ایک عظیم ماں کی رحلت

ایک عظیم ماں کی رحلت

’’ماں ‘‘ وہ لفظ ہے جس سے اُمید ومحبت کا بھر پور اظہار ہو تا ہے۔ماں وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ ماں جب اولاد کے لئے دعا کرے تو آکاش کےپردوں کوچیرتی ہوئی اللہ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کرلیتی ہے،حقیقت میں اصل یتیم وہ ہےجوماں کی دعاءسےمحروم ہو ’’ماں ‘‘ ایثار و قربانی ، الفت و قربت ، تحفظ اور احساس اور پُر سکوں سائباں کا نام ہے،وہ ایک ایسی معتدل چھاؤں ہےجس میں گرمی اورسردی کبھی نہیں ستاتی،ماں مسکرائےتوہونٹ نہیں دل مسکراتاہے، عظیم ماں کے سایہ شفقت میں گزرتا ہر لمحہ اولادکوسکون و آرام عطا کرتا ہے

کل جمعہ کےدن 3نومبر2017کوجناب شادمحمدخان،افضل خان،سابق ناظم یونین کونسل کوزہ بانڈہ مینوش خان، میرافضل خان،انجنیئرمحمدامتیاز،لیاقت علی خان قاری نویدانجم اوراخترشیرازکی والدہ مرحومہ اس دارِفانی سےکوچ کرگئیں اُس عظیم ماں کےانتقال کی خبرسُن کردل ٹوٹ ساگیااُن کی شخصیت ہمارےلئےاس لئےعظیم تھی کہ ہم نےاُن کوہمیشہ ماں ہی سمجھاتھا،ماں کالفظ گویااُن ہی کےاوپرجچتاتھا،وہ انتہائی شریف الطبع اورفیاض خاتون تھی کبھی کسی کودکھ نہیں دیانہ کبھی حرفِ شکایت زبان پہ لایا،نمازکی حددرجہ پابند،کثرت سےقرآنِ کریم کی تلاوت کرنےوالی پرہیزگارماں تھی،ایساکئی بارہواکہ ہم اُن کی خدمت میں حاضرہوئےتومرحومہ کوقرآنِ کریم کی تلاوت میں مشغول پایا،پیدائش سےشباب تک کاایک طویل عرصہ اُن ہی کےگاؤں میں گزرا،ایساکبھی نہیں ہواکہ مدرسہ یاسفرپرآتےجاتےوقت اُن کی خدمت میں حاضری نہ دی ہو،وہ ہمیں ماں ہی کی طرح محبت،شفقت اوردعاؤں سےنوازتی تھیں،تقریباًدوسال پہلےہمیں اُن کی کچھ معیت کی سعادت امارات میں بھی حاصل ہوئی جب وہ یہاں تشریف لائیں تھیں اورکئی بارہمارےگھرآکرہمیں دعاؤں اورشفقتوں سےنوازاتھا،وہ اُن کےہمارےپاس بڑےیادگاردن تھےکیونکہ پردیس میں ہمارےہاں دومائیں ایک ساتھ جمع ہوگئیں تھیں اوراس سال،میں اورہماری اہلیہ دونوں پھرانتظارمیں تھے،ہماری اہلیہ تواُن کےطرزِگفتار،اعلی اخلاق اوروسعتِ ظرفی کا اسیربن چکی ہے کئی بارمجھےبولاکہ اُن کےفرزندوں سےدوبارہ وزٹ کاکہے،پراللہ تعالی کافیصلہ غالب آگیااوروہ ایک ایسےجہاں چلی گئیں جہاں سےواپس نہیں آیاجاتا،اُن کی سب سےبڑی خوبی یہ تھی کہ اُنہوں نےماں بننےکےبعدہمیشہ ماں ہی کاکرداراداکیا،وہ عمررسیدہ ضرورتھیں لیکن کبھی چِڑچڑاپن کاشکارنہیں ہوئیں،جٹھانی بن کربھی کبھی جٹھانی کےروپ میں نظرنہیں آئیں،ساس بنیں توسہی لیکن کبھی ساس نظرنہیں آئیں بلکہ بہوؤں کےلئےہمیشہ ماں ہی رہیں ورنہ آج کل عام طورپرمائیں بڑےشوق سے بہوتلاش توکرلیتی ہیں لیکن گھرلانےکےبعدپھربہوکےساتھ بیٹےکی بھی ساس بن جاتی ہےاورپھر"جب تک سانس تب تک ساس، مجھے اُن کےوہ آنسوکبھی نہیں بھولیں گےجوصبح سویرےآگ سلگاتےوقت پانی رستےایندھن کوانگیٹھی میں رکھ کرپھونک مارمارکردھویں کی وجہ سےاُن کےناتواں گالوں پرگرےتھے، حدیث میں اچھےیابرےکہلائےجانےمیں پڑوس کی شہادت (گواہی)کوفیصلہ کن قراردیاگیاہے"ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ مجھےایک ایساعمل بتادیجئےجومجھےجنت میں داخل کردےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"لوگوں کےساتھ بھلائی کرنےوالابنو!اُس شخص نےعرض کیاکہ مجھےکیسےپتہ چلےگاکہ میں اچھایعنی بھلائی کرنےوالاہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اپنےپڑوس والوں سےپوچھ لواگر تیرےپڑوس والےکہےکہ تم اچھےہوتوسمجھوکہ تم واقعی اچھےہواوراگروہ کہےکہ تم بُرےہوتوسمجھوکہ تم واقعی بُرےہو(المستدرک علی الصحیحین)

جہاں تک میں جانتاہوں مرحومہ کےپڑوس والےکیاہرجاننےوالایہ گواہی ضروردیگاکہ مرحومہ انتہائی بےضرراوربہترین اخلاق کی حامل خاتون تھیں مرحومہ کی رحلت کاسب سےافسوس ناک پہلواپنےآخری دوفرزندوں کی شادی کاوہ ارمان تھاجووہ اپنےساتھ لیکرگئیں،یہی وہ تمناتھی جس کاوہ بارہاتذکرہ فرماچکی تھیں،اس تمنّا کےپوراہونےمیں وہ خودہرگزرکاؤٹ نہیں بنیں بلکہ رکاوٹ یاتوہمارےمعاشرےکےوہ خودساختہ رسومات اوررواج بنےجن کوہم نےبدقسمتی سےازخودشادی کاجزِلاینفک بنایاہیں اسلامی شادی تواتنی آسان ہےجس طرح بنی اسرائیل کےلئے من وسلوی کاملناآسان تھالیکن ہم بھی شاید بنی اسرائیل کی طرح من وسلوی پرراضی نہیں اس لئےاب ہم شادی بھی اتنی مشکل سےکرپاتےہیں جتنی مشکل سےبنی اسرائیل کوذبح کرنےکےلئےگائےملی تھی اوریاپھراس تمناکےپوراہونےمیں خودان دوغیرِشادی شدہ بیٹوں کی وہ محدودسوچ رکاوٹ بنی جس کی بنیادپروہ شادی کواپناذاتی معاملہ کہتےرہیں،کاش وہ یہ سمجھ لیتےکہ ہماری شادی سےنہ صرف یہ کہ ہماراخانہ آبادہوگابلکہ والدین کی بھی آنکھیں ٹھنڈی ہونگیں،اس بات سے اُن بھائیوں کی یاکسی اور کی دل آزاری ہرگزمقصودنہیں بلکہ اس لئےعرض کی کہ یہ ہمارےمعاشرےکاالمیہ ہے،اوربھی ہمارےکئی نوجوان دوست ہیں جن کی جوانیاں رسم ورواج یاشاندارمستقبل کےانتظارمیں پگھل رہی ہیں، خوب سمجھومیرےبھائیوں!نہ جنت دنیامیں آبادہو سکتی ہےاورنہ ہی حورجیسی دلہن ابھی تک کسی ماں نےجنی ہے بلکہ دیانت اوراخلاق کودیکھ کربلاتاخیرشادی کریں بہرحال اب ہمیں بھی یہ (تدبیرکندبندہ تقدیرکندخندہ)والامعاملہ سمجھ کربات ختم کرنی چاہئے، سلام تجھے اے عظیم ماں، کشادہ رہے تیری لحد آبادرہےتیرامدفن، معطر رہےتیراجہاں،زندہ رہےتیراشستہ کردار،سرسبزوشاداب رہےتیراجنتی گلستاں
اللہ تعالی مرحومہ کوجنت میں اعلی مقام عطاء فرمائیں اورجملہ سوگواران کوصبرِجمیل عطاء فرمائیں

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 36650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.