ایک بادشاہ…… سب سے جُدا

رانی سے محل غائب تھی۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی اتا پتا نہ چلا۔ نہ جانے اسے آسمان نے اچک لیا یا زمین نگل گئی۔ کچھ لوگوں نے رانی کی گم شدگی کی اطلاع بادشاہ تک پہنچا دی۔ بادشاہ نے فوری طور پر تحقیقات کا حکم جاری کیا۔ خفیہ کارندوں کا جال پورے علاقے میں پھیلا دیا گیا۔ چند دنوں بعد پتا چلا کہ رانی تو وشواناتھ مندر میں مقید ہے۔ بادشاہ خود معاملے کی تحقیق کے لیے مندر پہنچا۔ لیکن رانی کا اتا پتا مندر سے بھی نہ مل سکا۔ اچانک بادشاہ نے مندر کی دیوار میں نصب گنیش جی کی مورتی کے پاؤں کی جانب دیکھا اور معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا۔ بادشاہ نے مورتی ہٹانے کا حکم دیا۔ جب مورتی ہٹائی گئی تو نیچے سے سیڑھیاں برآمد ہوئیں جو نیچے تہہ خانے کی جانب جا رہی تھیں۔ اسی تہہ خانے میں رانی کو پابندِ سلاسل کیا گیا تھا۔ بادشاہ نے رانی کو بازیاب کرایا اور اغوا کاری کے اس اڈے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔

ڈاکٹر سیتا رامیا کی کتاب ’’فیچرس اینڈ دی اسٹونز‘‘ کے مطابق یہ بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر تھا۔ عالم گیر کی انصاف پسندی، رواداری، بہادری، عقل مندی، امور سلطنت سے واقفیت، دینِ اسلام سے محبت اور درویش صفتی کے قصے زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ ان ہی اوصاف کی بناء پر آپ نے متحدہ ہندوستان پر پچاس سال کے لگ بھگ حکومت کی۔ آپ3نومبر1618ء کو پیدا ہوئے اور 31 جولائی 1658ء سے 3 مارچ 1707ء تک بلا شرکتِ غیرے حکمران رہے۔ حصول سلطنت کے لیے آپ کو بہت زیادہ جد و جہد کرنی پڑی۔ حتی کہ اپنے سگے باپ اور بھائیوں کی لاشوں پرسے گزرنا پڑا۔ بادی النظر میں یہ ظلمِ عظیم اور گناہِ کبیرہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر اصل حقائق کی جانچ پرکھ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس خون آلود بحرِ ظلمات سے گزرنا ایک مجبوری تھی۔ آپ کے بھائی داراشکوہ نے اپنے باپ کی بیماری کا بہانہ بنا کر امورِ سلطنت اپنے ہاتھ لے لیے تھے اورملک خانہ جنگی کا شکار ہوتا چلا جا رہا تھا۔ داراشکوہ میں اُن کمالات کا فقدان تھا جو ایک عظیم الشان سلطنت چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔اور باقی صاحبانِ اقتدار نہ صرف اس کے سامنے بے بس تھے بل کہ حق کی راہ میں رکاوٹ بھی بنے ہوئے تھے۔

بعض لوگوں نے اورنگ زیب عالم گیر کی ذات پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔ لیکن غور طلب بات ہے کہ اگر ہم عالم گیر جیسے بادشاہوں کو اسلامی صفوں سے نکالنے کی کوشش کریں گے تو دامنِ اسلام میں تلچھٹ کے سوا رہ کیا جاتا ہے؟ علامہ شبلی نعمانیؒنے ایسے اعتراضات کے جوابات اپنی کتاب ’’مضامین عالم گیر‘‘ میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ دیے ہیں۔ سرِ دست ہم اُن کمالات کا تذکرہ کرتے ہیں جو آج بھی ہمارے حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں:

اورنگ زیب عالم گیر نے تخت نشین ہوتے ہی 80کے قریب وہ تمام محصول، ٹیکس اور نذرانے ختم کر دیے جنہوں نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا۔ مثلا مکان کا ٹیکس، سرشماری، بر شماری، برگدی، طوغانہ، جرمانہ اور شکرانہ وغیرہ۔ ان ظالمانہ ٹیکسوں کے خاتمہ کی برکت سے اﷲ تعالی نے اورنگ زیب کے دور حکومت کو وہ فراوانی عطا فرمائی کہ پچھلے کسی بادشاہ کی قسمت میں نہیں تھی۔ پٹنہ کالج کے ایک پروفیسرجدوناتھ سرکار کے مطابق اکبر کے دور حکومت میں ایک کروڑ نوے لاکھ پونڈ حکومت کی آمدنی تھی۔ شاہ جہاں کے دور میں یہ مالیت بڑھ کر22750000 پونڈ ہو گئی اور عالم گیر کے زمانے میں چار کروڑ پونڈ یعنی ساٹھ کروڑ پاکستانی روپیہ تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ساتھ شاہ نے اللوں تللوں اور فضول خرچیوں کو بھی لگام دے دی۔ شعراء، نجومیوں، مغنّیوں اور رقاصاؤں کا داخلہ محل میں ممنوع قرار دے دیا۔ عالم گیر سے پہلے دربار میں چاندی کی دواتوں میں سیاہی رکھی جاتی تھی انھیں بھی مسترد کر کے چینی کی دواتیں رکھوا دیں۔

بادشاہ نے اپنی ذات تک عوام کی رسائی کو آسان بنایا اور انصاف سستا کر دیا۔ چناں چہ فرسودہ طریقوں کو یک قلم مسترد کر کے صحیح اسلامی اصولوں کے مطابق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ ایک دفعہ اورنگ زیب کے چہیتے بیٹے مرزا کام بخش عالم گیر کے خادم نے کوئی غلطی کر لی۔ بادشاہ نے خادم کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ مرزا کام بخش نے اس کی بے جا حمایت کرنے کی کوشش کی تو اسے بھی جیل میں بھجوا دیا۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نے راہ چلتے اورنگ زیب کی جانب لاٹھی پھینکی جو اورنگ زیب کی ٹانگ پر آ کر لگی۔ آپ نے اسے معاف کر دیا اور کچھ بھی نہ کہا۔

درشن کے نام پر مشرکانہ عبادت کو ختم کروا دیا اور سجدہ تعظیمی و ہاتھ ہلانے کی رسمیں بھی منسوخ کر دیں۔ ان کی بجائے السلام علیکم کہنے کو رواج دیا۔اسلامی شعائر کی بحالی کی۔ اپنے دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء کرام سے دینی مسائل پر مشتمل کتاب ’’فتاوی عالمگیری‘‘مرتب کروائی اور درس و تدریس میں مشغول لوگوں کے وظیفے جاری کیے۔ مساجد آباد کیں اور انھیں خود کفیل بنانے کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں مساجد و مدارس کے نام کر دی گئیں۔ اسی پر بس نہیں بل کہ ہندو مندروں کو بھی بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ پارسیوں کی تقلید میں بعض پیشروؤں نے تاریخ شمسی کا استعمال شروع کر دیا تھا، عالم گیر نے دوبارہ قمری تاریخ کو جاری کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ کے کچھ ذاتی خصائل بھی ہیں۔ مثلاساری عمر رزقِ حلال کی پابندی کی اور باوجود نحیف و نزار ہونے کے محنت مزدوری کرنی نہیں چھوڑی۔بہادری اتنی کہ داراشکوہ کی ایک لاکھ فوج کو محض ایک ہزار سپاہیوں کی مدد سے شکست دے دی۔ بلخ کی مہم میں عین حالت جنگ کے دوران میدان میں گھوڑے سے اتر کر ظہر کی نماز ادا کی۔ ہر مہینے تین روزے رکھے۔ آپ نہایت سنجیدہ ، متین ، اہل کمال کے قدردان ، حلیم اور وسیع الظرف تھے۔

عدل و انصاف اور مسلمانوں کے عظمتِ رفتہ کی یہ آخری نشانی 3مارچ 1707ء کو احمد نگر میں بیمار ہوا اور نوے برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ عالم گیر کی آخری آرام گاہ ’’اورنگ آباد‘‘ کے قریب واقع شہر ’’خلد آباد‘‘ میں واقع ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Abdul Saboor Shakir
About the Author: Abdul Saboor Shakir Read More Articles by Abdul Saboor Shakir: 53 Articles with 99328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.