ماسٹرز ناٹ فرینڈز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ہم شاید بہت بھولے ہیں یا بہت بیوقوف ہیں ۔ گزشتہ ستر سالوں میں پاک امریکہ تعلقات کے بعد ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کی دوستی یا دشمنی اس کے مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔امریکہ وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا کے دورے کے بعد امریکہ میں اپنے اس دورے کے متعلق جو کچھ کہا وہ قطعاً غیر متوقع نہیں تھا۔ پاکستان میں اپنے دورے کے دوران اس نے وہی کچھ کہا جو ہماری طبیعت پر ذیادہ گراں نہ گزرتا ہو لیکن جونہی بھارت کی سرزمین پر ان کے قدم پڑے وہی زبان بولنا شروع کر دی جس کے لیے ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو تیار نہیں کر پائے ۔ امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے جنوبی ایشیا کے دورے کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو باور کروا دیا کہ واشنگٹن زیادہ مطالبات نہیں کرتا لیکن اسے ہمارے تحفظات دور کرنے ہوں گے، افغان جنگ جیتیں گے پاکستان ساتھ ہو یا نہ ہو۔دورہ بھارت کے دوران بھی امریکی وزیرخارجہ ٹیلرسن نے واضح طور پر کہا کہ بھارت ان کاقدرتی حلیف ہے ۔ افغانستان میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا میں بالعموم بھارت کو بطور لیڈر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیلرسن نے کہا کہ بھارت امریکا کا قدرتی دوست ہے اور اس کی خطے میں بطور لیڈر حمایت کرتے ہیں، بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کرائی کہ بھارتی فوج کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا۔بھارتی سرزمین پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان بھارت اور افغانستان میں حملے کرنے والے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے ۔اسی ملاقات میں بھارت نے بھی عالمی طاقت کو اپنے ساتھ کھڑے دیکھ کر ہرزہ سرائی کرنا شروع کر دی کہ اسلام آباد کی سرزمین پر دہشتگردوں کے ٹھکانے موجود ہیں ۔
پاکستان ہمیشہ کی طرح بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھا ۔ اعلیٰ حکام کی جانب سے بہت واضح موقف رکھنے کے باوجود امریکہ نے مثبت جواب دینے سے گریز کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو سمجھنا شاید اب راکٹ سائنس نہیں رہی۔ ان تعلقات کو اگر پاکستانی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت پیچیدہ نظر آتے ہیں تاہم اگر امریکہ مفادات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت واضح نظر آتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی دلچسپی پاکستان سے ذیادہ بھارت میں ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ البتہ پاکستانی حکام ان تعلقات کو ہمیشہ پاکستان کے مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں اور نائن الیون کے بعد ان قربانیوں کا صلہ مانگے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے بعد دی ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور میں امریکہ کا ساتھ دینے کی ایک توجیہ یہ بھی پیش کی تھی کہ اگر ہم ساتھ نہ دیتے توبھارت امریکہ کا ساتھ دیتا اورجنوبی ایشیا میں اس کے بدلے بھارت کو لیڈر تسلیم کیا جاتا اور وہ تمام سہولیات بھارت کو فراہم کر دی جاتیں جس کے تحت اس کو جنوبی ایشیا میں بالادست ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہ جاتی۔تاہم موجودہ صورتحال کے بعد یہ مفروضہ اپنی موت مر چکا ہے اور امریکہ آج بھی وقتا ًفوقتاً بھارت کو اپنا قدرتی حلیف اور دوست کے علاوہ اسے جنوبی ایشیا میں بالادست تسلیم کرنے کے لیے ہرطرح کا تعاون فراہم کر رہا ہے ۔ اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اوبامہ دور میں امریکہ نے اپنی پالیسی کا محور ایشیا پیسفک کو قرار دیا تھا۔ سابق امریکہ صدر اوباما اور سابق امریکہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ان کی پالیسیوں کا مرکز اب جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی بجائے ایشیا پیسیفک ہو گا۔ اس کی بڑی وجہ ایشیا میں موجودان امریکی دوستوں کو یہ یقین دہانی کروانی تھی کہ امریکہ خطے میں انہیں چین اور شمالی کوریا کے رحم و کرم پر چھوڑ نہیں سکتا ۔ ایشیا پیسفیک میں امریکہ کو چین کا سب سے بڑا حریف اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والا ملک بھارت نظر آتا ہے ۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہو گی کہ امریکہ اگرچہ سپر پاور نہیں تاہم عالمی طاقت ضرور ہے ۔ عالمی طاقت ہونے کے ناطے اس کے تمام تر اقدامات کا محور اس کے سیاسی و فوجی مفادات ہیں ۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و فوجی قوت سے خائف امریکہ کے لیے بھارت سے ذیادہ اچھا دوست جنوبی ایشیا میں کوئی نہیں مل سکتا ۔ دوسری جانب یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہو گی کہ بھارت اس وقت امریکہ کے لیے دنیا میں سب سے بڑی معاشی منڈی ہے ۔ امریکہ کے اسلحہ کا خریدار جنوبی ایشیا میں بھارت ہے ۔ بھارت امریکہ سے اسلحہ خریدتا ہے اور پاکستان اسلحہ مانگتا ہے ۔ محض جذباتی انداز میں امریکہ کے لیے اتنی بڑی منڈی چھوڑنا آسان نہیں ہے ۔ افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنے کے لیے بھارت کے کردار کو افغانستان میں بڑھانا امریکہ کے لیے ازحد ضروری ہے۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا میں پاکستان چین کا بہترین دوست بھی ہے اور چین بھی پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے پوری طرح واقف ہے ۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری کے بعد تو پاک چین دوستی مزید مضبوط بندھن میں بندھ چکی ہے جس کی وجہ سے خطے میں امریکی و بھارتی مفادات کو شدید خطرات پیدا ہو چکے ہیں ۔امریکہ کے تھنک ٹینک ، دفاعی ادارے اور سابق و موجودہ فوجی افسران اور سیاستدان بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی بدترین شکست کی بڑی وجہ پاکستان کا دہرا کردار ہے ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے امریکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو اپنا حلیف منتخب کرے۔

ان عوام کی موجودگی میں ریاست پاکستان کو محض بیانات کی بجائے کچھ ایسے اقدامات کرنے ہیں گے جس سے پاک امریکہ تعلقات کو اپنے مفادات کی نظر کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو یہ یاس رکھنا چاہیے کہ امریکہ اسے آنکھیں دکھاتا ہے جو اس کے سامنے جھکتا ہے اور اپنے سامنے کھڑے ہونے والوں سے کنی کترا کر گزر جاتا ہے۔پاکستان کے ساتھی امریکی دوستی امریکی مفادات کی حد تک ہے سو پاکستان کو اس بیانیے سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں امریکہ کو یہ فرینڈز ناٹ ماسٹر ز کا پیغام دینا شاید ممکن نہیں بلکہ اپنے ذہن میں یہ رکھنا ہو گا کہ امریکہ ہمیشہ سے ماسٹرز ناٹ فرینڈز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور رہے گا۔ سوہمیں اس بیانے کے تحت اپنی پالیسی اور اپنے مطالبات رکنے ہوں گے ۔ امریکہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کرنے اور بھارت کے کردار کو بڑھانے کی پالیسی پر عمل کررہا ہے ۔ اس عمل کے متضاد پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھانا ہو گا ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ موجودہ افغان حکومت پربھارتی اثرورسوخ بہت حد تک بڑھ چکا ہے تاہم جنوبی ایشیا میں متوازن پالیسی اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امریکی اثر سے نکلنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ امریکہ کو یہ یقین دلانے میں ناکام ہوئے ہیں کہ اس کا بھارت کے طرف ذیادہ جھکاؤ جنوبی ایشیا میں توازن کے لیے خطرناک ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی اقدامات کرنے ہوں گے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اسی انداز سے لے کر چلنا چاہیے جس طرح امریکی اقدامات ثابت کر رہے ہیں ۔

Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 65041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.