوں کے نظام، سبسڈی، بیجوں اور کیڑے مار
دواں کی فراہمی اور قیمتوں میں کمی کا بھی مطالبہ کیا۔ بھارت میں جنوبی الہ
آبا د کے کسانوں کو حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم دکھائی گئی۔سمر دوہزار
سات نامی فلم دکھانے کا اہتمام این جی او نے کیا تھا۔فلم کی کہانی ایسے
بھارتی کسانوں کے گرد گھومتی ہے جو قرضوں کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کرنے
پرمجبور ہوجاتے ہیں۔بھارت میں عوام کی اکثریت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن
اس کے باوجود گزشتہ دس برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔
ایک جائزہ کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں 18سے30 برس تک کی عمر کے
نوجوانوں کی تعداد بھی غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے۔ غریب کسان سود خوروں سے
انتہائی مہنگی شرح پر سودی قرضہ لیتے ہیں لیکن پھر واپس نہیں کرپاتے۔ وہ
سودخوروں کے چنگل میں اس قدر بری طرح پھنس جاتے ہیں کہ خودکشی ہی کو نجات
کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ستم بالائے ستم کہ ان کے مرنے کے بعد خاندان کی
قرض واپس کرنے پر ہی جان چھوٹ سکتی ہے، یوں خودکشی کرنے والے اپنے بیوی
بچوں کو مزید مشکل زندگی میں پھنسا کرچلے جاتے ہیں، ان کی بیوائیں مزید قرض
لینے پر مجبور ہوتی ہیں اور ظلم و استحصال کا یہ سفرجاری رہتاہے۔
نریندر مودی کے شائننگ انڈیا میں گزشتہ 20برسوں سے قریبا 3لاکھ کسان اپنی
زندگیاں ختم کرچکے ہیں ۔ صرف ایک ریاست مہاراشٹر میں خودکشی کرنے والوں کی
تعداد60ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔بحیثیت مجموعی ملک میں ہر روز46کسان خودکشی
کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زراعت ہی روزگار کا سب سے بڑا سیکٹر ہے،
ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13.7فیصد ہے، زراعت کے اندر سرمایہ کاری سب سے
بڑا جوا ثابت ہورہا ہے۔ یہاں زیادہ تر کسان بیج اور کھاد خریدنے، اجرت کی
ادائیگی اور آب پاشی کا سازوسامان لینے کے لئے بنک سے قرض لیتے ہیں۔
مقامی سودخور بھی ان کسانوں کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کا
سود سال بہ سال بڑھتا ہی چلاجاتاہے۔ یہ کسانوں کے لئے جال بنتے ہیں اور پھر
انھیں اپنے دام میں پھنسالیتے ہیں۔ کسان صرف اس امید پر قرض لیتاہے کہ فصل
اچھی ہوگی تو قرض لوٹا دے گا تاہم طویل خشک سالی، کم پیداوار یا پھر
غیرموسمی بارشیں اس کی سب امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔سرکاری اعدادوشمار
کے مطابق ملک میں 52 فیصد کسان مقروض ہیں۔ اس ضمن میں یہاں روزانہ 2035
کسان زراعت کا پیشہ چھوڑ کر کسی دوسرے شعبے کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ مجموعی
طور پر 76فیصد کسان کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ زراعت اب منافع بخش شعبہ نہیں رہی۔ بھارت کی اپوزیشن
پارٹیوں کا کہناہے کہ کسانوں کو خودکشیوں کی روک تھام حکمرانوں کے ایجنڈے
میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ ابھی تک یہی سمجھ نہیں پا رہی کہ کسان کیوں خودکشی
پر مجبور ہیں، اس کے ٹاسک فورسز قائم کی جارہی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
مودی حکومت کے اکانومک گروتھ ماڈل میں دیہاتی علاقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں
ہے۔
بھارتی کسان مودی حکومت کے بنائے ہوئے ایک قانون سے بھی سخت پریشان ہیں، اس
کے مطابق حکومت کارپوریٹ سیکٹر کے لئے عام کسان کی زمین زبردستی حاصل کرسکے
گی۔ ایسے میں یہاں کا کسان کیسے زراعت سے مزید جڑے رہنے کا سوچ سکتاہے، وہ
تن تنہا کھڑا ہے، مودی سرکار اسے کچھ دینے کے بجائے اس کا سب کچھ ہتھیانے
کے چکر میں ہے۔ یادرہے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس قدر بڑی تعداد
میں کسان خودکشیاں کررہے ہیں۔ آپ کو تحقیق کے نتیجے میں ایسا کوئی دوسرا
ملک نہیں ملے گا جہاں کسانوں کو ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے۔ |