ٹیکنو کریٹس اور غیر سیاسی حکومت

پاکستان کی سیاست میں افوہ سازی کی صنعت کو دائمی فروغ حاصل ہے ۔ پاکستان کسی معاملے میں خود کفیل ہو یا نہ ہو لیکن افوہ سازی کے صنعت بامِ عروج پر ہے۔ عام انتخابات سے قبل ٹانگہ پارٹی نے ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ اور غیر سیاسی حکومت کے حوالے سے ہیجان خیزماحول پیدا کردیا ہے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ پاکستانی عوام اپنے پارلیمانی دور کی پٹری سے اُتر کر کسی نئے نظام کی کھوج کرنا چاہتے ہیں؟۔تو اس کا جواب ہمیں قیام پاکستان سے لیکر آج تک نہیں مل سکا ۔ با الفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ نظام"قرآن و خلافت راشدہ "کے علاوہ پاکستان میں ہر نظام حکومت کو آزمایا جاچکا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ فی الوقت ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ اور غیر سیاسی حکومت کے حوالے سے افوہوں کا گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ ٹیکنو کریٹس کو غیر سیاسی حکومت کہنا عوام کو دھوکہ دینا ہے مصنوعی حکومت کے درست خدوخال سے ہماری عوام کی اکثریت ناواقف ہے۔ انہیں تو آج تک جمہوریت کی صحیح تعریف اور تشریح بھی نہیں معلوم ۔بس اپنی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی محبت میں سرشار پارٹی کارکنان سیاسی فدائی بنے ہوئے ہیں۔
ٹیکنو کریٹ اور غیر سیاسی گورنمنٹ کا تصور ایک غیرحقیقی طرز حکومت پر مشتمل کہلایا جاتا ہے۔ دراصل یہ اشرافیہ کی تشکیل دی جانے والی حکومت کا دوسرا نام ہے جس میں عوام کو لالی پوپ دیکر بہلایا جاتا ہے۔عوام کو مطلق العنان حکومتوں میں دل فریب نعروں کی گونج میں الجھا کر کئی بار استعمال کیا جاچکا ہے۔ ان آمرانہ حکومتوں میں فیصلہ سازی کے مختلف شعبوں کے لئے تکنیکی ماہرین ، سائنسدان ، انجینئر، ماہرین اقتصادات اور خصوصی علوم رکھنے والوں افراد کو شامل کرکے ، سیاست دانوں کے بجائے حکومتی معاملات چلانے کیلئے غیر سیاسی اور ٹیکنو کریٹس کو کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔ ٹیکنو کریٹ نظام پر پاکستان کے علاوہ کئی حکومتوں نے بھی غور کیا ہے ۔ لیکن ہم نے کبھی سوچا کہ کیا پاکستان کے قیام کے بعد کسی بھی حکومت میں ٹیکنو کریٹس شامل تھے کہ نہیں ۔ ٹیکنو کریٹس حکومت کی حمایت کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک حکومت کے امورپس ِ پردہ دراصل ٹیکنو کریٹس ہی تو چلاتے رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ میں صرف فوج کا ادارہ ہی شامل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ بیورو کریٹس جو سرکاری عہدوں پر کئی کئی عشروں تک فائز رہے اور حکومتی پالیسوں کو مرتب کرتے رہے ہیں ۔ اب ریٹارڈ افراد کی تخلیقی صلاحیتیں آسمان سے اُتر آئی ہیں کہ جو کام کئی عشروں سے حکومت کے اعلی ترین عہدوں میں فائز رہنے کے باوجود نہیں کرسکے اب کرلیں گے ۔پہلے سرکاری عہدہ ختم ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی خصوصی و ٹیکنو کریٹس نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جب ناکام رہ جاتے ہیں تووہ ریاستی نظام کے کمزور گوشوں پر ضربِ مسلسل لگاتے رہتے ہیں ۔اسی عمل میں ریاست کے چلتے نظام کو کمزور کرنے کیلئے مخصوص عناصر ایک ایسی حکومت کے خواہاں ہوتے ہیں جس کا آئینی طور پر کوئی کرداراور جواز نہیں ہوتا ۔ٹیکنو کریٹس یا غیر سیاسی حکومت کے حامی عوام کو پہلے یہ بتائیں کہ جب ان کے پاس اعلیٰ عہدے موجود تھے تو انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کارنامے سر انجام دیئے تھے۔ انتخابات ملتوی کرنے کیلئے احتساب کے پُرانے نعروں کو چاندی کی قلعی میں پُر فریب بنا کر عوام کو دوبارہ کیوں دھوکا دیا جارہا ہے؟۔کیا احتساب کے نام پر کئی بار منتخب حکومتوں کا تختہ نہیں اُلٹا گیا ۔ مملکت کے معاشی و سیاسی حالات اس قدر ناگفتہ ہیں کہ ریاست من و سلوی نہیں لاسکتی۔ تو کیاٹیکنو کریٹس یا غیر سیاسی افراد پنے سوئس بنک و بیرونی ممالک میں رکھے کھربوں ڈالرز پاکستانی خزانے میں جمع کرانے کا حلف دے رہے ہیں کہ اس طرح آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک ، ایشیا بنک سمیت اندرونی و بیرونی زیر گردش قرضوں سے نجات مل جائے گی اور پاکستا ن ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔ پاکستان میں احتساب کے نام پر چار مارشل لاء آچکے ہیں ،ترمیم شدہ آئین میں مارشل لا ء کے ایک راستے کو تو روک دیا ہے ۔ تاہم اب بھی آئینی سقم موجود ہے جس میں بِنا وردی بھی منتخب حکومت کا خاتمہ اور منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ توڑکر قابل از وقت انتخابات کرائے جا سکتے ہیں ۔

گزشتہ دنوں ٹیکنو کرٹیس گورنمنٹ کے قیام کے لئے عراق میں بھی ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے خواہاں’مقتدی الا اصدر‘ کے حامیوں نے دارالحکومت بغداد کے گرین زون کے سامنے اپنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔سرکاری عمارتوں کے واقع ہونے والے گرین زون میں مظاہرین کے نام پر تقریر کرنے والے ’ اخلاص الا عبیدی ‘ کا کہنا تھا کہ ''ٹیکنو کریٹ حکومت کو واحد نشست کے ذریعے قائم کیے جانے ضرورت ہے، اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو پھر ہم وزیر اعظم، اسپیکر اسمبلی اور صدر کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کے بعد قبل از وقت انتخابات کے مرحلے کو شروع کریں گے۔ اگر اس پر بھی عمل در آمد نہ کیا جا سکا گیا تو پھر ہم مذکورہ حکام کے دفاتر میں گھستے ہوئے سول نا فرمانی کاروائی یا پھر بھوک ہڑتال شروع کریں گے"۔اب عراق سے دوبارہ پاکستان آجائیں ۔ تھوڑا فلش بیک میں جائیں ۔ دارالحکومت میں دھرنے ، مظاہرے کئے گئے ، سرکاری عمارتوں میں مظاہرین قابض ہوئے، سول نا فرمانی تحریک کی کال دی گئی ۔حکومت ٹیک اوور کی اپیلیں کی گئیں ۔ لیکن پاکستان کے پارلیمانی نظام کو" اسلام آباد فتح مشن " میں گرایا نہیں جا سکا ۔ سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے خود اپنے اعلان سے انحراف کر گئے۔ ماضی سے اب تھوڑا مزید آگے آجائیں ، سینیٹ کے الیکشن قریب ہیں ، پارلیمانی نظام کا بوریا بستر لپیٹنے کی باز گشت وزیر اعظم کے استعفیٰ سے شروع ہوئی ، پھر سابق وزیر اعظم کی مشاورتی ٹیم نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کو اختیار کیا،بعض مہم جُوسیاستدان،مختلف اداروں کے خود ساختہ ترجمان بن گئے۔ حکمران جماعت میں گروپ بندیوں کے سبب "غیر معرئی"طریقے سے مضحکہ خیز شق کو منظور کرلیا گیا ۔ اب مطالبات کا ’پارٹ ٹو ‘سامنے آچکا ہے اور قبل ازوقت انتخابات ، ٹیکنو کریٹس اور غیر سیاسی افراد پر مشتمل عبوری حکومت کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔یہاں عوام حیران ہوئے کہ غیر آئینی مطالبات کرنے والے تین مختلف راستوں پر کیوں چل رہے ہیں؟ ۔ پہلے تو یہ ہر ضمنی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ دوسرا اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کیلئے نظریاتی اختلافات کو طاق میں رکھ دیا جاتا ہے۔پھر سب سے تیسرا اہم نکتہ یہ کہ وہ اپنی صوبائی حکومتوں کو ختم کیوں نہیں کرتے؟۔ سینیٹ، قومی ، صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ کیوں نہیں دیتے ، جب ان کے نزدیک موجودہ نظام ہی درست نہیں ہے تو اس نظام کا حصہ کیوں بنے ہوئے ہیں؟۔مراعات و قومی وسائل کیوں اپنی جیبوں میں ڈالے جا رہے ہیں ؟؟۔

اب ٹیکنو کریٹس اور غیر سیاسی حکومت کیلئے نئی منطق دوبارہ سامنے لائی گئی ہے کہ مردم شماری کاباقاعدہ سرکاری اعلان نہیں ہوا ، انتخابی نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں۔ مردم شماری کے نتائج متنازعہ ہیں ۔ الیکشن کمیشن نئی ووٹر لسٹ پر نئے انتخابات نہیں کرارہا ، بائیو میٹرک الیکٹرول الیکشن ممکن نہیں۔ احتساب کاعمل مکمل ہونے تک ٹیکنو کریٹس یا غیر سیاسی افراد کی حکومت بنا دی جائے ، آئین میں تبدیلی کرکے تین سال کے لئے اس قسم کی گورنمنٹ کو "حلال"قرار دے دیا جائے۔اب ان مفروضات پر کیا کہا جائے۔ ہر ایک اپنے مطالبے کی دلیل میں اونٹ جیسی منطق لے آتا ہے جس کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ کس کروٹ بیٹھے گا۔مملکت کی معاشی صورتحال مستقبل میں تباہ کن نتائج لیکر آئے گی ۔ کیا غیر منتخب حکومت معاشی قیامت کو حل کرنے کی استعداد رکھتی ہے ؟۔ کیا اقوام عالم آمریت کی کسی نئی شکل کو تسلیم کرلیں گے ،یا پھر نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کرنی ہے ، جس میں حکمران کسی پارلیمنٹ ، کسی عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے اور ان کی استعماری قوتو ں سے کی جانے والی ڈیل کے نتائج عوام برسوں برس بھگتے رہتے ہیں۔بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ غیر جمہوری قوتیں ، استعماری طاقتوں کے نئے مطالبات کی تکمیل کیلئے ایک ایسا فورم بنانا چاہتے ہیں جس میں انہیں عالمی مفادات کو پورے کرنے کیلئے کسی رکاؤٹ کا سامنا نہ ہو۔ بلا شبہ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ کمزور ترین ہے ،اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ کمزور سیاسی ڈھانچہ بنانے میں سیاسی جماعتوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ لیکن منجدھار میں گھِری اس کشتی کو پار لگانے کیلئے نئے تجربات ، کم ازکم پاکستانی عوام کے مسائل کا حل ہرگز نہیں ہے۔پارلیمانی نظام ، صدارتی نظام اور آمریت کے اثرات و مضمرات کو گزشتہ71برسوں میں خوب اچھی طرح دیکھ لیا گیا ہے۔خلافت راشدہ کا نظام عوا م میں مقبول تو ہے لیکن تھیا کریسی کی وجہ سے غیر متنازعہ شخصیت ہی نہیں ہے جو قول و عمل کے میزان پر پوری اترتی ہو۔ کرپشن ، لوٹ کھوسٹ ، اقربا پروری، بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی بہتی گنگا میں سب نہا چکے ہیں ۔ اگر انقلاب کی بنیاد رکھنی ہے تو پارلیمنٹ سب سے پہلے کم ازکم ایک قانون سازی کرجائے کہ کرپشن کرنے والوں کو جُرم کی کم ازکم سزائے موت ہو اور ان کے کیس خصوصی عدالتوں میں چلیں۔کیوں، کیا کہتے ہیں آپ ؟۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 745439 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.