وزیراعظم کی سادگی؟

 شاہد عباسی اپنی جیب سے خرچہ کر کے لندن گئے، وہاں بھی انہوں نے ہائی کمشنر کی گاڑی استعمال نہیں کی،یوں سادگی کی ایک بڑی مثال انہوں نے قائم کردی۔ قوم میں اپنے وزیراعظم کے اس انقلابی عمل پر یقینا خوشی کی لہر دوڑ جائے گی، عوام خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔ اگرچہ کچھ ہی عرصہ قبل امریکہ کے قیام کے دوران قوم نے یہ افواہ بھی سنی تھی کہ انہی وزیراعظم کے لئے مہنگی ترین گاڑیاں لاکھوں روپے کرایہ پر حاصل کی گئی تھیں، شاید وہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ اب وزیراعظم چاہتے تو اپنا جدید خصوصی طیارہ لے جاسکتے تھے، مگر انہوں نے سادگی کو ترجیح دی اور اپنی جیب سے خرچ کرکے لندن گئے، وہاں وہ آنے والے دنوں کے لئے ہدایات وغیرہ لیں گے، رہنمائی حاصل کریں گے، کچھ کاموں کی شاید اجازت بھی لیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ لندن میں سرکاری دورے پر تشریف نہیں لے گئے، بلکہ مسلم لیگ ن کے اہم اجلاس میں شرکت کے لئے گئے ہیں۔ پاکستان کی قسمت کا حال دیکھئے کہ لندن ہی بظاہر اس کا دارالحکومت محسوس ہوتا ہے، چونکہ حکومتی پارٹی کے مالک لندن میں رہائش رکھتے ہیں، ابھی وہ سعودی عرب میں کچھ وقت عبادات وغیرہ میں گزار کر لندن پہنچے ہیں، پاکستان سے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور متعدد وزراء بھی پہنچ رہے ہیں۔ دوسری طرف پی پی کی قیادت بھی اپنے بہت سے اجلاس دبئی میں کرتی پائی جاتی ہے، غریب ملک کے سادہ حکمران پاکستان میں یہ سرگرمیاں نہ جانے کیوں نہیں کرتے؟ بات شروع ہوئی تھی سادگی سے، مگر لندن اور دبئی تک پہنچ گئی، مجبوری ہے، جہاں حکمران اور سیاستدان جائیں گے، باتیں اُن کے ساتھ ہی جائیں گی۔

موجودہ وزیراعظم کے خواب میں بھی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف کے ہوتے وہ ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے، مگر مقدر کو جو منظور ہوتا ہے، انسان کی سوچ وہاں تک رسائی نہیں رکھتی۔ مگر یہ عہدہ جلیلہ ملنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے جذباتی خطاب میں جہاں اپنے قائد نوازشریف کو ہی وزیراعظم قرار دیا،( حالانکہ وہ عدالت کے حکم پر نااہل ہو چکے تھے، اور انہی کی جگہ پر موصوف کو یہ کرسی نصیب ہوئی تھی،) وہاں انہوں نے اپنی ترجیحات سے بھی قوم کوآگاہ کیا، انہوں نے قومی اسمبلی میں کئے گئے اپنے خطاب میں کہاکہ وہ پنتالیس دن میں ایسے کام کر جائیں گے جو پنتالیس ماہ میں نہیں ہوسکتے، مگر بدقسمتی سے قوم نے دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکا، اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا، جو دوسروں کے لئے مثال بن سکے تو بے جانہ ہوگا۔ انہوں نے نہایت احتیاط سے پھونک پھونک کرقدم رکھا ہے، تاکہ کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جائے جس سے قائد کی طبع نازک پہ گراں گزرے۔ اس احتیاط کے تقاضے نبھانے کے چکر میں انہوں نے احتیاطاً کوئی کام کیا ہی نہیں۔ ورنہ وہ ایسے بہت سے کام کر سکتے تھے، جس سے ان کے پارٹی مالکان کو کوئی اعتراض نہ ہوتا، یا ایسا خیال پیدا ہوتا کہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

اگر وزیراعظم کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو کم از کم سادگی کے زمرے میں ہی کوئی قدم اٹھا دیتے، اگر وہ اپنی جیب سے لندن جاسکتے ہیں(جو کہ ان کی اخلاقی اور اصولی مجبوری تھی) تو وہ اپنے وزراء، سیکریٹریز اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو بھی پابند کر سکتے ہیں کہ وہ اندرون اور بیرونِ ملک سرکاری وسائل کو بے دردی سے استعمال کرنے سے گریز کریں، وہ ایک عرصہ سے وزارتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے، کہ سرکاری وسائل کا کس طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ ایک حکم کے ذریعے اپنا اور اپنے وزیروں کا بے حدوحساب پروٹوکول کم کرسکتے تھے، وہ سرکاری گاڑیوں کے ہر وقت اور بے جا استعمال پر پابندی لگا سکتے تھے، وہ دفتری اوقات کے بعد گاڑیوں کو سڑکوں پر نکلنے سے روک سکتے تھے۔ یوں پٹرول وغیرہ کی مد میں بچنے والے کروڑوں روپے سکولوں ، ہسپتالوں یادیگر ضروریات پر لگوا سکتے تھے، مگر کیا کریں، نمک کی کان میں پہنچ کر ہر کوئی نمک بن جاتا ہے۔ پروٹوکول ، مراعات ، اختیارات اور اسی نوع کے دیگر معاملات ایک نشہ طاری کردیتے ہیں، ہر کوئی نشہ کا عادی ہو جاتا ہے، جب نشے کی عادت ہو جائے تو پھر سب جانتے ہیں کہ ’’چھُٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘ کے مصداق کوئی جان چھڑانا بھی چاہتاہے تو نہیں چھوٹتی۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424468 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.