27اکتوبر کو کشمیر پر بھارتی قبضے کے 70سال مکمل ہو
گئے۔یہ تاریخ آتے ہی دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں کے د ل بجھ سے جاتے
ہیں۔یہ دن ان کے ارمانوں پر چھری پھرنے کا دن ہے جب ان کے وطن پر بھارت نے
فوجیں چڑھا کر ان کی آزادی کا خواب دفن کر ڈالا تھا۔وہ 27اکتوبر 1947ء ہی
کا دن تھا جب سرینگر کے ہوائی اڈے پر بھارتی فوجی اترنا شروع ہوئے تھے اور
پھر دہائیوں سے آزادی کی راہ تکتے اور اس کے لئے خون کے دریا بہاتے کشمیری
ایک ایسی نئی اندھیری راہ پر ڈال دیئے گئے جس کا کنارہ اب تک انہیں نہیں مل
سکا۔
تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کو ہر صورت پاکستان سے ملنا تھا کیونکہ
یہ بھاری مسلم اکثریتی علاقہ تھا لیکن یہاں ایک طویل عرصہ سے ڈوگرہ ہندو
راج جبری قائم تھا۔کشمیری کمزور تھے اور جب تقسیم ہند کا وقت آیا تو انہیں
تقسیم کے فارمولے کے تحت اپنے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی آزادی کی روشن کرن
دکھائی دی، اسی لئے انہوں نے پہلے اپنے ہاں قائد اعظم کو مدعوکیا۔
اس وقت ممتازکشمیری رہنما شیخ عبد اﷲ کا کانگریس کی طرف جھکاؤ تھا۔
قائداعظم نے سرینگر میں جون 1947ء میں مسلم کانفر نس کے سالانہ اجلاس سے
خطاب کیا۔تب سرینگر کی آبادی بھی بہت کم تھی اس کے باوجود1 لاکھ کا اجتماع
تھا جو کہ قائداعظم کا خطاب سننے آیا۔قائداعظم نے2گھنٹے تقریر کی اور
کشمیریوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے سیاسی پلیٹ فارم آل جموں کشمیرمسلم
کانفرنس کے جھنڈے تلے جدوجہد جاری رکھیں۔ انہوں نے عظیم کشمیری رہنما
چودھری غلام عباس کو جو اس وقت جیل میں تھے، مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم
لیگ اور دس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی ہمددریاں آپ کے ساتھ ہیں۔ 3جون
1947ء کو اعلان آزادی ہند میں پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تب بھی چودھری
غلام عباس جیل میں تھے۔
قیام پاکستان کا اعلان ہونے کے بعدحالات کو ناموافق دیکھ کر 19جولائی1947ء
کوجموں کشمیر اسمبلی کے اراکین کا اجلاس سردار ابرہیم کے گھر سرینگر آبی
گزر گاہ پر ہوا جس میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے متفقہ طور پر کشمیر
کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دے دی۔تقسیم کے فارمولے کو نامکمل
چھوڑتے ہوئے انگریز نے کشمیر کا معاملہ معلق چھوڑ دیا اور 14اگست 1947ء کو
تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی انگریز وائسرائے ہندماؤنٹ بیٹن اور مہاراجہ
ہر ی سنگھ کی ساز باز تو بہت پہلے سے جاری تھی اور پاکستان کو اپاہج رکھنے
کا پلان بھی تیار ہو چکا تھا اور پاکستانی دریاؤں کے سارے ہیڈ ورکس بھی
بھارت کو دیے جا چکے تھے اور پھر اسی ساز باز کے باعث ریاست جموں کشمیر کا
الحاق پاکستان سے نہ ہو سکا۔ بھارت کی ہندو قیادت نے پاکستان کو شروع ہی سے
مسائل میں مبتلا کر دیا۔ خزانے اور ایمونیشن سے بھی پاکستان کو حصہ نہیں
دیا گیا تھا۔فوجی یونٹوں کو بھی روک دیا گیا اور جب بھارت سے مسلمانوں نے
پاکستان کی جانب ہجرت شروع کی تو ان پر بے پناہ مظالم کے پہاڑ توڑے جانے
لگے۔ پاکستان ہر روز نئے سے نئے امتحان سے دوچار تھا 15 اگست 1947ء تک جونا
گڑھ، حیدر آباد اور کشمیر کی ریاستوں نے ہندوستان یا پاکستان سے الحاق نہیں
کیا تھا،تقسیم کے فوری بعد جونا گڑھ، مناوادر نے پاکستان سے الحاق کر
لیا۔قائداعظم نے 5ستمبر1947ء کو دونوں ریاستوں کا الحاق منظور کیا تو بھارت
نے جونا گڑھ، منادر کے حق الحاق پر کھلی دہشت گردی مسلط کرتے ہوئے
اکتوبر1947ء کے آخر تک جونا گڑھ میں اتنی افراتفری پیدا کردی کہ نواب اپنے
خاندان کے ساتھ کراچی آنے پر مجبور ہو گیا۔ ہندوستان کی افواج نے اکتوبر کے
آخر اور نومبرمیں جونا گڑھ پر یہ کہہ کر بزور طاقت قبضہ کر لیا کہ یہاں کی
آبادی چونکہ ہندو اکثریتی ہے، سو تقسیم کے فارمولے کے تحت یہاں اس کا حق ہے۔
کشمیر کا معاملہ بھی اسی راہ پر جاتا دیکھ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور
شمالی علاقہ جات سے جہادی لشکر کشمیر کی جانب روانہ ہوئے اور پھر انہوں نے
ایبٹ آباد کے راستے گڑھی حبیب اﷲ سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے مظفر آباد کو فتح
کر لیا۔
22اکتوبر 2017کو بی بی سی نے اس یلغار کا انتہائی زہریلے انداز میں تذکرہ
کرتے ہوئے مظفر آباد کے ایک بوڑھے باسی گوہررحمان کی زبانی اس دور کی یادوں
پر ایک رپورٹ شائع کی اور لکھا کہ پاکستان سے آنے والے تقریباً 2000
قبائلیوں نے علی الصباح مظفرآباد پر دھاوا بولا اور وہاں تعینات کشمیر
ریاستی فوج کو آسانی سے بکھیر کر رکھ دیا۔ فوجی تاریخ دانوں کا اندازہ ہے
کہ وہ صرف پانچ سو فوجی تھے جنھیں مسلمان فوجیوں کی بغاوت کا سامنا بھی
کرنا پڑا تھا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد قبائلیوں نے نیچے جا کر آگ لگائی اور
لوٹ مار کی۔انھوں نے ریاستی اسلحہ خانے کو لوٹ لیا، پورے بازار کو آگ لگا
دی اور اشیا کو لوٹ لیا۔قبائلی جنگجوؤں نے ہر اس شخص کو گولی مار دی جو
کلمہ نہیں پڑھ سکا۔ کئی غیر مسلم خواتین کنیز بنا لی گئیں اور کئی نے قید
سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔گلیاں تباہی کا نشان بن گئی تھیں،
تباہ شدہ عمارتیں، دکانوں کا ٹوٹا، سامان، نذر آتش کیے جانے والے سامان کی
راکھ اور قبائلی جنگجوؤں سمیت ریاستی فوجیوں اور مقامی افراد کی لاشیں
بکھری پڑی تھیں۔ دریا میں بھی لاشیں تیرتی دکھائی دے رہی تھیں۔چھاپہ ماروں
نے مظفر آباد میں تین دن گزارے اور اس سے پہلے کہ حواس بحال ہوتے، رہنماؤں
نے ان پر زور دیا کہ وہ سری نگر کی جانب سفر شروع کریں جو کہ ریاست کا
دارالحکومت ہے اور 170 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔یہاں سے ایک گروپ
ٹرکوں میں نیچے دریائے جہلم کی جانب روانہ ہوا، سکون سے اوڑی پار کیا اور
بارہ مولا پہنچ گئے جہاں ایک بار پھر آگ لگائی گئی اور لوٹ مار کی گئی۔
بی بی سی کی زبان سے جاری ہونے والے ان الفاظ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس
ساری کہانی کا اصل مقصد و مدعا کیا ہے۔اس دور میں مظفر آباد کتنا بڑا شہر
تھا؟اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور مظفر آباد کے یوں لوٹے جانے اور خواتین کے
کنیز بنائے جانے کی یہ کہانیاں تو اب تک کوئی اسلام دشمن اور بھارتی زبان
بھی بیان نہیں کر سکی۔جب قبائلیوں نے یہ کارروائی کی تھی،ان میں سے بھی کئی
ایک اور ان کی نسلیں آج بھی زندہ ہیں۔یہ تو ہمارے سامنے ہے،کیا ان لوگوں کا
مزاج ایسا ہی ہے جو بیان کیا گیا؟ ان لوگوں کی انسان اور اسلام دوستی تو
دنیا میں مثال کے طور پر جانی اور مانی جاتی ہے لیکن چونکہ عالمی میڈیا کا
اصل ٹارگٹ تو اسلام کو بدنام کرنا ہے سو وہ اسی راہ پر گامزن ہیں۔ حقیقت
میں آج کا آزاد کشمیر ان لوگوں ہی کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہیں اب بدنام
کرنے کی مہم چلا دی گئی ہے۔یہ ان لوگوں کے کردار کا یہ نتیجہ ہے کہ تب سے
اب تک کشمیری قوم کی اسلام،پاکستان اور آزادی سے محبت میں کبھی کمی نہیں آ
سکی۔ یہ تو تسلیم کیا گیا کہ یہ لوگ ڈنڈو ں اور لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے
حملہ آور ہوئے اور ان کے سامنے توپوں بندوقوں والے مہاراجہ ہری سنگھ کے
سپاہی نہ ٹھہر سکے لیکن ساتھ ہی انہیں سفاک ثابت کرنے کیلئے جھوٹ کی خوب
آمیزش کر ڈالی۔
مہاراجہ کی 13 بٹالین میں سے صرف چند بٹالین میں مسلمان فوجی تھے۔ انھیں
بھی سرینگر سے دوربھیج دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ریاست میں مسلمان
افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ ہندوؤں نے ریاست جموں و کشمیر میں
فسادات برپا کر دیئے۔مسلمانوں کاقتل عام شروع کیاگیا جس پر ریاست بھر کے
مسلمانوں نے ڈوگرہ کے خلاف عملی جہاد شروع کیاجس کے بعد 24 اکتوبر 1947ء کو
آزاد جموں کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔بہر حال یہ کمزور قبائلی
قوم ہی کی قربانی تھی کہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں اس جنت نظیر قطعہ ارضی
کا ایک حصہ ہمارے پاس بھی ہے جہاں کے آنے والے پانیوں پر پاکستان زندہ ہے
اور اب وہ نیلم جہلم کا منصوبہ شروع کر رہا ہے۔
26اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ جموں پہنچا تو 27کو نئی دہلی اور پھر نئی
دہلی سے فوجیں سرینگر میں اتر گئیں۔ قائداعظم نے اپنے آرمی چیف جنرل ڈگلس
گریسی کو بھارت کے مقابل کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا تو اس نے حکم
ماننے سے انکار کر دیا۔کہتے ہیں کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کی جانب آنا
چاہا لیکن موسم سرما اور برفباری رکاوٹ بن گئے۔آج بھارت کہتا ہے کہ کشمیر
پر اس کا قبضہ اس لئے ہے کہ مہاراجہ نے معاہدہ کے تحت کشمیر اسے دے دیا
لیکن جونا گڑھ مناوادر میں اس کا فارمولہ کچھ اور تھا۔دلچسپ بات یہ بھی ہے
کہ بھارت آج تک مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا کوئی
دستاویزی ثبوت بھی نہیں دے سکا کیونکہ عملی طور پر یہ طاقتور کے سامنے
کمزور کا ہاتھ جوڑنا تھا اور پھر مہاراجہ کا ڈوگرہ خاندان بھی کشمیر بدر ہو
گیاتو بھارت آج تک کشمیر کو فتح کر رہا ہے لیکن کمزور ونہتے کشمیریوں کے
ہاتھ رسوا یہی رسوا ہے۔آج پھر ’کشمیر توجہ چاہتا ہے‘ اور اسی مسلم کانفرنس
کے سربراہ جناب سردار عتیق احمد خان یہی نعرہ ہر وقت سینے پر سجائے متحرک
نظر آتے ہیں۔ |